• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری: عمران خان کی بغیر مسودہ تقریر، بھٹو کی یاد تازہ کردی

اسلام آباد(محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے قوم سے اپنے اولین خطاب میں باور کرادیا ہے کہ انہیں عوام کے مسائل کا بڑی حد تک ادراک ہے اس پر اطمینان کااظہار کیا جاسکتا ہے ماضی کے حکمرانوں نے بھی گاہے گاہے ان مسائل کی نشاندہی کی ہے اورانہیں حل کرنے کی بات بھی کی ہے تحقیقاتی جائزوں اور نصابی کتب میں ملک کو درپیش مشکلات کا تفصیلی احاطہ موجود ہوتا ہے اگر ملک کا انتظامی سربراہ اس کے بارے میں لب کشائی کرے تو کہا جاسکتا ہے کہ مسائل اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہیں ان مسائل کے بارے میں شعور وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد انہیں یقیناً حاصل نہیں ہوا وہ گزشتہ دو اڑھائی برسوں سے ان کا ذکر کرتے رہے ہیں ایک ایسی سیاسی جماعت جو چار سال سے خود کو اقتدار کی دہلیز پر فروکش تصور کرتی آرہی تھی اس سے توقع کی جاتی ہے کہ اس نے ان مسائل اورمشکلات کے ازالے کےلئے لائحہ عمل بھی مرتب کرلیا ہوگا پھر تحریک انصاف کے معاشی اور سیاسی نابغوں نے جب اپنے پہلے سو دن کے منصوبوں کااعلان کیا تو یہ تصور کیا جاتا تھا کہ ان کی پارٹی نے اس سلسلے میں لائحہ عمل مرتب کررکھا ہے جس پر حکومت سنبھالنے کے پہلے دن سے عملدرآمد شروع ہوجائے گا۔ عمران خان نے اپنی تقریر پہلے سے مرتب شدہ مسودے کےبغیر کرکے مرحوم زیڈ اے بھٹو کی یاد تازہ کردی ہے جنہوں نے دسمبر 1971 کے آخری ہفتے میں اقتدار سنبھالتے ہی قوم سے خطاب کیا اور نئے پاکستان کی نوید سنائی تھی۔اسلامی تعلیمات کا حوالہ قائداعظم علیہ الرحمتہ کی مثال بننا، سادگی اور کفایت شعاری کے اعلانات خوش آئند ہیں، انہوں نے واضح کردیا ہے کہ ملک یا بدعنوان لوگوں میں سے ایک رہے گا اس کے ساتھ ہی یہ انتباہ جاری کردیا ہے کہ جب ان لوگوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا تو بہت شور مچے گا پھر جمہوریت کو خطرے میں لانے کی باتیں ہونگی اس سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نئی حکومت کی نگاہ میں کرپشن کا حوالہ سیاسی مخالفین سے ملتا ہے انہوں نے ملک کے چیف جسٹس اور قومی احتساب بیورو کے سربراہ سے ملاقات کرنےاور مقدمات کے حوالے سے ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کی بھی بات کی ہے اسے محل نظر قرار دیا جائے گاایک جمہوری حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قانون سازی کے ذریعے اس امر کو یقینی بنائے کہ مقدمات میں غیر ضروری طوالت کا عنصر ختم ہوجائے اور کرپشن میں ماخوذ کوئی شخص تعزیر سےبچ کر نہ جانے پائے۔ ملک میں موجود غیر معمولی طورپر شدید سیاسی تناو کے ماحول میں اگر پکڑ دھکڑ کا ہدف سیاسی مخالفین بنیں تو اس سے وہ آدرش حاصل کرنے کی تمنا پوری ہونے میں لازماً مشکلات پیدا ہوں گی جن کا ذکر اتوار کی شام کی اس تقریر میں کیاگیا ہے۔ بدعنوانی اورکرپشن کو ختم کرنے کاعزم خوش آئند ہے، اصلاح احوال کے اختیار کی جانے والی تدابیر لازماً تدریجی ہوناچاہیے یہ جمہوری معاشرے کا خاصہ ہوتا ہے وگرنہ طوائف الملوکی کے جنم لینے کا خدشہ ہے اور پاکستان کے بد خواہ ایک عرصے سے کوشاں ہیں کہ ایٹمی قوت کے حامل اس اسلامی ملک کو کسی طور پر غیرمستحکم کیا جائے تاکہ ان کے مفسدانہ مقاصد پورے ہوسکیں۔ وزیراعظم نے جس راہ عمل کااعلان کیاہے اس میں وہ حصہ لائق ستائش ہے جس میں انہوں نے کفایت شعاری کے ضمن میں خود کو مثال بناکر پیش کرنے کا عزم کیا ہے ساڑھے پانچ چھ سال کی سیاسی کشاکش اور باہمی سر پھٹول کے بعد عوام اگر یہ دیکھتے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے سیاسی حریفوں کو شاخ زیتون پیش کی ہے تو وہ عش عش کراٹھتے اور خان کے سیاسی مخالفین کےلئے بھی کسی تیزی تندی کو روا رکھنے کی گنجائش کم ہوجاتی، ہمارا ملک اور معاشرہ طویل سیاسی جنگ جس نے کدورتوں کے پہاڑ کھڑے کر دئیے ہیں سکون اور بقائے باہم کے مناظر کا متلاشی ہے اس تصادم کو اگر مزید عرصے کےلئے جاری رکھا جاتا ہے تو اس سے ملک کی بھلائی اور خیر کا پہلو شاید مشکل سے ہی برآمد ہوسکے، خان کے خطاب میں نوجوانوں کےلئے حفظ مراتب ،وسیع القلبی اور دوسروں کے احترام کی تلقین شامل ہونا چاہیے تھی تاکہ ملک اسلامی سماج کی تشکیل کی جانب بڑھ سکتا۔

تازہ ترین