• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن ِعزیز میں ڈھنگ کی راہیں مسدود ‘ہر انہونی واردات ممکن ۔ افواہیں ہیں کہ پھل پھول رہیں ہیں۔نت نئے واقعات ہیں کہ ذہن کو ماؤف کئے دیتے ہیں ۔ کسی بھی جمہوری ملک میں جہاں آئین اپنی آب وتاب سے چمکتا دکھائی دیتا ہیوہاں الیکشن کے انعقاد پر شکوک وشہبات ممکن نہیں ۔لیکن کیا کیا جائے ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
اصغر خان کیس کے اوپر سپریم کورٹ کے فیصلہ نے فوج میں ارتعاش پیداکیا ۔فوج اور سپریم کورٹ کے مابین جملہ بازی نے نیا بھونچال پیدا کیا۔ایسے بھڑکیلے ماحول میں آرمی چیف کی توسیع ملازمت پہ نوٹس نے تو جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پٹیشنرپر جسمانی تشدد فوج کی طرف سے پیغام رسانی کا ایک اندازبھی ہو سکتا ہے ۔دوسری طرف کیا سپریم کورٹ نو گو ایریاز میں قدم رکھ چکی ہے اوراُسے ایسا کرنا چاہیے تھا؟ کیا کیا جائے اندازے ‘ تجزیے‘ استخارے وسوسوں کا موجب بن چکے ہیں۔ انتخاب ہوں گے؟ آرمی چیف کا مستقبل کیا ہوگا؟ برادر ججز کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ سیاستدان ممکنہ ٹکراؤ میں کس پلڑے میں پائے جائیں گے؟ اور عوامی ردعمل کا کیا بنے گا؟ الیکشن جو سر پر آچکے ہیں ہماری آئینی ضرورت بھی ‘نئے بحران کی پیش بندی بھی ۔ کیا سیاسی جماعتیں بھی الیکشن کے لیے تیار ہیں۔؟
2010 تک مسلم لیگ ن شاید واحد سیاسی جماعت ہو جو الیکشن کے لیے ہمہ وقت تیار اور کا میابی کے کلّے گاڑنے کے لیے پرعزم لیکن 2011 میں PTI کے ظہور نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا اور اعتماد کوشدید دھچکا لگایا۔ اگرچہ پچھلے چند مہینوں میں رات دن لگا کر نیا اعتماد دریافت کرنے میں کامیاب توہو گئے لیکن اصغر خان فیصلہ نے عدمِ تحفظ کو پھر سے تقویت دی۔چنانچہ دلائل کا انبوہ، عقل و خرد کی سلجھتی گتھیاں اور مخالفین کو پراگندہ کرنے کی پھبتیاں اعتماد کو بحال کرنے میں ناکافی نتیجتاً الیکشن کی تیاری تار تار۔
وفاق میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی چار سال خواب ِخرگوش کے مزے کچھ یوں لوٹتی رہی کہ موج میلہ ہی مطمع نظر اور مطلوبِ نفس ٹھہرا ۔
بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
دونوں ہاتھوں کو بروئے کار لا کر لوٹنے میں مصروف اور چار سال کی عمرِدراز ملکی دولت کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے ناکافی بظاہر آرزوئیں بھی پوری اور حسرتیں بھی تمام ۔لیکن پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا ہونے میں ناکام ۔ نشہ ٹوٹا تو الیکشن کو سر پر کھڑے پایا۔ میاں خرگوش کی طرح سر پٹ دوڑ ے لیکن منزل کے اوپر تحریکِ انصاف کے کچھوے کو پایا۔ جو 16 سال کی طویل مسافت کے بعد براجمان تھا۔ اگر سیاسی جماعت کو یہ یقین ہو کہ انتخابات شکست پر منتج ہونا ہیں۔تو ذہنی کیفیت اور جسم کی زبان بہت کچھ اشکار کرتی ہے اور الیکشن وبالِ جان بن جاتا ہے۔ اگرچہ زرداری صاحب نے جوڑ توڑکے فن کو فنونِ لطیفہ کا ایسادرجہ دیا جیسے شریف خاندان نے پیسہ بٹورنے اور مال بنانے کے فن کو۔نواز شریف سے PPP مخالفت کا اخلاقی جوازتوچھین لیا لیکن الیکشن کے لیے درکار اعتماد مفقود‘بلکہ کوسوں دور۔
تیسرا اہم فریق پاکستان تحریک ِانصاف ہے۔ 2008 کے انتخابات جس کے بائیکاٹ کا اصولی فیصلہ”ن لیگ“ کے ساتھ مل کر کیا اور اس کو قرآن اور حدیث سمجھا ۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ جن کی سیاسی تاریخ اخلاق با ختگی ، وعدہ خلافی جیسے مزاحیہ پروگراموں سے عبارت ہے ایسے معاہدوں کو قرآن و حدیث کا درجہ دینے پر تیار نہیں ۔ اُنہوں نے معاہدے کی پاسداری کو تحریکِ انصاف کی نالائقی اور سیاسی ناپختگی کا طعنہ دے کر تضحیک کا نشانہ بنایا اور اپنے مُکر جانے پر بجائے شرمندہ ہونے کے سیاسی داؤ پیچ قرار دیا۔
بہرحال 2008 کے انتخابات میں قوم نے مشرف کو اپنے انجام تک پہنچانے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ متحد ہو کر مشرف مخالف پارٹیوں کو اقتدار تک پہنچا کر ہی دم لیا۔ اور ایک اطمینان تھا کہ دیدنی ۔
