• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سادگی اور کفایت شعاری کوفروغ دینےوالے چندعالمی رہنما

لاہور(صابرشاہ)چونکہ پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان ہرسطح پرسادگی متعارف کرانے پر زور دے رہےہیں تاکہ اشرافیہ کی مراعات ختم کی جائیں اورحدسےزیادہ زیادتیوں کوبندکیاجائے، اس معاملے میں انھیں صرف اپنےہم وطنوں جیسےقائداعظم محمد علی جناح اور اپنےایک پیش رومحمد خان جونیجو سےمتاثرہونانہیں چاہیے بلکہ یوراگوئےکےسابق صدر جوزے موجیکا سے بھی سبق حاصل کرناچاہیے اور حتٰی کے نیپال کے سابق سربراہ سوشیل کوئرالہ اورملاوے کی پہلی خاتون صدرجوئس بِندا سےبھی کچھ سیکھناچاہیے۔ تمام مذکورہ بالاعالمی رہنما عاجزی اور سادہ طرززندگی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تاریخ کے ریکارڈ سے پتہ لگتاہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نےزندگی بھرایمانداری اور سادگی کواپنایا، لیکن بدقسمتی سےہماری تاریخ کا یہ شاندار باب صرف کتابوں میں دفن ہے اوراسے تلاش کرنا مشکل ہے۔ قائداعظم نے سادگی کوکیسے فروغ دیا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نےپہلی کابینہ کےاجلاس پرآنےوالے خرچے کی تمام تفصیلات کو چیک کیا، اگرچہ کابینہ کےاراکین کیلئے چائے اور بسکٹ پرآنےوالاخرچہ صرف 38روپے ہی تھا۔ انھوں نے حکم دیاکہ مستقبل میں کابینہ کے اجلاس میں صرف ٹھنڈا پانی ہی پیش کیاجائےگا کیونکہ پاکستان اس طرح کے اخراجات کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ 1930کےبعد سےقائداعظم ہندوستان کے بہترین اور مہنگےترین وکیل بن چکے تھے۔ وہ ایک کلائنٹ کے کاغذات چیک کرنے کے 1500روپےفی گھنٹہ وصول کرتےتھے۔ وہ اپنے سامنے ایک گھڑی بھی رکھتے تھے تاکہ اس بات کویقینی بنایاجائے کہ کلائنٹ کےساتھ انصاف ہواہے۔ اس طرح کے ایک واقعے میں ایک کلائنٹ نے اپنے مقدمے کے کاغذات قائداعظم کےسیکرٹری کوجمع کرائے جس نے کاغذات کاحجم دیکھتے ہوئے یہ سوچا کہ قائدانھیں پڑھنےکیلئےدوگھنٹے لگائیں گےلہذا اس نےاسے 3ہزارروپے جمع کرانے کو کہا۔ لیکن قائدکواس میں صرف ایک ڈیڑھ گھنٹہ لگا، انھوں نے اپنے سیکرٹری کو اسی طرح بتایا اور اگلے دن ان کے سیکرٹری نے کلائنٹ کو بلایا اور کہاکہ اپنے 750روپے لے جائو۔ 88-1987کےبجٹ کیلئےاس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجونےبھی حکومت میں سادگی متعارف کرانے کی کوشش کی۔ انھوں نےسرکاری استعمال کیلئےنئی، بڑی اوردرآمدشدہ گاڑیوں پرپابندی عائد کردی۔ سادگی کی سکیم کے تحت انھوں نے حکم دیا کہ تمام افسران جو گاڑیاں استعمال کرتے تھے وہ اب درآمد شدہ گاڑیوں کی بجائےصرف مقامی طورپرتیار کردہ سوزوکی کی گاڑیاں ہی استعمال کریں گے۔ ان کےاس اقدام نےحکومت اوربیوروکریسی کے متعدد لوگوں کوپریشان کردیاتھالیکن محمدخان جونیجو اپنے اقدام پرقائم رہے۔ بہرحال 20نومبر1979کو پاکستان کے فوجی آمرجنرل ضیاءالحق نےاعلان کیا کہ وہ راولپنڈی میں بائیک چلائیں گے۔ آغازمیں انھوں نے اپنے گھر سے دفتر تک سائیکل چلائی۔ بعدمیں انھوں نےراجہ بازار راولپنڈی تک سائیکل پرجانےکامنصوبہ بنایا۔ جنرل کی سیکیورٹی کویقینی بنانےکیلئےسپاہیوں کی بڑی تعدادکوان کےساتھ سائیکل چلانی پڑی تھی جبکہ سرکاری میڈیا کے ذریعے اس واقعے کوکافی شہرت دی گئی۔ 20 نومبر 1979 کی صبح جب یہ سائیکلنگ کامظاہرہ کیاجارہاتھا توچند سعودی جنگجوئوں نےآلِ سعود کی حکومت گرانے مکہ میں مسجدِ حرام پرقبضہ کرلیاتھا۔ جیسے ہی یہ جاری ہوئی تو ایرانی رہنما آیت اللہ خمینی نےریڈیوپر بتایاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مجرم امریکی سامراج اور عالمی زائنزم کاکام ہے۔ خمینی کے اعلان کےبعدایک ہجوم اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی جانب بڑھنے لگا۔ سفاتخانے کوآگ لگادی گئی جبکہ سٹاف اندر پھنس گیا اور ان کی موت یقینی تھی۔ فوارہ چوک پر مشتعل ہجوم جنرل ضیاءالحق کےسائیکل والےقافلے کے سامنے آگیا۔ جنرل ضیاکو تیزی سے نکلنا پڑا اور قوم سے خطاب کرناپڑا۔ لہذا جنرل ضیاءکاسائیکل چلانا مختصرعرصے کیلئے تھا۔ موجودہ وقت میں یوراگوئےکےسابق صدر جوزے موجیکا سب سےسادہ سربراہِ ریاست ہونے کے باعث عالمی توجہ کا مرکز بنے۔ سابق صدرنےشاہانہ طرز زندگی کوختم کیا اورسرکاری تقریبات میں سادہ کپٹروں میں نظرآئے اورشازونازرہی ٹائی پہنتے تھے۔اپنی تنخواہ کا 90فیصدخیرات کرنے کےسےان کی تنخواہ یوراگوئےمیں اوسطً تنخواہ 775ڈالر(486 پائونڈ)ماہانہ بنتی تھی۔ بی بی سی کے مطابق 2010میں ان کی سالانہ دولت جو یوراگوئے کے مطابق ظاہر کرنا ضروری ہے، وہ 1800ڈالر(1100پائونڈ) تھی۔ جبکہ دنیا بھر میں زیادہ تر صدور ڈرائیورکےساتھ گاڑیوں میں سفرکرتے ہیں تو یوراگوئے کے صدر خود اپنی گاڑی چلاتے تھے۔ حتٰی کہ انھیں ایک عرب شیخ نے گاڑی کیلئے10لاکھ ڈالرکی پیش کش کی تھی لیکن انھوں نے کہاکہ وہ ’’کسی پیش کش ‘‘ کو اہمیت نہیں دیتے۔ رواں سال ان کی اپنی بیوی کےآدھے اثاثے، زمین، ٹریکٹر اور گھر کی چیزیں 215000ڈالر (135000پائونڈ) تھی۔ تین ٹانگوں والے کتے،سیکیورٹی کیلئے دو پولیس اہلکار، موجیکا دارالحکومت مونٹ ویڈیو کے باہرایک چھوٹےسےفارم میں رہتےہیں۔ ملاوےکی پہلی خاتون صدرنےصدارتی طیارہ اور 60مرسڈیز لومینس گاڑیوں کوفروخت کردیا تاکہ مالی مشکلات کاشکار ملک میں سادگی کوعام کیاجائے۔ ملک کے محکمہ خزانہ کے مطابق بعدمیں طیارے کی فروخت سے حاصل شدہ رقم دس لاکھ لوگوں کی خوراک کیلئے دے دی گئی۔ سربراہِ ریاست کو حاصل فائدے ختم کرنے کے حوالے سے نیپال کے وزیراعظم سوشیل کوئرالہ کی بھی کافی تعریف کی جاتی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں سیاست دان وافردولت کے مالک ہیں سوشیل کوئرالہ کے ظاہر کردہ اثاثے صرف تین موبائل فون تھے۔ بی بی سی کے مطابق وزیراعظم کی رہائش گاہ کی جانب جاتے ہوئے انھوں نے کھٹمنڈومیں ایک گھر کو کرائے پر دے دیا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ سابق بھارتی وزیراعظم لال بہادرشاستری کی موت کے وقت ان کی واحدجائیداد ایک پرانی کار تھی جو انھوں نے قسطوں پر خریدی تھی۔ ان کی موت کے بعد ان کی بیوی نے بین کاقرضہ اداکیاتھا۔ ’’دی ٹائمزآف انڈیا‘‘ نے لکھاتھا: 1964میں شاستری خاندان کے پاس صرف 7000 روپے بینک میں تھے۔ وزیراعظم نے 5000روپے قرضے کیلئے درخواست دی تھی جو اسی دن منظورکرلی گئی۔ لیکن جلد ہی خاندان اورقوم کے ساتھ حادثہ ہوگیا۔ 11جنوری 1966کووزیراعظم تاشقندمیں انتقال کرگئے جہاں وہ بھارت اور پاکستان کےدرمیان 1965 میں ہوئی جنگ ختم کرنےکیلئےایک معاہدے پردستخط کرنے گئےتھے۔ قرضہ ادانہیں ہواتھا۔ اسے بعد میں میری والدہ (للیتہ) نے پینشن سے اداکیاتھا۔ ایک اور سابق بھارتی وزیراعظم گلزاریلانندا ایک کرائے کےبھر میں فوت ہوئے تھے اور کبھی اپنا گھر ہی خرید نہیں سکےتھے۔

تازہ ترین