• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجید لاہوری

عید کی نماز کے فوراً بعد لوگ، چوں کہ قربانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں، اس لیے نماز پڑھتے ہی خطبہ سے بغیر گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ محلے کی مسجدوں میں عید کی نماز اسی لیے لوگ زیادہ پڑھتے ہیں کہ فوراً گھر پہنچ جائیں، یہی وجہ ہے کہ مرکزی عید گاہ میں عیدالفطر کی ایسی رونق نظر نہیں آتی، جہاں تک عید کی خوشی کا تعلق ہے ہم کو تو یہ کہیں نظر نہ آئی۔ عید گاہ میں زیادہ لوگ دُھلے کپڑے پہنے ہوئے نظر آئے۔ عید کا اہتمام جو کبھی ہوا کرتا تھا، وہ اب نظر نہیں آتا، کیوں کہ گرانی، غربت اور بے روزگاری نے لوگوں کی کم توڑی دی، بہرحال برائے نام سہی، لیکن چندلمحے خوشی کے انسان کی زندگی میں آجاتے ہیں۔

جو بات ’’میٹھی عید‘‘ میں ہے، وہ ’’نمکین عید‘‘ میں نہیں۔ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد صبر کا میٹھا پھل ’’میٹھی عید‘‘ کی صورت میں ملتا ہے، لیکن ’’نمکین عید‘‘ یوں آتی ہے، جیسے صحن میں کٹی ہوئی پتنگ گرپڑے۔ وہاں اس دن کے لیے دن گنے جاتے ہیں، لیکن ’’نمکین عید‘‘ کا دن بس یوں ہی آجاتا ہے۔‘‘ میٹھی عید‘‘ میں لوگ گھپلا بھی کرتے ہیں، ڈنڈی بھی مارتے ہیں، چوں کہ اکثریت ’’احترامیوں‘‘ کی ہوتی ہے، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ کھلے بندوں کھانے پینے کی پابندیاں ختم ہوں، اس لیے لوگ ایک دن پہلے ہی چاند دیکھ لیتے ہیں اور کئی جگہوں پر دو عیدیں ہوتی ہیں۔ ’’نمکین عید‘‘ میں نہ ایسا ’’گھپلا‘‘ چلتا ہے، نہ لوگ ڈنڈی مارتے ہیں۔

بٹوارے سے پہلے آپ نے اسٹیشنوں پر ضرور اس قسم کی صدائیں سنی ہوں گی۔

’’گوشت روٹی مسلمان!‘‘

’’ہندو دال روٹی‘‘… یا ’’ہندو پوری کچوری!‘‘

بٹوارے کے بعد… دال روٹی، پوری کچوری تو بھارت کے حصے میں آئی اور گوشت روٹی پاکستان کو ملی۔ حق بہ حق دار رسید ’’نمکین عید‘‘ اصل میں، گوشت روٹی کی عید ہے، اگرچہ مسلمان ہر روز گوشت روٹی کھاتا ہے، مگر اس دن ڈٹ کر کھاتا ہے اور تمام اگلی پچھلی کسر نکل جاتی ہے۔ گوشت کے معاملے میں اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان بہت آگے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر بھنے ہوئے گوشت کی ایک بوٹی مُردے کے منہ میں بھی ڈال دی جائے تو وہ ہو حق کر کے اٹھ کھڑا ہوگا۔ یقین نہ آئے تو کسی مُردے کے منہ میں، کباب تکے ڈال کر دیکھیے۔ اگر وہ ’’یااللہ‘‘ کہہ کر نہ اٹھ کھڑا ہو تو ہمارا ذمہ!

