• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے وزیراعظم آچکے ہیں۔ ان کیساتھ آچکی ہے تبدیلی۔آپ تبدیلی دیکھیں گے۔ آپ تبدیلی محسوس کریں گے۔ آپ اس تبدیلی کاحصہ بنیں گے۔ پچھلے قصے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ پرانا بلکہ بہت پرانا کرکٹر ہونے کے ناطے میں عمران خان کےگرد گھیرا ڈالنے والوں میں شامل ہوچکا ہوں۔ گھیرا ڈالنے والوں میں چیدہ چیدہ لوگوں کو خاں صاحب اپنے قریب آنے دیتے ہیں۔

عمران خان نے خندہ پیشانی سے مجھے اپنے قریب آنے دیا ہے۔ خاں صاحب چونکہ بذات خود بے انتہا توجہ کا مرکز بن چکے ہیں، اس لئے وہ ایروں غیروں پرتوجہ نہیں دیتے۔ اگرکسی کی کوئی خوبی ان کو پسند آجائے تو اس پرنظرکرم عنایت کرتے ہیں اور اس شخص پرتوجہ دیتے ہیں۔ خاں صاحب کو جب علم ہوا کہ میں بہت پرانا کرکٹر ہوں اور موہن جو دڑو کرکٹ ٹیم کے لئے کھیل چکا ہوں تب انہوں نے مجھے بھرپور توجہ دی اورجب خاں صاحب کو پتہ چلا کہ میں موہن جو دڑو کی کرکٹ ٹیم میں وکٹ کیپنگ کرتا تھا تب انہوں نے مجھے قدرکی نگاہ سے دیکھا اور اپنے قریب آنے دیا۔ میں جانتا ہوں کہ عمران خان کے گرد گھیرا ڈالنے والوں میں بیشتر لوگوں کو میری عزت افزائی پسند نہیں آتی۔ انہوں نے دبے لفظوں میں میرے خلاف عمران خان کے کان بھرنے کا مقدس کام شروع کیا۔ کھوجیوں نے عمران خان کو یہاں تک بتادیا کہ میں ان کے لئے سیکورٹی رسک تھا۔ مگر عمران خان نے کسی کی نہیں سنی۔ چونکہ خاں صاحب کے گرد گھیرا ڈالنے والے بلکہ گھیرا تنگ کرنے والے کرکٹ کھیل کے فلسفے اور کھلاڑیوں کی نفسیات سے نابلد تھے۔ بلکہ نابلد ہیں۔ اس لئے وہ نہیں جانتے کہ بالر اور وکٹ کیپر کا آپس میں روحانی رشتہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر ایک فاسٹ بالر اور وکٹ کیپر کا آپس میں چولی دامن کاساتھ ہوتا ہے۔

یہ درست ہے کہ عمران خان اور میں ایک ساتھ نہیں کھیلے ہیں۔ میں جب موہن جو دڑو کی کرکٹ ٹیم کے لئے وکٹ کیپنگ کرتا تھا تب عمران خان پیدا نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ ان کے پیدا ہونے کے دور دور تک آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔

عمران خان جب فاسٹ بالر کے طور پرکرکٹ کے افق پر چمکے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیائے کرکٹ پر چھاگئے تب میں خود آثار قدیمہ بن چکا تھا اور مجھے سرجان مارشل نے موہن جو دڑو سے دریافت کیا تھا۔ سرجان مارشل ہندوستان پر راج کرنیوالے انگریزوں کے مانے ہوئے ماہر آثار قدیمہ تھے۔ برطانوی کرکٹ کے باوا آدم ڈبلیو جی گریس اور والٹر ہیمنڈ کیساتھ کرکٹ کھیل چکے تھے۔ موہن جو دڑو کی کھدائی کے دوران میں انہیں ٹوٹے پھوٹے برتنوں کے درمیان پڑا ہوا ملا تھا۔ سرجان مارشل نہ صرف ماہر آثار قدیمہ تھے وہ پرانے کرکٹر بھی تھے اور ڈبلیو جی گریس کے ساتھ نو روزہ ٹیسٹ میچز میں آسٹریلیا کے خلاف کھیل چکے تھے۔ لہذا سر جان مارشل نے مجھے ٹوٹے پھوٹے برتنوں اور مرتبانوں کے درمیان پڑا ہوا دیکھ کر فوراً پہچان لیا تھا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے عمران خان نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔

میں چونکہ عمران خان کے بہت قریب ہوں، اس لئے آنے والی تبدیلی کے سونامی سے واقف ہوچکا ہوں۔ جب تک آپ آنے والی تبدیلی اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور اعصاب سے محسوس کریں، خاں صاحب نے مجھے ذمہ داری دے دی ہے کہ میں آپ سب کو گاہے گاہے آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہ کرتا رہوں۔ اب میں اپنا مقدس فریضہ محسوس کرتے ہوئے آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں مندرجہ ذیل پیرائے میں آگاہ کرنا چاہتا ہوں، اور آگاہ کرتا رہوں گا۔

1۔ ایم این اے یا ایم پی اے بننا کئی لحاظ سے سرکاری ملازمت ہے۔ مگر اسمبلیوں میں بیٹھ کر ملک اور عوام کی فلاح اور بہبود کرنے کے لئے قانون سازی کرنے، قاعدے قوانین بنانے اور اصلاحات لانے والے ایم پی ایز اور ایم این ایز سرکاری ملازمین کے لئے بنے ہوئے قاعدے قوانین کے اطلاق سے بالاتر سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً ایم پی اے اور ایم این اے بننے کے لئے کسی قسم کی تعلیمی قابلیت کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔

ستر برس سے ایسے ایسے لوگ رکن اسمبلی بن کر ایوان اقتدار میں آکر براجمان ہوتے ہیں جو خاموش بیٹھے رہتےہیں۔ اونگھتے رہتےہیں۔ اکثر ان کو ایوان میں سوتے ہوئے اور خراٹے لیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ آنے والی تبدیلیوں کے تحت رکن قومی اورصوبائی اسمبلی بننے کے لئےوہی تعلیمی قابلیت کی شرط رکھی جائے گی جو کلرک سے لیکر بائیس گریڈ کے افسروں کے لئے رکھی گئی ہے۔ عمران خان حیران ہیں۔ بلکہ یہ سوچ سوچ کرپریشان ہیں کہ ایک ان پڑھ شخص قانون سازی کیسے کرسکتا ہے۔ تبدیلی لانے والوں کو اس بات نے بہت پریشان کیا ہے کہ اگر ایک ان پڑھ شخص قانون ساز اسمبلی کا ممبر بن سکتا ہے، تو پھرایک ان پڑھ شخص کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر کیوں نہیں بن سکتا؟

2۔ سرکاری ملازمت میں شامل ہونے اور ملازمت سے ریٹائر ہونے کے لئے عمر کی حد مقرر ہے۔ مگر قانون سازی کے لئے ایم پی اے اور ایم این اے بننے کے لئے عمر کی کوئی حد مقررنہیں ہے۔ لہٰذا ایم این اے اور ایم پی اے کے ریٹائر ہونے کے لئے عمرکی کوئی حد مقرر نہیں ۔ دوسرے یہ کہ سرکاری ملازم بننے کے لئے مکمل صحت مند ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان کو اپنی فٹنس کے لئے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ مگر ایم این اے اور ایم پی اے بننے والوں کے لئے ایسی کوئی شرط نہیں ہے اس چھوٹ کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ منتخب ہو کر آنے والے ارکان اسمبلی زیادہ تر جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کے دل کا معاملہ اکثر گڑ بڑ رہتا ہے۔ اکثر ارکان کو سنائی کم دیتا ہے۔ عمر رسیدہ ارکان بھلکڑ ہوتے ہیں۔ اپنی سیٹ کی بجائے اکثر کسی اورکی سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر بیمار پڑجائیں توسرکاری خرچ پر بیرون ملک چلے جاتےہیں۔ تبدیلی لانے والے سوچ رہے ہیں کہ یہ سنگین معاملہ ہے۔ وہ اس لئے کہ سرکاری اسکول کا ٹیچر علاج کی خاطر سرکاری خرچ پر بیرون ملک کیوں جا نہیں سکتا؟

جب تک آپ تبدیلی دیکھیں اور محسوس کریں تب تک میں آنے والی دیگرتبدیلیوں کے بارے میں گاہے گاہے آپ کو آگاہ کرتارہوں گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین