• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے پاکستان کے حساب سے پہلے جبکہ پرانے پاکستان کے اعتبار سے 22ویں وزیراعظم کا انتخاب ہو رہا تھا تو مجھے اطالوی شاعر اور ادیب دانتے کا مشہور زمانہ قول یاد آرہا تھا۔دانتے نے غیر جانبداری کے پردے میں چھپی منافقت کو آشکار کرتے ہوئے کہا تھا ؛’’جہنم کے گرم ترین مقامات ان لوگوں کیلئے مخصوص ہیں جو اخلاقی کشمکش کے دوران غیر جانبدار رہتے ہیں ‘‘جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق تو شاید انگریزی ادب سے شغف نہ رکھتے ہوں مگر پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور ذوالفقار علی بھٹوکے نواسے بلاول بھٹو زرداری سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے یہ جملہ نہ پڑھا ہو۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کے انتخاب میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا حالانکہ یہ دونوں جماعتیں انتخابی مہم کے دوران مسلسل یہ تاکید اور تلقین کرتی رہی ہیں کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اسے ہر صورت استعمال کریں۔

الجھن تو یہ بھی ہے کہ جناب آصف زرداری کی سیاسی حکمت کے تحت پیپلز پارٹی بتدریج جماعت اسلامی کی سطح پر آگئی ہے یا پھر جماعت اسلامی شعوری ارتقا کے نتیجے میں ’’سبز‘‘ سے ’’سُرخ‘‘ ہو چلی ہے ؟اس بحث سے قطع نظر،بلاشبہ بلاول نے دل موہ لینے والی تقریر کی لیکن اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہا کچھ جائے اور کیا کچھ اور جائے ۔عمران خان کا لب و لہجہ ایسا تھا جیسے وہ قومی اسمبلی میں کھڑے نومنتخب وزیراعظم نہیں بلکہ کنٹینر سے للکارتے اور پھنکارتے اپوزیشن لیڈر ہیں ۔یہ تاویل عذر گناہ بدتر از گناہ کی طرح نہایت بودی ہے کہ اپوزیشن احتجاج نہ کرتی تو وہ ایک تاریخی اور مثبت تقریر کرتے۔جس شخص کو اپنے ہی ملک کے ایوان میں چند ارکان ملکر کر برانگیختہ اور مشتعل کرکے مطلوبہ مقاصد حاصل کر سکتے ہوں ،اس سے مزید کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ہاں مگر میری نگاہیں شہبازشریف کے تعاقب میں تھیں جو ایک شکست خوردہ انسان کی طرح ایوان میں آئے اور جب روایتی جوش و خروش سے لبریز تقریر شروع کی تو یوں لگا جیسے اچانک ہڑ بڑا کر اٹھے ہیں اور انہیں معلوم ہوا کہ ’’زمانہ قیامت کی چال چل گیا ‘‘۔ان کے حلیف سخن نواز اورحریف دشنام طراز جانے کیا کہتے ہیں مگر میرا پہلا تاثر یہی تھا کہ ’’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘شہبازشریف کو شاید پہلی بار یہ احساس ہوا کہ ان سے ہاتھ ہو گیا ہے۔ جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت تو معلوم ہوا کہ ’’بہت باریک ہیں واعظ کی چالیں‘‘۔صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے لیکن کھیل تمام ہونے کے بعدلوٹ کے بدھو گھرکو آئے تو اسے کیا کہتے ہیں؟سو باتوں کی ایک بات، سیانے کہتے ہیں لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا اپنے منہ پر مارلینا چاہئے ۔

اسباب و عوامل اپنی جگہ مگرتاریخی حقیقت یہ ہے کہ زوال اور کمال بے وجہ نہیں آتا ۔شریف خاندان کو نشانِ عبرت بنانے والوں کی غرض و غایت جو بھی ہو اور ان کی چالیں کتنی ہی کارگر کیوں نہ رہی ہوں،سچ یہی ہے کہ خود ان کی اپنی کج فہمی اور بے تدبیری نے راہ کھوٹی کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔آپ ہوسِ اقتدار کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں کہ قومی اسمبلی میں نئے وزیراعظم کا انتخاب ہو یا پنجاب اسمبلی میں نئے وزیراعلیٰ کاانتخاب ،سب جانتے تھے کہ نتائج کیا ہوں گے ،جیتنے کی ذرہ برابر توقع نہیں تھی ،لیکن کم ظرفی کا عالم یہ رہا کہ مسلم لیگ (ن)کی قدآور شخصیات کو نظر انداز کرکے مرکز میں باپ اور صوبے میں بیٹا امیدوار بن گئے ۔مرکز میں خواجہ آصف بہترین انتخاب تھے اور صوبے میں خواجہ سعد رفیق مگر حرص وہوس نے گوارہ نہ کیا کہ شہبازشریف اور حمزہ شریف کے علاوہ کوئی اور ان عہدوں کے امیدوار کے طور پر بھی سامنے آئے ۔اب دونوں ایوانوں میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر بھی یہی دو شخصیات متمکن ہو گئیں تو تکلف طرف،مسلم لیگ (ن) کی لٹیا ڈبونے کیلئے کسی دشمن کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔

انتخابات سے پہلے اور بعد میں شہبازشریف اور ان کے فرزند حمزہ شہباز نے جو کردار اداکیا ،اس پر مسلم لیگ(ن) کا ورکر شدید غصے اور تلملاہٹ کا شکار ہے ،توقع تو یہ تھی کہ پارٹی کے صدر کی حیثیت سے میاں شہبازشریف اپنے قائد اور بڑے بھائی کے بیانئے کو لیکر چلیں گے اوران کے سیاسی و غیر سیاسی دشمنوں کو شکست دینے کی کوشش کریں گے مگر انہوں نے نوازشریف اور مریم نواز سے مقابلے کی ٹھان لی اور انہیں چاروں شانے چِت کرنے میں لگ گئے ۔شاید انہوں نے مناسب سمجھا کہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی وراثت پر اپنی گرفت مضبوط کی جائے ۔بعض دوستوں کا خیال ہے کہ شہبازشریف پر اپنے بھائی کا ساتھ نہ دینے کا الزام درست نہیں۔انہوں نے اپنی حکمت عملی اور مفاہمانہ سوچ کے تحت ان مشکل حالات سے نکلنے کی تدبیر کی جو ناکام رہی ۔ممکن ہے یہ بات درست ہو لیکن تذبذب اور کنفیوژن کے باعث انہوں نے اپنی جماعت کے بیانئے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔بالفرض محال اگر ذاتی مفادات کے پیش نظر بدنیتی شامل نہیں بھی تھی تو کم از کم انہوں نے اپنی نااہلی ضرور ثابت کی۔

میں نے سنا ہے اڈیالہ جیل میں قیدمسلم لیگ (ن) کے قائدمیاں نوازشریف نے ان دنوں سیاسی قیدیوں کی طرح مطالعہ کو حرزِ جاں بنا رکھا ہے۔اگرچہ انہوں نے حضرت یوسف ؑاور ان کے بھائیوں کا قصہ پہلے بھی پڑھا ہو گا لیکن بہتر ہو گا کہ موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں وہ یہ قصہ ایک بار پھر باریک بینی سے پڑھیں۔ یہ قصہ پڑھنے کے بعد نوازشریف ضرور سوچنے پر مجبور ہونگے کہ اپنوں سے بدرجہا بہتر تو مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی جیسے وہ سیاسی ساتھی ہیں جو’’لاوی‘‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور اسی کردار کی وجہ سے ’’یہودا‘‘ جیسے لوگ انہیں بھی سیاسی موت کے گھاٹ اتارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ممکن ہے حضرت یوسف ؑ کا یہ قصہ پڑھنے کے بعد نوازشریف بھی بے اختیار کہ اٹھیں :

بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی

بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے

یا پھر فیض کا یہ شعر بھی درد کا درماں ہو سکتا ہے :

فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے

اپنا کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

بہر حال لٹنے ،بکنے اور قید ہونے کے مراحل تو طے ہو چکے لیکن ابتلا و آزمائش کے دن ابھی باقی ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ اس صدیوں پرانے قصے کی طرح اس سیاسی کہانی کا انجام بھی اچھا ہوتا ہے یا نہیں ۔

تازہ ترین