• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب وزیر اعظم عمران خان!

آپ کے پاس آپ کے پروپیپل ایجنڈے، آپ کی پسے ہوئے محروم کروڑہا غربائے پاکستان کی حالت بدلنے کی سچی ا ور پرخلوص کمٹمینٹ، آپ کی مسلمہ دیانتداری قومی خودی کے جذبے اور پاکستان کو قیام پاکستان کی فلاسفی اور نظریے کے مطابق’’جدید فلاحی اسلامی مملکت‘‘ بنانے کے عزم صمیم سے آہنگ آپ کے پاس واقعی کوئی ٹیم ہے؟ ہے تو اس کی کیپسٹی اور مجموعی کیلی براتنا ہے کہ وہ آپ کے عزائم، خواب، منشور اور کمیٹمنٹس کو عمل میں ڈھالنے کے لئے آپ کے قائدانہ کردار کی ادائیگی کے لئے مطلوب معاونت فراہم کر سکے؟ آپ جو وزراء کی ٹیم لائے ہیں، اس کا بڑا حصہ اپنی سیاسی شخصیت اور پس منظر کے حوالے سے روایتی معلوم نہیں دیتا؟ کیا آپ کا الیکٹ ایبل کی مدد سے حاصل ہونے والی انتخابی کامیابی کا تجربہ کامیاب رہا ہے؟ کیا پاکستان تحریک انصاف میں آپ کے تبدیلی کے تاریخ ساز بیانیے کو سچا ثابت کرنے کے لئے مطلوب مشیران کی تلاش اور اسے پارٹی ڈھانچے کا حصہ بنانے کا کوئی نظام، کوئی میکنزم موجود ہے؟ کیا آپ کی حکمرانی کے آئندہ سفر میں آپ کا کوئی ایک ساتھی ایسا ہے، جو آپ کے ویژن، آپ کی عوامی سوچ، مطلوب تبدیلی کے عزم کی پالیسی سازی، ادارہ سازی اور فیصلہ سازی؟ پر اپنا کوئی ویژن دے سکے، میکنزم تجویز کرسکے؟ ایسے قانونی مسودات تیار کرسکے جنہیں فقط اسمبلی میں مطلوب اکثریت پر مخالف پارلیمانی گروپس مسترد نہ کرسکیں، کریں تو ان کی سیاست خطرے میں پڑ جائے، وہ مطلوب درجے پر عوام کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو اور عوام پر اسمبلی کے ایوان میں بحث سے پہلے واضح کردیا جائے کہ دیکھو! ہم تمہاری بہتری اور فلاح کے لئے کیسی قانون سازی کرنا چاہتے ہیں۔ اب تم نظر رکھو کہ ایوان میں کون سی پارلیمانی پارٹی کیا کردار ادا کررہی ہے؟ عوام کی نظر قانون سازی کے پراسس پر کیسے مرکوز کی جائے؟ کیا اس کا کوئی اہتمام پارٹی یا وزارت قانون و پارلیمانی امور میں ہوگیا ہے جو ہوجانا چاہئے تھا نہیں ہوا تو ہوگا؟ یہ کون کرے گا اور کیسے کرے؟ کہ اگر(جیسا کہ نظر آرہا ہے) ا پوزیشن خصوصاً ن لیگ شرارت یا اپنے ماتمی رویے سے پروپیپل قانون سازی کو ڈسٹرب کرے تو بےنقاب ہوجائے۔

جناب وزیر اعظم! بلاشبہ آپ کے پہلے قومی نشریے سے بخوبی واضح ہوا کہ آپ کا ایجنڈا، آپ کے انداز حکمرانی کا تصور، پاکستان کے مقام، وقار اور عزت پر آپ کی فکر، کروڑہا پسے ہوئے محروم غربائے پاکستان کے لئے آپ کا درد اور پریشانی اتنی ہی ہے جتنے وہ کرپٹ حکمرانوں کے استحصال زدہ رہے۔ آپ کے خطاب سے بھی واضح ہوا اور پہلے بھی سب مانتے ہیں، مخالف بھی دل میں کہ آپ کی دیانتداری مسلمہ ہے، یہ بھی کہ آپ پاکستان کی قومی خودی پر بہت چوکس ہیں اور اسٹیٹس کو میں اس کے زخمی ہونے پر فکرمند رہے۔ آپ کے پہلے قومی نشریے میں بخوبی یہ واضح ہوا کہ گھمبیر ملکی عوامی مسائل اور تشویشناک اقتصادی بحران کے حل کی تلاش کے لئے آپ کا رخ اور انحصار اسلامی اعتقادات، تعلیمات اور تاریخ کی جانب لگتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے جملہ اقسام پوٹینشل پر آپ کی گہری نظر ہے اور آپ اسی سے سامان راحت نکالنے پر یقین رکھتے ہیں، اس حوالے سے آپ نے جن اقدامات اور عزائم کا اظہار کیا، وہ آپ کے درست سمت میں حکومتی سفر کا بھی پتہ دیتے ہیں لیکن سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے، بڑا سوال بڑا واضح اور قابل فہم کہ کیا یہ سب کچھ فرد واحد کے کرنے کا کار عظیم ہے؟ حضور نہیں ہرگزنہیں۔ Power of one سے بھی جو ممکنہ حد تک ہوسکتا ہے، اس کا بیشتر کام ہوگیا۔ مطلوب احتساب مسلسل کا نتیجہ خیز آغاز پاکستان کی آلودہ حکومتی و سیاسی تاریخ میں آپ کا ہی عظیم کارنامہ ہے۔

