• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو عورتیں آپس میں گفتگو کر رہیں تھی،ایک نے دوسری سے پوچھا”سناؤ بہن ،تمہارے بچوں کا کیا حال ہے ؟“ دوسری نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا ”کیا سناؤں ،میرے بیٹے کی شادی تو سمجھو جیسے کسی چڑیل سے ہو گئی ہے ۔وہ نامراد صبح 11بجے سے پہلے بستر سے نہیں نکلتی ،پھر سارا دن نہ جانے کہاں کہاں گھوم کر میرے بیٹے کے پیسے برباد کرتی ہے اور رات کو جب میرا بچہ تھکا ہارا گھر آتا ہے تو اس کام چور نے کھانا تک نہیں بنایا ہوتا ،اسی بہانے وہ اسے لے کر کسی مہنگے سے ریستوران میں ڈنر کے لئے چلی جاتی ہے اور پھر دونوں رات گئے واپس آتے ہیں ۔“یہ سن کر دوسری عورت نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا”اچھا…خیر…اپنی بیٹی کی سناؤ…؟“پہلی عورت بولی”ہائے ہائے …اس کا کیا پوچھتی ہو…اس کی شادی تو سمجھو جیسے کسی فرشتے سے ہو گئی ہے ۔اس کا خاوند صبح اپنے ہاتھ سے اسے ناشتہ بنا کر دیتا ہے اور تب تک وہ بیڈ پر ہی پڑی سوتی رہتی ہے ۔اسے شاپنگ کے لئے اچھے خاصے پیسے بھی دیتا ہے اور پھر روز شام کو وہ دونوں کسی اچھے سے ریستوران میں ڈنر کرتے ہیں …اللہ نظر بد سے بچائے۔“
بے شک اس سبق آموز لطیفے میں اہل عقل و دانش کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جن میں سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اپنے بچوں کی شادی کے لئے کوئی امیر سادھو تلاش کریں تاکہ ان کی اور آپ کی زندگی ہمیشہ سکھ میں رہے لیکن افسوس کہ حقیقت میں ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔اپنے بچوں کی شادیو ں میں خوشی ہم اسی صورت تلاش کر سکتے ہیں اگر ہم نے ان کی پرورش کے دوران کوئی فرق روا نہ رکھا ہو۔اصل زندگی میں ہم کس قدر سفاک اور خود غرض واقع ہوئے ہیں اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ ہمارے معاشرے کا بڑا طبقہ اب بھی لڑکی کی پیدائش پر تقریباً ماتم کرتا ہے ۔ٹھیک ہے کہ ا ب ہم مہذب دور میں رہتے ہیں جہاں بچیوں کو پیدائش کے بعد زندہ نہیں گاڑا جاتا مگر ہم نے اسی قدر ہی ترقی کی ہے کہ بیٹی کوزندہ دفنانے کی بجائے ہم اسے پیدا کرنے والی عورت کو طعنے دے دے کر مار ڈالتے ہیں ۔آج کل کے ماڈرن دور میں وہ شخص بہت ہی روشن خیال سمجھا جاتاہے جو بیٹی کی پیدائش کے موقع پر خوش دلی سے یہ ”بریکنگ نیوز“ سنے اور اپنا موڈ خراب نہ کرے۔تاہم ایسے زندہ دل حضرات کم کم ہی پائے جاتے ہیں ،عموماً یہ خوش دلی تب دیکھنے کو ملتی ہے جب گھر میں پہلے سے دو تین نا معقول لڑکے موجود ہوں اور ”فار اے چینج“ لڑکی پیدا ہو جائے ۔
اپنی زندگی میں ہم نے جو چند مفروضے قائم کر رکھے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لڑکا بڑھاپے کا سہارا ہوتا ہے ،کمانے والا ”جی“ ہوتا ہے اور مردوں کی اس بے شرم سوسائٹی میں خاندان کے لئے ایک سائبان کی مانند ہوتا ہے۔والد اور بیٹے کا کام ہے کہ کما کر لائیں جبکہ ماں بچوں کی پرورش کرے اور بیٹی کی شادی کی فکر۔دوسری طرف بیٹی کے ”عیوب“ یہ ہیں کہ اس کی پرورش اور نگرانی بے حد کٹھن کام ہے ،کمائی کے لئے لڑکیوں کا نوکری کرنا ابھی اتنا قبول عام نہیں ہوا کہ اس پر انحصار کیا جا سکے،یوں بھی وہ پرایا دھن ہے سو بڑھاپے کا سہارا نہیں بن سکتی ،جیسے تیسے جہیز اکٹھا کرکے اگر اس کی شادی کر دی جائے تو پھر باقی عمر کے لئے اس کے شوہر کے نخرے اٹھانے پڑتے ہیں کیونکہ”آفٹر آل وہ داماد ہے“ ۔اب ان حالات میں کون بیٹی کا باپ بننا چاہے گا؟
