• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہی میں اتحادی حکومت کی مدت اقتدار پوری ہونے والی ہے مگر اس کے نمایاں طور طریقوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان طور طریقوں میں کام سے زیادہ باتیں، پالیسی پر سیاست بازی کو ترجیح دینا اور ملک کے سامنے کھڑے بڑھتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے کے بجائے گلے سڑے نظام کے ساتھ کام کرنے میں انہماک شامل ہیں۔ بعض افراد تعبیر کرتے ہیں کہ ایک متنوع اتحاد کو برقرار رکھنا حکمراں جماعت کے قائد کا ’کار نامہ حیات‘ ہے مگر اس کامیابی کی اہمیت اسی وقت ہوتی جب یہ اتحاد قومی مسائل حل کرنے کے لئے فیصلہ کن پالیسی اقدامات کرنے کا ذریعہ بنتا مثلاً ڈوبتی ہوئی معیشت کو بچانے کے لئے فوری طور پر درکار اصلاحات، کراچی کو لا قانونیت کے گڑھے میں گرنے سے روکنا یا بلوچستان میں گورننس کے خلا کو پُر کرنا (وغیرہ)۔ عوامی اہداف کی ترویج کے بغیر اتحادی حکومت کا قائم رکھنا کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہے جس پر اتحادی حکومت یا اس کے قائد تمغہ امتیاز کے امیدوار ہوں۔ اقتدار کے دوام کو گورننس کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔
وزیر اعظم اور صدر مملکت کی دو حالیہ تقریریں اس بات کی عکاس ہیں کہ حکومتی قائدین اپنی ذمہ داری سے بچنے کے لئے لفظوں سے کھیل رہے ہیں یا اس طرح ظاہر کر رہے ہیں کہ محض ایک مسئلے کو تسلیم کرنے سے وہ مسئلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کراچی میں دفاعی نمائش کی افتتاحیہ تقریب سے خطاب کیا۔ اپنی اسی تقریر میں انہوں نے دیگر چیزوں کے علاوہ قومی مجموعی پیداوار کے تناظر میں کم ٹیکسوں کی شرح اور محصولات کی وصولی میں اضافے کی ضرورت کا حوالہ دیا۔ انہوں نے ملک کی نوجوان آبادی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر بھی بات کی۔ مگر ایسا کرنے کے لئے پالیسی سازی کس کی ذمہ داری ہے؟ یقیناً حکومت کی! اور حکومت نے محصولات میں اضافے اور آبادی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے کیا قدم اٹھایا ہے جسے وزیر اعظم اہم قرار دے رہے ہیں؟ بلاشبہ سوائے زبانی دعوؤں کے کچھ بھی نہیں گویا کہ صرف درست الفاظ کا استعمال ہدف کے حصول کے لئے کافی ہے اور (اس طرح) پالیسی اقدام کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ بلاشبہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ کسی حکومتی قائد نے اپنی تقریر کو خوشنما الفاظ سے سجایا ہو یا جو چیز کرنے کی ضرورت ہو اسے شاہانہ الفاظ میں نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ ہر سرکاری تقریر ایسی ہی ہوتی ہے جہاں اہداف کو ایسے انداز میں بیان کیا جاتا ہے گویا کہ وہ جادوئی طور پر خود بخود پورے ہو جائیں گے اور خوشنما الفاظ کو اس طرح ادا کیا جاتا ہے جیسے وہ پالیسی کا نعم البدل ہوں۔ اہداف کو ان کے حصول کی حکمت عملی طے کئے بغیرمتعین کر دیا جاتا ہے۔ ارادوں کا نہایت بلند و بانگ آہنگ میں اعلان اپنی ہی ذات میں دم توڑ چکا ہے مگر اس نوعیت کی مرصع زبان یا حوصلہ افزائی حکومت کے ان معاملات پر نیم دلانہ اقدامات سے قطعاً کوئی تال میل نہیں رکھتی بلکہ درحقیقت مرصع زبان کی زیادتی اپنی کارکردگی کے نقص کو بالکل عیاں کر دیتی ہے۔ سرکاری ’نمائشوں‘ کا معروف اور بیزار کن کردار کبھی نہ ختم ہونے والی ’اونچی سطح کی میٹنگوں‘ میں جن میں کوئی فیصلے نہیں کئے جاتے، کمیٹیوں میں جو کسی حکمت عملی کا تعین نہیں کرتیں اور اقدامات کے منصوبوں میں جن پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوتا، تبدیل ہو چکا ہے۔ اخبارات کی سرخیاں اور ٹیلی ویژن کی پٹّیاں معمول کے طور پر خبریں دیتی رہتی ہیں کہ حکومت یا صدر کسی مسئلے کا ’نوٹس لے رہے ہیں یا کسی فوری معاملے کا ’جائزہ لے رہے ہیں‘ مگر کیا میڈیا بعد میں یہ سوال کرتا ہے کہ آیا یہ خبریں کسی نتیجے پر منتج ہوئیں! اگر میڈیا ایسا کرتا تو اسے پتہ چلتا کہ حکومت کی دلچسپی صرف اس خبر کی سرخی بنوانے،کسی مخصوص صورت حال کا اثر زائل کرنے، اس کے بعد کچھ نہ کرنے اور کسی دوسرے معاملے کا ’نوٹس‘ لینے کے لئے آگے بڑھ جانے تک محدود تھی۔ گویا اس طرز عمل میں مزید رنگ بھرنے کے لئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے گزشتہ ہفتے ایک بار پھر بلوچستان کے معاملے کو حل کرنے کا لاتعداد مرتبہ کیا ہوا وعدہ دہرایا چنانچہ متعدد لوگوں نے حیرانی سے سوال کیا کہ کس چیز نے ان کی حکومت کو اب تک ایسا کرنے سے باز رکھا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہی میں اتحادی حکومت کا بنیادی مسائل پر فیصلہ سازی کے حوالے سے تخصیصی طرز عمل ’موخر کرو، ہچکچاؤ اور زبان دے کر پھر جاؤ‘ رہا ہے۔
یہ بات سرکاری مالیاتی اداروں میں بدنظمی کا حل نکالنے یا ملک کے متعدد حصوں میں زوال پذیر لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو سنبھالنے میں حکومت کی عدم صلاحیت سے ظاہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی رہنماؤں کے مرصع بیانات حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ اس کے بجائے بیانات کا یہ انداز ملک کے گمبھیر ترین مسائل کے حل میں درکار اقدامات کی عدم موجودگی پر محض پردہ ڈالنے کی کوشش ہے خواہ یہ توانائی کا بحران ہو یا آج ملکی معیشت کو خطرے میں ڈالنے والا میکرو اکنامکس کا زوال پذیر عدم توازن۔ صدر آصف علی زرداری کی ایک حالیہ تقریر ان کی حکومت کے ایک اور رویّے کی عکاس ہے یعنی اپنی ذمہ داری کا ڈول کسی اور کے کاندھے پر رکھ دینا۔ اکتوبر میں ’ساؤتھ ایشیاء فری میڈیا ایسوسی ایشن‘ کی منعقد کردہ ایک کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے دہشت گردوں اور ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری کا بوجھ علی الترتیب ’معاشرے‘ اور میڈیا کے کندھوں پرمنتقل کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کو چاہئے کہ وہ ٹیکس چوروں کی نشاندہی کرے ’اور‘ ایسے لوگوں سے رقم نکلوانے میں (حکومت کی) مدد کرے۔
صدر مملکت اس بات سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں کہ میڈیا بہت پہلے ہی ان چوروں کو شرم دلانے کے لئے ان کے نام طشت از بام کر چکا ہے مگر کیا حکومت کو ’واقعی‘ ملک میں ان لوگوں کا پتہ چلانے کے لئے میڈیا کی مدد کی ضرورت ہے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے؟ یہ حقیقت ایک طویل عرصے سے ظاہر ہے اور اس بات سے بھی سب ہی واقف ہیں کہ ملک کی تقریباً70فی صد معیشت پر بہت ہلکا ٹیکس نافذ ہے یا پھر وہ ٹیکس سے مکمل طور پر مستثنیٰ ہے اور وہ حلقے جو ٹیکس نہیں دیتے وہ حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے مضبوط ترین حلقہ انتخاب میں واقع ہیں۔ حکومت کی ’ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکس‘ پر عمل درآمد میں قطعی ناکامی جس کے باعث ’آئی ایم ایف‘ نے پاکستان کے ساتھ اپنا پروگرام ختم کر دیا خود حکومتی ارادے کمی یا اعصاب کھودینے کا نتیجہ تھی جس کے لئے کسی دوسرے کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ حکمراں اتحاد کی اصلاحات کی ذیل میں عزم کی عدم موجودگی معیشت کے ہر اس پہلو سے نمایاں ہے جسے بچاؤ کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے مگر اسے نظر انداز کر کے تباہی کی گود میں ڈال دیا گیا ہے۔ اپنی اسی تقریر میں صدر مملکت نے حوالہ دیا کہ ’ایک منقسم قوم‘ وہ سبب ہے جس کی وجہ سے ان کی حکومت دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ ’کیا آپ تیار ہیں‘ انہوں نے حاضرین سے سوال کیا ’بھرپور جوابی اقدام کے لئے‘…؟ ملک میں (اس اقدام) کے لئے کوئی سپورٹ نہیں ہے انہوں نے اپنی بات اس جملے پر ختم کی۔ مگر آخر ایسے ایکشن کے لئے قومی اتفاق رائے تشکیل دینے اور رائے عامہ کو تیار کرنے کی ذمہ داری پھر کس کی ہے؟ بلاشبہ یہاں حکومت کو اپنی قیادت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ حکومت کو اسی لئے منتخب کیا گیا ہے کہ وہ رہنمائی کرے، رائے کی پیروی نہ کرے اور رائے عامہ کو متفق کر کے ایکشن کے لئے ایک واضح راہ عمل کا تعین کرے۔ اگر حکومت اس سلسلے میں معمولی کوشش کرے گی اور اس کے بجائے جواز پیش کرے گی جیسے کہ منقسم قوم اور معاشرے میں ’کمزوری‘ وغیرہ تو پھر یہی کہا جائے گا کہ حکومت عدم اقدامات اور درکار ایکشن سے بچنے کے لئے بودے جواز گھڑ رہی ہے۔ اس کے بعد ایک مختلف الخیال حکمراں اتحاد کو برقرار رکھنے میں حکومت کی ’سیاسی ذہانت‘ کا ذکر کرتے ہیں جس پر بہت واہ واہ کی جا رہی ہے۔ اگر حکومتی اتحاد عوامی فیصلوں سے بچنے کے بجائے عوامی پالیسی کی ذیل میں فیصلے کرتا تو اسے عوامی تعریف کا حق حاصل تھا۔ مگر ایسا نہیں ہے مثلاً حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ کی جنرل سیلز ٹیکس کی مخالفت کے سامنے ٹیکس اصلاحات کو ترک کر دیا۔ ایک سیاسی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے کئے جانے والے مصلحت آمیز فیصلے عوامی اہداف کے حصول کا کبھی بھی ذریعہ نہیں بنتے۔ اگر ایسے اتحاد کا بنیادی اور غالباً واحد مقصد ریاسی وسائل تک رسائی کو محفوظ بنانا اور اپنی اتحادی جماعتوں کے مفاد کی پاسداری تک محدود ہو تو یہ کس طرح عوامی مفاد کو فروغ دے گا یا اس تناظر میں گورننس میں بہتری لائے گا۔
ایک سیاسی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے سودے بازی اور معاملات پر اتفاق رائے کی تشکیل قطعاً دو متضاد جہات ہیں۔ جیسا کے ہر جگہ ہوتا ہے کہ اقدامات کے لئے ایک طے شدہ کارکردگی یا ایک کم سے کم مشترکہ ایجنڈے پر تشکیل کردہ سیاسی اتحاد عوامی مفاد کے لئے کام کرنے کی طاقت رکھتا ہے مگر ایک ایسا اتحاد جس میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کا مقصد ریاستی خزانوں کی لوٹ کھسوٹ کے ذریعے بنیادی طور پر سرپرستی کے حصول تک رسائی کو یقینی بنانے تک محدود ہو (وہ) عوام کے لئے نہیں بلکہ صرف اپنے اور اپنے حامیوں کے مفاد کے لئے کام کرتا ہے۔ اس تناظر میں سیاسی اتحاد کی بقا عوامی اہداف کو فروغ نہیں دیتی اور اتحادی جماعتوں کے لئے خوب طاقت پکڑنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ درحقیقت حکمراں اتحاد اور اس کے وزراء کی فوج سے وابستہ پالیسیوں کے جمود نے ملک کو درپیش ہر چیلنج کو گمبھیر ترین بنا دیا ہے جب کہ بڑھتے ہوئے احساس عدم تحفظ، کمزور ہوتی معیشت، توانائی کی مفلوج کن قلت اور ناکافی عوامی خدمات یہ سب فوری توجہ کی متقاضی ہیں۔ وقت کے ایسے نازک ترین موڑ پر حکمراں اتحاد کی (صرف) آنے والے انتخابات کے لئے سیاسی اچھل کود اور سودے بازی پر توجہ کا ارتکاز ان مسائل کو پھلنے پھولنے کے لئے چھوڑ رہا ہے۔ یاد رکھئے کھوکھلی سیاسی تقریر حقیقت کے چہرے پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔
تازہ ترین