لیکن مان لیجئے کہ حکمرانی اور وہ بھی موجودہ پاکستان کی کامیاب حکمرانی فرد واحد کے بس کا روگ نہیں، اس کے لئے ایک اور ایک دو نہیں گیارہ اورNone of us is as smart as all of usکی اپروچ اختیار کرنا پڑے گی ا ور گروہ کے مانند نہیں، ایک باوقار، تعلیم وتجزیے سے مزین، اپنے اپنے شعبے میں ہائی کیپسٹی کے حامل ارکان کی کمیٹڈ ، دیانتدار ویژنری مشیران کا ایک نتیجہ خیز ادارہ جاتی ڈھانچہ آپ کی اولین اور فوری ضرورت ہے، جو محتاط اندازے کے مطابق آپ کے پاس دس پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں، وہ بھی منتشر منتشر۔

ابھی دیگ کے پہلے دانے کی مثال تو نہیں بنتی، لیکن جو چاول دستیاب ہیں ان کی کوالٹی مایوس کن ہے۔ آئیں! آپ کے خطاب سے ایک وہ نکتہ نکالتے ہیں جس نے آغاز حکومت پر ہی ابتدائی عملی شکل اختیار کی ہے، یہ کہ آپ پاکستان کے مرکز اقتدار میں ایوان صدر پرائم منسٹر ہائوس اور صوبوں کے گورنر ہائوسز کے پرتعیش اور بےپناہ خرچیلے ہونے کی کانٹے دار تنقید تو عرصے سے کررہے ہیں، اسی تناظر میں آپ نے اپنی الیکشن وکٹری ا سپیچ میں اعلان کیا کہ آپ وزیر اعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے۔ آپ نے جواز بھی بہت پاور فل اور متاثر کن پیش کیا کہ پاکستان کے غریبوں کی موجودہ حالت زار میں اتنے پرتعیش وزیر اعظم ہائوس میں رہتے ہوئے شرم آئے گی۔ آپ کا مزاج شناس ہونے کے ناطے تشریح کی کہ واقعی ڈسٹرب رہیں گے۔ میڈیا کے فالو اپ میں آیا کہ آپ کے قیام کے لئے پنجاب ہائوس کا انتخاب کیا گیا اور یہ بھی کہ آپ بطور وزیر اعظم وزراء کی کالونی میں رہیں گے۔ آپ کی انتخابی فتح پر ہی ناچیز نے یہ اندازہ لگاتے ہوئے کہ اب وزیر اعظم ہائوس کے حوالے سے آپ کوئی ہٹ کر ہی فیصلہ کریں گے، اس ضمن میں اپنی تجویز کو’’آئین نو‘‘ کے طور منتخب کرلیا اور آپ کے خطاب کے بعد اپنے پہلے کالم بتاریخ 12اگست بعنوان’’پرائم منسٹر ہائوس پلس نیشنل سینٹر فار آر اینڈ ڈی‘‘ میں تجویز پیش کی کہ سیکورٹی فیکٹر کے پیش نظر پلس بیرونی مہمانوں کی باوقار مہمانداری کے لئے رہیں، پی ایم کمپائونڈ میں ہی لیکن اس کے کسی محدود حصے کا انتخاب کرلیا جائے۔ باقیماندہ میں’’نیشنل سینٹر فار آر اینڈ ڈی‘‘ کے ونگز قائم کر دئیے جائیںجس میں وزارتوں کی کارکردگی کو جدید اور نتیجہ خیز بنانے(بنیادی طور پر گڈ گورننس) کے لئے چار پانچ بڑے موضوعات پر ماہرین کی برین ا سٹارمنگ کے لئے تھنک ٹینکس قائم کردئیے جائیں۔نیز ان کے ساتھ متعلقہ موضوعات پر قومی ضروریات کے مطابق کوالٹی ریسرچ کا اہتمام کیا جائے۔ واضح کیا کہ اس طرح گڈ گورننس کو یقینی بنانے کا منظم اہتمام ہوجائے گا کہ گورننس کو جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اس طرح یہ گورننس کا دنیا میں نیا ماڈل بنتا کہ دنیا میں ایک مرکز اقتدار ایسا بھی ہے جہاں سے صرف حکمرانی نہیں ہوتی بلکہ اس کی کوالٹی کو یقینی بنانے کے لئے بھی ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کا کار عظیم بھی ہورہا ہے۔ یہ بھی واضح کیا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا اوپن سیکرٹ ’’آر اینڈ ڈی‘‘ ہے اس کی فلاسفی کو مختصراً واضح بھی کیا اور تو اور اس کی مزید وضاحت کے لئے 14اگست کے ’’آئین نو‘‘ بعنوان’’ نالج اینڈ ٹیکنالوجی بیسڈ گورننس پر کچھ اور‘‘ میں، میں نے پرائم منسٹر ہائوس پلس نیشنل سینٹر فار آر اینڈ ڈی کی مزید وضاحت کی اور سب کچھ واضح کردیا کہ یہ کیا تصور ہے اور کتناInnovativeاور کتنی بڑی مطلوب تبدیلی کا عکاس ہے۔