تحریک انصاف بائیکاٹ کے بعد کہ ہر دم تھی لیکن سیاسی طور پر نا پید ۔ اپنے سیاسی سفر کا آغاز دوبارہ زیروپوائنٹ سے کرنا پڑا۔
PPP اور ن لیگ کے اختلاط نے تیسری قوت کے لیے خلا میسر کی اور PTI اس کو پر کرنے کے لیے ہمہ وقت تیاربمع عمران خان کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی ۔ قوم کی اُمیدوں کا ایسامحور بن کر اُبھری کہ 2012 کے اوائل میں پورا ملک دیدہ دل فرش ِراہ بن چکا تھا اور انتخاب کا عمل ایک رسمی کارروائی ۔ فروری 2012 میں پارٹی کے اندر انتخابات کے لیے سب سے مشکل طریقہ ایجاد کیا اور مارچ اپریل تک نئی منتخب قیادت دینے کا وعدہ۔جو اب خداخداکر کے بمشکل شروع ہوا۔
اس عمل نے نہ صرف سیاسی Initiative چھین لیا بلکہ پچھلے کئی مہینے وسائل میڈیا اور ملکی سیاست پر صرف کرنے کی بجائے پارٹی الیکشن کی نذرہو چکے ۔ اب جبکہ الیکشن کی گھڑی آن پہنچی ۔ تحریک انصاف اپنے پارٹی الیکشن کرا کے نئی تاریخ تو ضرور رقم کرے گی لیکن عام انتخاب کی تیاری میں کوسوں دور۔
اگر سیاسی جماعتیں الیکشن کے لیے تیار نہ ہوں تو طالع آزماء اپنے لیے اقتدار تک رسائی کا راستہ باآسانی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ آج ریاست کے 3 موثر ستون پارلیمنٹ ، عدلیہ اور فوج بظاہر دست وگریباں نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ ہمیشہ کی طرح غیر موثر بلکہ ریشہ دوانیوں میں ممدومعاون۔عدلیہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ Defecto عوامی مینڈیٹ کے ساتھ موثر کردار ادا کر رہی ہے اور اپنے تئیں سازشوں کے سامنے سینہ سپر بھی۔اس نے چند ایسے معاملات میں نوٹس لیا جس کو عرفِ عام میں دخل در معقولات سمجھا گیااور وجہ نزاع بن چکا۔
عدلیہ کی اس دخل اندازی کے اوپر دورائے بن چکی ہیں۔ عدلیہ جس نے حکومتی کل پرزوں کی کرپشن کے اردگرد گھیرا تنگ کیا ہو ا تھا۔ اب عدلیہ کے گرد گھیرا تنگ ہونے جا رہا ہے۔ایسے حا لات میں ہرذی شعور شہری کا فکرمند اور سوالی ہونا ایک لازمی امر ٹھہرا۔سپریم کورٹ نے جس جرات سے وفاق حکومت کی کرپشن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پنجاب حکومت کے کرتوتوں سے صرفِ نظر بھی ایک سوالیہ نشان ہے مثلاََ LNG کے معاہدہ ہونے سے پہلے ہی سپریم کورٹ نے اس کو ناکام بنا دیا۔ جبکہ لاہور کی فقط ایک سڑک کے اوپر 100 بلین خرچ ہونے جا رہے ہیں۔ پورے پنجاب کے پیسے کا لاہور کی ایک سڑک پر ایسا بے دریغ استعمال ۔ اشتہارات، لیپ ٹاپ علاوہ اور سپریم کورٹ کا سوموٹونہ لینا۔ عدالتِ عظمیٰ کی اخلاقی ساکھ کو یقینا متاثر کر رہاہے۔
اب آئیے تیسرے ستون فوج کی جانب جنرل کیانی کو ساری قوم باجماعت سلوٹ پیش کرتی ہے کہ اس نے فوج کو سیاست سے دور رکھا انتہائی نامساعد حالات جب کہ غنیم گھروں کی الماریوں اور چارپائیوں کے نیچے گھس چکا۔ باوجودیکہ فوج کے کئی پہلو قابلِ گرفت ضرور مگر دانشمندی کا تقاضہ کہ اس سے گریز مفید۔یہ موقع فوج کوزچ کرنے کا نہیں۔ اصغر خان کیس سے لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائرجنرل کیانی صاحب کی توسیع ملازمت پر اعتراضات تک۔کئی تیر ترکش سے نکل چکے۔
افواہ ساز فیکٹریاں تسلسل سے ایسا مال تیا ر کرکے گلی کوچوں ، دفاتر، بازاروں میں بھیج رہی ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔چیف صاحب اور جنرل صاحب کے درمیاں اعتماد کے رشتے کی گنجائش شاید آئین ِپاکستان میں تو نہ ہو۔ لیکن یاد رکھئے ایسی بداعتمادی ریاست کی چولیں جو پہلے ہی ڈھیلی ہیں کو تہس نہس کر کے رکھ دے گی ۔اور اعتماد کایہ فقدان ملکی سالمیت کے لیے زہر قاتل بھی ۔
ابھی بھی موقع ہے کسی طریقے سے الیکشن کا فوری عمل شروع ہو جائے یہ واحد طریقہ ہے بحران کو روکنے کا۔ برادر ججز کو چندایسی باتیں جو عسکری حلقوں میں طیش پیداکر رہی ہیں کو غیر موثر کرنا ہو گا۔حضور انا اور اصول میں گنجائش پیدا کرنا ہو گی۔ پاکستان اب کسی حماقت یاہٹ دھرمی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہم اگلے چند ہفتوں میں الیکشن کا انعقادکا اعلان کرا کے 18 کروڑ عوام پر فیصلہ چھوڑ سکتے ہیں۔
اگر ملک بچانا ہے تو فوراََ عوام سے رجوع کرنا ہو گا وگرنہ ٹھن گئی۔ تو نتیجہ ٹھن ٹھن گوپال۔
تازہ ترین