• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست مدینہ اجتماعی تعاون سے قائم ہوئی

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جس ریاست مدینہ کو اپنے لئے نمونہ بنایا، وہ ایک وسیع تر اجتماعی تعاون قربانیوں اور حسنِ عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی، سب سے پہلے ایک ٹیم تیار کی گئی، پھر بتدریج کردار سازی کی گئی۔ قیادت نے خود کو نمونہ بنایا اور ساتھیوں کو اس پر چلنے کی تلقین کی، ایک نہایت زور دار و خونخوار اپوزیشن کا مقابلہ کمال تدبر سے کیا، تب جا کر وہ ریاست قائم ہوئی جو سارے جہاں کے لئے رول ماڈل بنی، تقاریر تو اس سے پہلے بھی کی جاتی رہی ہیں، مگر مقررین شاید جو کہتے تھے وہ کرتے نہیں تھے، اگر اس نئی تقریر کے مقرر نے بھی خود کو نمونہ بنایا اور یہ باور کرا دیا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اسے صدق دل سے عملی جامہ بھی پہنانا چاہتے ہیں تو پھر قوم یہ نہیں دیکھے گی کہ کتنا کام کیا بس ساتھ چل پڑے گی، اس یقین کے ساتھ کہ غار کے دوسرے سرے پر ایک روشن دنیا ہے، 71برس ہمیں تاریکیوں سے تاریکیوں میں تاریکیوں کی طرف ہانکا گیا، اس امکان کو بھی سوچ لینا چاہئے اگر دل و دماغ مطمئن ہو کہ قائد اپنے مشن میں سچا ہے، تو پھر ساتھ دینا چاہئے فرد واحد کچھ نہیں کر سکتا صرف اچھا نمونہ پیش کر سکتا ہے، اور ایک یقین محکم دے سکتا ہے، ہمارے ہاں پون صدی کی آلائشیں چند برسوں میں صاف نہیں کی جا سکتیں مگر سفر جاری رکھا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ہر شریک سفر کو یقین ہو اعتبار ہو کہ میر کارواں درست سمت میں چل رہا ہے اور چلا رہا ہے، ایسے میں مخالفت منفی ہو یا مثبت دونوں صورتوں میں مسافر نواز ثابت ہوتی ہے، اور یہ آفاقی روش فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ مشکل کے ساتھ آسانی جڑی ہوئی ہے، گویا مشکل پر ہاتھ ڈالنا پہلے اور اس کا حل بعد میں، مگر یقینی، اگر تو وزیراعظم نے قوم کو کچھ کر کے یقین دلا دیا تو ساری قوم ساتھ دے گی ورنہ یہ شو بھی فلاپ۔

یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے

یہ عجیب رسم دیکھی کہ ہم پاکستان کو قائد و اقبال کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، مگر بناتے نہیں، ہر پاکستانی اپنے اپنے مفاد کو حاصل کر کے ایک دوسرے سے کہتا ہے، یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے میں تیرے اور تو میرے پاکستان میں مداخلت نہیں کرے گا گویا پاک سرزمین میں 22کروڑ پاکستان ہیں، تیرا میرا ختم کریں اس ایک پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے ایک ہو جائیں جو ایک خدا نے ہمیں عطا کیا، جہاں دو نمبری اجتماعی فعل بن جائے وہاں سے اعتبار و اعتماد اٹھ جاتا ہے، اسی کو ہم برکت کا اٹھ جانا بھی کہتے ہیں، اور اب تو ہماری قومی شاعری بھی ہمیں الٹی نظر آتی ہے؎

پرانے جو زر کش تھے اٹھتے جاتے ہیں

کہیں سے اور ادھار لے لے ظالم

دنیا جتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ہم اتنی تیزی سے پیچھے کو دوڑ رہے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ آگے جا رہے ہیں، گویا یقین کی بھی مٹی پلید کر دی، تو ایمان کا عالم کیا ہو گا، تقریر کی حد تک ہم سب قائد و اقبال کے مفسرین ہیں اور عمل کے لحاظ سے گراں خواب چینی، اب تو وہ بھی ایسے جاگے ہیں کہ ٹرمپ کی نیندیں ہی حرام ہو گئیں، مزے کی بات یہ ہے کہ اگر آج قائداعظم بھی ہوتے اور سنبھلنے کو کہتے تو یہ کہتے آپ کر کے دکھائیں، تاکہ ہم اس پر اپنا تجزیہ پیش کر سکیں، ہم میں سے جو بھی کسی مشکل میں ہے اپنی وجہ سے ہے، کاش وہ ایسا کچھ نہ کرتے کہ کسی مشکل سے دوچار ہوتے، غلطیاں نہ کر کے ہم زیادہ آسودہ زندگی بسر کر سکتے ہیں مگر برا ہو اس ہوس کا کہ اس نے ہمیں کیا کیا برے دن دکھائے، ہماری اکثریت اندر یا باہر سے مجرم قرار پا چکی ہے کوئی اجتماعی توبہ کا اہتمام کرنا چاہئے، جو چیز جہاں سے اٹھائی واپس وہیں رکھ دیں اور دوبارہ ایسا نہ کرنے کا، اپنے رب سے وعدہ کریں شاید ہماری یہ دنیا وہ دنیا دونوں سنور جائیں۔