خبر آئی کہ وزیر اعظم کی اقامت کا فیصلہ کرنے کے لئے کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ یہ میری تجویز کے اس پہلو کی تائید تھی کہ وزیر اعظم اتنے بڑے اور اس نوعیت کے فیصلے خود نہ کریں بلکہ اس ضمن میں مشیران کا شیئر سفارش لیں۔ اب جو وزیر اعظم کے پہلے قومی نشریے میں جناب عمران خان نے قوم کو بتایا کہ وہ رہیں گے تو پی ایم ہائوس میں ہی لیکن وزیر اعظم کی اقامت گاہ میں نہیں بلکہ تین کمروں پر مشتمل ملٹری سیکرٹری ٹو پی ایم کی رہائش گاہ میں۔ گویا یہ دوسرا نکتہ تھا جو میں نے اپنی تجویز پر مبنی کالم میں دیا کہ وزیر اعظم اپنی کمیٹمنٹ کے مطابق پی ایم کی پرتعیش رہائش گاہ میں نہ رہیں، رہائش محدود ہو لیکن پی ا یم کمپائونڈ میں گویا تجویز یہاں تک نصف حد تک تسلیم ہوگئی۔ اب کمیٹی واضح کرے کہ کیا پی ایم ہائوس کو آئینی ترمیم کے بغیر یونیورسٹی بنایا جاسکتا ہے؟نیز اسے یونیورسٹی بنانا چاہئے۔ مرکز اقتدار، مرکز اقتدار ہی ہوتا ہے۔ یونیورسٹی اگر ریسرچ کی بھی ہوگی تو اس میں رجسٹرڈ ایم فل، پی ایچ ڈی تو بڑی تعداد میں آئیں گے۔ ہر دو پروگرام تحقیق کے اعلیٰ طریقوں سے آگاہی یعنی بنیادی طور پر لرننگ ہی ہے جبکہ پی ایم ہائوس بےپناہ اور بلند درجے پر ایکشن اورئینٹڈ ریاستی ڈھانچے کا سب سے بڑا اور بلند ادارہ ہے، پھر کیا ایک ہی شخص ایک ہی جماعت( حکومت میں آنے پر) اتنا بڑا فیصلہ کرسکتے ہیں؟ اس کو قومی تائید و مشاورت سے نہیں گزرنا چاہئے؟ یہ تو ممکن ہے کہ اگر گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لئے آر اینڈ ڈی اور گورننس کو جوڑ دیا جائے تو اس کے انتہائی متوقع مثبت نتائج نکلنے پر آنے والی حکومت کے لئے اسے ریورس کرنا ممکن نہ ہوگا، اگر وزیر اعظم اعلیٰ کوالٹی کے ریسرچرز اور ٹیکنوکریٹس میں گھرا ہوگا تو گورننس کیسے ٹھیک نہ ہوگی۔ وماعلینا الالبلاغ

تازہ ترین