’’میٹھی عید‘‘ تو بس ایک دن چلتی ہے، مگر ’’نمکین عید‘‘ تین دن جاری رہتی ہے۔ بھیڑ، دنبے، بکرے ذبح ہوتے ہیں۔ گوشت گھر گھر تقسیم ہوتا ہے۔ پہلے اس کے لیے مارکیٹ جانا پڑ تاتھا، مگر اب مارکیٹ چل کر گھر آتی ہے، جس کو گوشت روٹی ملے، اسے اور کیا چاہیے۔ گلیوں میں خون کی ندیاں بہہ نکلتی ہیں، لوگ کھالیں سمیٹتے ہیں۔ یتیم خانے والے، انجمنوں والے اور ایسی جماعت والے، جو قوم کی کھال بیچ کر سیاست چلاتے ہیں، کتابیں چھاپتے ہیں، بیچتے ہیں اور پیسے کھرے کرتے ہیں۔

میں میمن مسجد سے عید کی نماز پڑھ کر نکلا تو کیا دیکھا کہ دروازے کے قریب ایک چھوٹا سا بچہ اپنے باپ سے کہہ رہا تھا:

’’ابا! کیا ہم بکرا نہیں کاٹیں گے؟‘‘

باپ نے کہا:

’’نہیں بیٹے!‘‘

بچہ بولا:

’’کیوں؟‘‘

باپ نے کہا:

’’بیٹے ہم غریب آدمی ہیں، قربانی تو بڑے آدمی دیتے ہیں، جن کو خدا نے دے رکھا ہے۔‘‘

بچے نے کہا:

’’ابا! کیا آج عید نہیں ہے؟‘‘

باپ بولا:

’’ہاں بیٹے، آج عید ہے۔‘‘

بچے نے کہا:

’’تو پھر ہم گوشت نہیں کھائیں گے تو عید کیسے ہوگی؟‘‘

باپ نے کہا:

’’ضرور عید ہوگی بیٹے اور تم گوشت بھی کھائو گے… اگر پڑوس والوں نے بھیج دیا، مگر وہ ہمیں کہاں بھیجیں گے، وہ تو اپنوں میں بانٹ کھاتے ہیں۔‘‘

میں سوچ رہا تھا کہ جو لوگ مستحق ہیں، اُن کو کوئی پوچھتا نہیں، ذبیحہ کا گوشت رشتے داروں میں بٹ جاتا ہے اور وہاں اس افراط سے جمع ہوتا ہے کہ کھایا نہیں جاتا۔ بعض لوگ نمک لگا کر اسے سوکھنے کے لیے رکھ دیتے ہیں۔ بعض چیل کوئوں کو ڈال دیتے ہیں۔ مہاجر بستیوں اور لیاری کوارٹر میں کئی گھر ایسے ملیں گے، جن کو عید کے دن بھی گوشت روٹی میسر نہیں ہوتا، آخر اس قربانی کا کیا فائدہ؟ میں نے آپ کے ہاں گوشت بھیجا، آپ نے میرے ہاں بھیج دیا، اسی طرح دن بھر ایک کے ہاں دوسرے ہاں، دوسرے کے ہاں سے، تیسرے کے ہاں پہنچتا رہا۔ یہ درست ہے کہ قربانی کی روح ختم ہوگئی ہے اور اب صرف ایک رسم سی رہ گئی ہے، مگر اس میں بھی ہم ان لوگوں کا خیال نہیں رکھتے، جو بھوکے ہیں، ننگے ہیں، بے گھر ہیں۔ ان تین دنوں میں جتنا روپیہ صرف ہوتا ہے، اس سے ہم ہر بے گھر کو آباد کرسکتے تھے۔ اگر رسم ہی ہمیں ادا کرنا ضروری تھی تو کم از کم اگر کھالیں ہی صحیح طور سے جمع ہوجاتیں تو اس رقم سے ہم ہزاروں غریبوں کی مدد کرسکتے تھے، مگر صاحب یہاں تو ’’ٹھیکے دار لوگ‘‘ کاروبار کرتے ہیں۔

دو تین دوست راستے میں مل گئے۔ گلے ملنے کے بعد اصرار ہوا کہ ذرا چائے کا دُور ہوجائے۔ ہم اللہ کی قدرت کا دیکھنے ہوٹل‘‘ میں پہنچے۔ برابر کی میز پر دو نوجوان محو گفتگو تھے:

