• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان پچھلے 22برس سے جو نیا پاکستان بنانےکی جدوجہد کر رہے تھے، وزیراعظم کے منصب کا حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز قوم سے اپنے اولین خطاب میں اس کے خدوخال واضح کر کے انہوں نے بہتر، محفوظ اور خوشحال مستقبل کے لئے عوام کی امیدوں اور توقعات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ لکھے ہوئے نکات کی مدد سے ایک گھنٹہ9منٹ طویل پُرجوش مدلل اور فی البدیہہ خطاب کو، جس میں انہوں نے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی مملکت بنانے کا عہد کیا، کروڑوں لوگوں نے بڑے انہماک اور دلچسپی سے سنا۔ انہوں نے اپوزیشن یا سابق حکومت پر براہ راست حملوں سے گریز کرتے ہوئے ملک کی موجودہ داخلی و خارجی مشکلات کا احاطہ کیا اور ان پر قابو پانے کی تدابیر کا تفصیلی ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سادگی اپنائیں گے، صنعتوں کو ترقی دیں گے، سول سروس، پولیس، سرکاری اسکولوں، اسپتالوں اور عدالتی نظام میں اصلاحات لائیں گے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑیں گے، سب کا کڑا احتساب ہو گا، جنوبی پنجاب صوبے کے قیام، فاٹا انضمام، بلوچستان اور کراچی کی ترقی، صحت کی سہولتوں، ہمسایوں سے بہتر تعلقات نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لئے قانون سازی، قانون کی بالادستی، تعلیم اور عوام کے دوسرے مسائل پر خصوصی توجہ دیں گے، بڑی سرکاری رہائش گاہوں اور لگژری گاڑیوں کی فروخت سے اربوں ڈالر حاصل کرکے بھاشا ڈیم کی تعمیر کو ممکن بنائیں گے۔ وزیراعظم ہائوس کو ریسرچ یونیورسٹی میں تبدیل کریں گے۔ ایف بی آر کو سب سے پہلے ٹھیک کریں گے۔ ٹیکس نیٹ بڑھائیں گے۔ نیب کو مضبوط کریں گے اور عوام کے ٹیکسوں کی حفاظت کی جائے گی قانون کی بالادستی قائم کریں گے۔ غربت کے ستائے ہوئے نچلے طبقے کو اوپر لائیں گے۔ ایک دن آئے گا کہ پاکستان میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان نے جن خرابیوںکی نشاندہی کی اور انہیں دور کرنے کے لئے جن اقدامات کا ذکر کیا عوامی حلقوں اور تجارتی و مالیاتی ماہرین نے انہیں انتہائی مثبت قرار دیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ اپنے پختہ ارادوں اور عمل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ ملک میں تبدیلی کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ عمران خان نے آزمودہ کار سیاسی جماعتوں کو شکست دے کر ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے جو عوام کی اکثریت کا ان کی قیادت پر بے پناہ اعتماد کا ثبوت ہے۔ تاہم یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ عوامی سطح کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی انہیں ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہو گا۔ اپنے ایجنڈے کو عملی شکل دینے کے لئے انہیں سب کی حمایت درکار ہو گی اور حمایت سیاسی تنائو کے ماحول میں حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے ماحول سازگار بنانا ہوگا ۔فی الوقت بعض معاملات پر باہمی اختلافات کے باوجود انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے ایشو پر تمام پارٹیاں یک زبان ہیں وہ حکومت کے ہر عمل کا تنقیدی جائزہ لے رہی ہیں۔ وفاقی کابینہ میں جن وزرا کو شامل کیا گیا ہے ان کے بارے میں اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان میں سے12تو پرویز مشرف کی کابینہ میں بھی شامل تھےوہ کیا ڈلیور کریں گے۔ وزیراعظم کی تقریر کو جہاں عوامی حلقوں میں پذیرائی ملی ہے وہاں اپوزیشن نے اسے مایوس کن قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ پرویز مشرف کا ایجنڈا ہے جس پر تمام اختیارات کے باوجود وہ خود عمل نہیں کرا سکے، کوئی دوسرا کیا کرائے گا۔ وزیراعظم کی تقریر میں خارجہ پالیسی کا کوئی ذکر تھا نہ دہشت گردی کے مسئلے کا۔ اسے بھی اپوزیشن نے ہدف تنقید بنایا ہے۔ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے مگر حکومت یا اپوزیشن دونوں کو اسے ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دینا چاہئے۔ حکومت کو اپوزیشن کی بعض باتوں کو برداشت اور بعض کو قبول کرنا پڑتا ہے اسی طرح اپوزیشن کو بھی حکومت کے اچھے کاموں کی حمایت کرنی چاہئے اور جہاں کوئی غلطی نظر آئے اس کی نشاندہی کرنی چاہئے۔ عوام توقع رکھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن ان کی حالت بہتر بنانے اور ملک کو درپیش سنگین مسائل سے نجات دلانے کے لئے ذاتی و گروہی مفاد کو پس پشت ڈال کر مل جل کر کام کرنے کو ترجیح دیں گے۔

تازہ ترین