بیٹیوں سے روا رکھی جانے والی زیادتیاں صرف قدامت پسند گھرانوں کا وطیرہ نہیں بلکہ نام نہاد پڑھے لکھے بھی اچھی خاصی نا انصافی کرتے ہیں ۔بیٹے کے لئے مہنگا سکول،بہتر کپڑے ،زیادہ آزادی…حتّیٰ کہ کھانے میں بھی ڈنڈی!کسی برگر چین پر جائیں تو بیٹے کے لئے بگ میک میل ود چاکلیٹ سنڈے جبکہ بیٹی کے لئے فقط ہیپی میل اور وہ بیچاری اسی میں ہیپی ہو جاتی ہے ۔جو بھائی اپنی بہنوں کو کالج سے پک اینڈ ڈراپ کرتے ہیں وہ یقینا اپنا فرض نبھاتے ہیں مگرنہ جانے کیوں بہن کو جائیداد میں شرعی حق دیتے وقت ان بھائیوں کی غیرت کہاں گھاس چرنے چلی جاتی ہے ؟ جونہی والدین کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ،یہ بھائی اپنی معصوم بہنوں کے جذبات ایکسپلائٹ کرکے ان سے کاغذ وں پر دستخط کروا کر جائیداد سے دستبرداری کا پروانہ حاصل کر لیتے ہیں ۔اس کے بعد وہ بہن اپنی گذر بسر کے لئے ساری عمراپنے بھائی اور بھاوج کی محتاج رہتی ہے کیونکہ اس غریب نے ڈھنگ کی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے اور نہ کوئی ہنر جو اسے معاشرے میں کوئی با عزت روزگار دلا سکے ۔رہ گیا شوہر،ان حالات میں وہ صرف طعنے دینے کا کام کرتا ہے جنہیں سہنے کے سوا لڑکی کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔
اور ان لوگوں کے تو کیا کہنے جو بیٹے کی خواہش میں چھ چھ لڑکیوں کی لائن لگا دیتے ہیں یا ”جوڑی ملانے“ کے چکر میں ڈیڑھ درجن بچے پیدا کر جاتے ہیں۔ انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ بیٹا بڑا ہوکر بل گیٹس کی کاربن کاپی بنے گا اور پھر ان کے سارے دلدر دور ہو جائیں گے۔لیکن وہ بھی انگریز کا بچہ نکلتا ہے ۔بڑا ہو کر سب سے پہلے وہ ماں کا زیور بیچتا ہے اورساری رقم کسی ایجنٹ کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا ہے تاکہ یورپ کا ویزا لگوا سکے۔”اماں،ایک دفعہ ویزا لگ جائے بس،اس کے بعد بہنوں کی شادی میری ذمہ داری۔“ ویزا لگنا تو دور کی بات ،بیٹھے بٹھائے لاکھوں روپوں کو آگ لگ جاتی ہے لیکن مجال ہے کہ بیٹے کے ماتھے پر پسینے کی ایک بوند بھی آ جائے۔وہ اسی ڈھٹائی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے ،بہنوں کو ”رُلتے“ ہوئے دیکھتا ہے اور پھر وہ دن بھی آتا ہے جب وہی بہنیں شادی کے بعد اپنے اس بھائی اور ماں باپ کی کفالت کرتی ہیں (بشرطیکہ ان کی شادی کسی انسان سے ہو جائے) اور ان کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔
تاہم اب ایسا بھی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جینوئن بھائی ہی نا پید ہو گئے ہیں ،یہاں وہ جنتی لوگ بھی بستے ہیں جن کی ساری جوانی اور بڑھاپا اپنے والدین اور بہنوں کی کفالت میں گزر جاتے ہیں لیکن کیا کریں کہ rat raceکے اس دور میں یہ کام دن بدن نا ممکن ہوتا جا رہا ہے ۔اور یہ کوئی پائیدار حل بھی نہیں ۔ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ لڑکیاں سوائے ڈاکٹر یا استانی بننے کے کوئی کام نہیں کر سکتیں یا ان کے لئے دوسری کوئی جاب مناسب نہیں ۔کتنی عجیب بات ہے کہ عورتوں کے لئے یہ چوائس بھی مردوں نے طے کر دی ہے کہ وہ کیا کر سکتی ہیں اور کیا نہیں!دنیا کا کوئی ایسا کام نہیں جو عورت نہ کر سکتی ہو ،ٹرک چلانے سے لے کر قصائی کی دکان کرنے تک ،عورتیں دنیا میں مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں ۔مرد ایک نوکری کرنے کے بعد گھر آ کر مُردوں کی طرح ڈھیر ہو جاتا ہے جبکہ عورت کو خدا نے ایک عجیب نہ ختم ہونے والی ہمت عطا کی ہے ۔تاہم ان عورتوں کی بات الگ ہے جو سارا سار ا دن گھر میں آرام کرتی ہیں اور شا م کو خاوند کے آتے ہی سر پر دوپٹہ باندھ کر بیٹھ جاتی ہیں ۔جس دن ہم نے لڑکیوں کو خاندان کے مردوں پر انحصار کروانا چھوڑ دیا اس دن کوئی ان کی جائیداد پر قبضہ کر سکے گا اور نہ انہیں ساری زندگی کسی کا محتاج ہونا پڑے گا۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہر عورت یہ طے کر لے کہ اسے زندگی میں علم اور ہنر حاصل کرنا ہے ،فقط شادی کر والینا مسئلے کا حل نہیں ۔
تازہ ترین