’’جی ہاں! بالکل بے زبان بھیڑیں ہیں، یہ!‘‘

’’جبھی تو ذبح ہوتی رہتی ہیں۔‘‘

’’مگر ان کی مرضی بھی تو معلوم کرنی چاہیے، والدین کو اور پھر شادی جیسا معاملہ زندگی بھر کا ساتھ… یہ کیا کہ اپنی مرضی سے ’’جیون ساتھی‘‘ چُن دیا۔ بیٹی کی قسمت پھولتی ہے تو پھوٹے۔ آخر مذہب بھی تو اجازت دیتا ہے، اس کی لڑکی اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرے۔‘‘

’’صاحب! مذہب کی کیا کہتے ہیں… بڑے بڑے ’صالحین‘بھی ایسا ہی کرتے ہیں، لڑکیاں پرایا دھن ہیں، یہ بے زبان بھیڑیں ہیں، آج کتنی بھیڑیں ذبح ہوگئیں، چلیے جہاں اتنی بھیڑیں ذبح ہوئیں، وہاں ایک اور بھی سہی!‘‘

’’مگر بھائی! میرا دل دُکھتا ہے۔ کیا کلّے ٹھلّے کا جوان تھا، رشید! محبت میں ناکام ہوکر خودکشی کر بیٹھا، پھر سلیمہ نے بھی نیلا تھوتھا کھالیا اور مر گئی۔ بھیڑ بے زبان سہی، بکرے کو تو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘

’’ارے بھائی! چھوڑو، اس قصے کو ، ہمارے معاشرے میں بھیڑیں ہوں یا بکرے، بس یوں ہی قربان ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ہیں بھی تو قربان ہونے کے لیے…!‘‘

ہم چائے پی چکے تھے۔ میں نے دوستوں سے اجازت چاہی اور سوچتا رہا کہ کتنی بے زبان بھیڑیں قربان ہوتی ہیں، کتنے بکرے ذبح ہوتے ہیں اور پھر کہتے ہیں، صاحب کہ ’’اسلامی نظام‘‘ چلائو۔

چلتے چلتے… ایک جگہ دیکھا کہ بھیڑ بکرے بندھے چلا رہے ہیں:

ایک بکرا بولا… ’’میں!‘‘

دوسرا بولا… ’’میں!‘‘

تیسرا چلّایا… ’’میں‘‘

میں سمجھا شاید ان میں جھگڑا ہورہا ہے کہ ’’کرسی پر کون بیٹھے گا؟‘‘

دوسرا بکرا پھر بولا… ’’میں‘‘

بھیڑ نے کہا: … ’’بھے‘‘

میں سمجھا شاید بھیڑ ’’زندہ باد‘‘ کی جگہ… ’’جے‘‘ کہہ رہی ہے یعنی:

’’جو بولے سوبھے

بول مہاتما گاندھی کی جے‘‘

بکرا پھر چلّایا:… ’’میں‘‘

میں نے دیکھا ’’نور الصّالحین‘‘ ہاتھ میں تیز چُھری لیے آرہا ہے:

دوسرا بکرا چلّایا:… ’’میں!‘‘

نور الصّالحین نے کہا:

’’ارے تُو!‘‘

’’ارے تُو!‘‘

’’اور ’میں‘ گویا کچھ نہیں؟‘‘

بکرا چلّایا… ’’میں‘‘

نور الصّالحین نے فوراً بکرے کی گردن پر چُھری چلا دی اور کہا:

’’تُو نہیں، بلکہ میں۔‘‘

’’اب بول کیسے کہتا ہے، میں؟‘‘

’’میں‘‘ کی گردن پر چُھری چل گئی… یہ منظر دیکھتے ہی گھر کی طرف بھاگا، کھانا کھا کر ایسا سویا کہ رات کو نو بجے اٹھا…!

تازہ ترین