• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ،حقیقی تبدیلی کے لئے مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا

اسلام آباد( طاہر خلیل) مبصرین کہتے ہیں کہ تبدیلی بجلی کا بٹن آن آف کرنے کا نام نہیں بلکہ ذہنی سوچ،فکر اور طرز عمل کو بدلنا تبدیلی کا حقیقی نام ہے ابھی ہم نے آزادی کی71 ویں سالگرہ منائی تو ہمیں رک کر ایک لمحے کےلئےسوچنا چاہیے تھا کہ71 برس پہلے جب ہماری قومی زندگی نہایت خستہ اور خاکدانِ مناظر کی آئنہ دار تھی اس وقت بھی ہماری شرح نمو 2 فیصد تھی اور لا اینڈ آرڈر بھی مثالی تھا اور 60 سے 80 کے عشرے تک معیشت مضبوط ڈھانچے کے ساتھ کھڑی تھی جس میں آج کے مقابلے میں فی کس آمدنی دوگنا تھی،افراط زر کی شرح بھی کم تھی۔ آج ہمارے ہاں غربت کی شرح 46 فیصد ہے،1980 تک یہ شرح 18فیصد سے زیادہ نہ بڑھ سکی، ایک وقت تھا جب ہمارے پاس صرف ایک ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا، آج درجنوں ٹی وی چینلز نے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بریکنگ نیوز کے ذریعے قوم کو نہ صرف نفسیاتی مریض بنادیا ہے بلکہ جھوٹی خبروں Fake News کے ذریعے لوگوں کا میڈیا پر اعتماد کم ہوگیا ہے۔ ماضی میں نوے کے عشرے تک خود موجودہ وزیراعظم نے کرکٹ کے میدان میں وہ شاندار چوکے چھکے مارے جس نے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا۔92 میں عمران خان نے ورلڈ کپ جیتا تو ہر شخص پاکستان کو ملنے والے عزو اکرام سے فخرمند ہوا یہی وہ وقت تھا جب ہم ہاکی کے چمپئن بھی تھے۔ آج جب پیچھےمڑ کر دیکھتے ہیں تو کرکٹ کے سوا ہاکی، فٹ بال اور دیگر کھیلوں میں ہم کسی شمار میں ہی نہیں آتے۔ آج کا پاکستان نت نئے جرائم کی دنیا سے آباد ہے دوعشرے پہلے تک بچوں کے ساتھ بد سلوکی کا تصور تک نہیں تھا۔ آج کا بدلا پاکستان اس افسوسناک حقیقت کی گواہی دے رہا ہے کہ حالیہ عشرے میں ہمارے 17 ہزار بچے بے رحم افراد کےہاتھوں بد سلوکی کاشکار ہوئے۔ دہشت گردی اور شدت پسندی سے ہمارا سماجی ڈھانچہ ایساتہہ و بالا ہوا کہ قوم ماضی کے تحمل و برداشت ،رواداری اور بر دباری کے اوصاف بھلا بیٹھی اور حالیہ 15 برسوں میں ایک لاکھ سے زیادہ قیمتی جانیں دہشت گردی کی نذر ہوگئیں۔ مذہبی شدت پسندی سے 5 ہزار سے زائد بے گناہ افراد جانیں گنوا بیٹھے، یہ کہا جارہا ہے کہ 25 جولائی کے انتخابات کے نتیجے میں پرانا پاکستان ریٹائر اور نئے پاکستان کا آغاز ہوگیا ہے۔ وزیراعظم، پی ایم ہائوس کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ چھوڑ کر نسبتاً ایک چھوٹے مکان میں منتقل ہوگئے ہیں جسے پی ایم ہائوس بنایا گیا ہے، اس کے ساتھ گورنر ہائوسز کی دیواریں گرانے کے اعلانات بھی ہوچکے، لیکن سوال یہ ہے کہ پی ایم ہائوس، ایوان صدر یا گورنر ہائوسز کسی کی ذاتی ملکیت ہیں؟ یہ قومی اثاثہ اور ریاست پاکستان کی علامت ہیں ان کا رہنا نہ رہنا مسائل کا حل نہیں، اصل مسائل کے حل کےلئے ہمیں سیاسی، معاشی، سماجی شعبوں میں جامع، دیرپا اور وسیع اصلاحات لانا ہوں گی۔ پاکستان تب بدلے گا جب ہماری پالیسیاں اشرافیہ کےلئے نہیں بلکہ ملک کے نچلے طبقات کو اوپر اٹھانے کےلئے بنیں گے اس ضمن میں ایک درست اقدام وزیراعلیٰ پنجاب کی نامزدگی اور ان کا انتخاب ہے ۔عثمان بزدار خودبھی اسی طبقے کا فرد ہیں جوغربت،محرومیوں اورمعاشی استحصال کا شکار ہے۔وزیراعظم عمران خان کا نصب العین پاکستان کو ایسی فلاحی ریاست بنانا ہے جس طرح نبی آخری الزماں صلعم نے مدینہ کو مثالی ریاست بنایا تھا۔مبصرین کے مطابق اس کے لئے پختہ سیاسی عزم کے ساتھ مائنڈ سیٹ بدلنا ہوں گے۔ یہاں ریاست مدینہ سے معکوس نظام چل رہا ہے جس وجہ سےہماری آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ہمارے اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، ملکی خزانے سے لوٹے گئے200 ارب ڈالر سوئس بنکوں میں موجود ہیں اور ہم 100 ارب کے قرضو ں پر 10 ارب کے سود کی ادائیگی کےلئے کشکول گدائی کبھی آئی ایم ایف ،کبھی سعودیہ اور کبھی چین کے در پر لئے کھڑے ہیں، ماضی کے مقابلے میں آج کے پاکستان میں ہم معاشی خودمختاری بھی کھوبیٹھے۔ روشن اور کر پشن سے پا ک پاکستان کی نوید سنانے والوں کےلئے داخلی اور خارجی سطح پربے شمار گھمبیر مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ لوگ توقع کررہے ہیں کہ نئے پاکستان میں دھوپ کا سفر اب ٹوٹنا چاہیے، قوم کو70 سالہ سیاسی تجربات اور ہر پانچ سال بعد تلخیوں بھرےانتخابی نتائج کی درد ناک تاریخ کے چکرسے باہر نکالا جائے۔ حسن عباس رضا نے کہا تھا زمانہ ہوگیا ہم دھوپ اوڑھے چل رہے ہیں۔۔۔ نہ جانے کب سفر ٹوٹے گا ، کب سایہ ملے گا، نہ جانے کب تلک ہم نیند میں چلتے رہیں گے۔۔۔ نہ جانے کب سرائے جاں کا دروازہ کھلے گا۔

تازہ ترین