• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم کے حلف اٹھانے سے لیکر وفاقی کابینہ کے قیام تک اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یاتو میڈیا اب اتنا مضبوط نہیں رہا کہ اس کی دی ہوئی معلومات درست ثابت نہ ہوسکیں جن میں وزیراعلیٰ پنجاب کا نام بھی شامل ہے؟ یا پھر پی ٹی آئی کی حکومت نے بہت ہی رازداری سے ان ناموں کا فیصلہ کیا تھا کہ میڈیا کو بھنک بھی نہ پڑے۔ اور ایک قوی امکان یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت بنانے کے لیے ہوم ورک مکمل نہیں کیا تھا اسی لیے عین وقت پر ناموں کا تعین کیا جارہا ہے۔ اسی لیے میڈیا بھی قیاس آرائیوں پر گزارا کررہا تھا۔ اب ان ناموں کا انتخاب کتنا درست ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا کل کرے گا۔ لیکن کچھ فیصلوں پہ حیرت اور کا اظہار کیاجارہا ہے توکچھ پہ خوشی کا۔جس میں وزیردفاع اور وزیر انسانی حقوق سرفہرست ہیں۔ ایک اتنی " متحرک خاتون ـ" کو اتنی" غیرمتحرک" وزارت ملنا؟ دفاعی پیداوار کی وزارت " غیرفعال" ممبر اسمبلی کو ملنا جو کہ سیاست میں بالکل ہی متحرک نہیں ہیں۔ایسے میں لگتا ہے کہ نامزدگیاں میرٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایڈجسٹمنٹ کے طور پر بھی کی گئی ہیں۔۔۔۔لیکن دوسری جانب کچھ نامزدگیاں قابل تعریف ہیں۔ جن میں صدر پاکستان اور ڈاکٹر عشرت حسین بحیثیت مشیر شامل ہیں۔یقیناً یہ دونوں حضرات اپنے اپنے شعبہ کے ماہر ہیں۔ اوراداروں کی اصلاح کے لیے ڈاکٹرعشرت حسین ایک بڑا نام ہیں۔ لیکن جوچیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ بیوروکریسی سے کیسے نمٹاجائے گا؟ کیونکہ حکومتی معاملات کی سمجھ اور ان پر عملدرآمد تک کے سارے معاملات بہتر طور پر ان کے علم میں ہوتے ہیں ان پر چیک رکھنا ان کی کارکردگی کا جائزہ لینااور ان کو حکومت وقت کی مرضی کے مطابق چلانا یقیناً ایک مشکل عمل ہوگا۔ اس پر یقیناً موجودہ حکومت توجہ دے گی۔ تاکہ اس کی حکمت عملیوں اور منصوبوں پر عملدرآمد کے بعد مثبت نتائج سامنے آئیں۔چلیں اب پی ٹی آئی کوو قت دیں ۔ اس کو اپنے اعلان کئے ہوئے منشور کے مطابق عمل کرنے دیں۔ یقیناً اتنی جدوجہد کے بعد وہ اقتدار کے ایوان میں اپنے قدم رکھ چکے ہیں تو ذرا صبرا کا مظاہرہ کریں۔انہیں کچھ کر دکھانے کے لیے موقع فراہم کریں۔ اگر خدانخواستہ تین سے چھ مہینے کے درمیان ان کی کارکردگی نظرنہ آئے تو پھر ضرور انہیں تنقید کا نشانہ بنایاجائے۔ بہرحال چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہت بڑا بناکر تنقید اور تضحیک سے گریز کریں۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ اس وقت معاشی، سیاسی اور خارجی تعلقات کے حوالے سے پی ٹی آئی کو ایک کمزور حکومت ملی ہے ۔ اس کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز ہیں۔ جن سے عہدہ برا ہونے میں وقت لگے گا۔ایک روایت بڑی عام ہوگئی ہے کہ وزیراعظم اگر کوئی عہدہ اپنے پاس رکھ لیں تو بڑا شور مچناشروع ہوجاتا ہے۔ جبکہ یہ بڑی عام اور انٹرنیشنل پریکٹس ہے کہ دفاع، خارجہ، خزانہ اور داخلہ میں سے کوئی ایک محکمہ صدر اگر صدارتی نظام حکومت ہے تو صدر کے پاس اور اگر پارلیمانی نظام حکومت ہے تو وزیراعظم کے پاس ہوگا۔ یوں ایک نان ایشو کوایشو بنایا جاتا ہے۔ اگر ملکی ترقی کی طرف جانا ہے اور ادھار نہیں لینا جوکہ بھیک کے انداز میں ملتا ہے تو اپنی غیرت کو جگائیں اور مکمل طور پہ سادگی اپنائیں صرف حکومت ہی نہیں عام شہری پربھی یہ ذمہ داری ہے۔

تازہ ترین