٭٭٭٭

سچ میں اخلاق، اخلاق میں سچ کھو دیتے ہیں

سچ بولنا چاہیں تو زبان گندی، جھوٹ بولیں تو زبان سے شہد ٹپکے، انسان وہ جو سچ اس نرمی سے بولے کہ پتھر موم ہو جائیں، ہمارے ہاں مجذوب دانشوروں کی بھی کمی نہیں، وہ جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں مگر اس طرح کہتے ہیں کہ نہ ہی کہتے تو اچھا ہوتا، ہماری مراد یہ ہے کہ مجذوب وہ ہے جو صاحب جذباتیت ہے، سچ اگر بولنے پر آئیں تو ہماری رگیں پھول جاتی ہیں ، منہ سے شعلے نکلتے ہیں، ضرور ہم میں کسی خاص وٹامن کی کمی ہے، موٹے تازے آدمی کو غصہ نہیں آتا، ہر ایک بات پہ اسے تو کہو وہ جی کہتا ہے، مگر اس میں بھی کوئی ایسا وٹامن موجود نہیں ہوتا جو عقل و دانش، تحمل و تدبر پیدا کرتا ہے، الغرض واقعتاً ہماری اکثریت اسٹنٹڈ گروتھ کا شکار ہے، جن کا کھانا پینا ابتداء سے پورا ہے وہ ابتداء سے بے عقل اور جو شروع سے کم خوراکی سے دوچار رہے مگر ان میں عقل موجود تھی ان کی مشینری اتنی ناکارہ کہ عقل کام نہیں کرتی، آخر کیوں ہم ایک اچھی بھلی دانشمندانہ بات، بیوقوفانہ انداز میں کہتے ہیں، بات جتنی سچی ہوتی ہے لہجہ اتنا ہی بگڑ جاتا ہے، ہمارے بگاڑ کا غربت کا عقل کا بھی سراغ لگانا ناممکن، ایک نمبر غریب ڈھونڈے سے نہیں ملتا حالانکہ کروڑوں ہیں، دو نمبر غریب ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں، دو عدد خاندانی قیادتیں دیکھتے رہے ہیں اب انفرادی قیادت سامنے آئی ہے، تو یہ گلہ کہ اس کی تو سات پشتوں میں قیادت نہیں، بھلا یہ اکیلی جان قوم کو کیا دے پائے گی، اور ایک شکایت یہ بھی کہ؎

اکیلا ہی میدان اقتدار میں آ گیا

اس کا تو کوئی رشتے دار اقتدار میں نہیں

ہم ہر پانچ سال بعد کسی ایک کو حکومت دے کر ساحل پر بیٹھ جاتے ہیں، اور دیکھتے رہتے ہیں کہ منجدھار سے نکلنے کا ہنر جانتا ہے، نہیں، تیرنا آتا ہے کہ نہیں۔

٭٭٭٭

اچھائی پر تعاون برائی پر عدم تعاون (القرآن)

....Oہمارا المیہ ہے جس کے وٹامنز پورے ہیں اس کی عقل پوری نہیں جس کی عقل پوری ہے اس کے وٹامنز پورے نہیں۔

....Oچوہدری نثار وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر بھی غیر حاضر۔

انہوں نے شاید سبق یاد نہیں کیا ہو گا۔

....O خورشید شاہ:حکومت جہاں غلط ہو گی مخالفت کریں گے۔

اسے کہتے ہیں بالغ نظری، بشرطیکہ غلطی کی اصلاح بھی تجویز کی جائے۔

....Oسعد رفیق کا تیز رفتاری پر چالان، برہم۔

شاہد خاقان عباسی نے شاباش دی تھی۔

....Oبز دار کے وزیراعلیٰ بننے پر ڈاکو اور قاتل کے نعرے۔

تم کرو تو پن ہم کریں توپاپ!

....O اگر عمران خان کچھ اچھا کرنا چاہتے ہیں تو قوم دست و بازو بنے،

اور اگر ان کی زور دار تقریر فقط تقریر ثابت ہوتی نظر آئی تو بہت سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔

....Oمنفی ذہنیت، ذہنی دہشتگردی ہے، یہ اچھوں کو آگے نہیں آنے دیتی مگر شکست سے بھی یہی دوچار ہوتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین