• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رحمن ملک چوہدری نثار سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں، میرے فیصلے قومی مفاد میں ہوتے ہیں، آپ کی طرح نہیں جو منہ میں آیا بول دیا ۔
فرق اتنا ہے کہ رحمن ملک اپنے بولنے کو فیصلے کہتے ہیں جن پر عملدرآمد ندارد، حالانکہ وہ صاحب اقتدار ہیں، جبکہ چوہدری نثار کے جو منہ میں آتا ہے بول دیتے ہیں یہ اچھا ہوا کہ وہ کرسی ٴ اقتدار پر نہیں ورنہ عمل بھی ہو جاتا تو اس کے باوجود کہ گنجے نہیں پھر بھی لوگ کہتے اللہ گنجے کو ناخن نہ دے، رحمن ملک اگرچہ نادان ملک بھیہیں، لیکن اس کے باوجود ان کے چہرے پر جو مسکنت نظر آتی ہے، تو ان کو سخت سست کہنے کو جی نہیں کرتا، ان کے دل میں جہاں حسن پرستی بھی آباد ہے کسی کونے کھدرے میں ایک اچھا آدمی بھی رہتا ہے اور وہ جب چہرے پر رونما ہوتا ہے، تو غصہ کافور ہو جاتا ہے۔ چوہدری نثار کی بڑی خوبی ہے اُن کے گیسو ہیں، اور آگے کو بڑھے ہوئے لب کہ جن سے بات پھسل پھسل جاتی ہے، ان کے کاکلِ پیچاں اور رحمان ملک کی چغلیاں کھاتی مسکراہٹ دیکھ کر یہ شعر یاد آ گیا
خط بڑھا کاکل بڑھے گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
(واضح رہے کہ ہندو کا مطلب سیاہ ہے)
رحمن ملک کو دیکھ کر یہ بھی لگتا ہے وہ شوکت عزیز کا نعم البدل ہیں، چوہدری نثار کے دہن سے یہ لفظ ٹپک پڑے کہ میں ایف آئی اے کی تحقیقات نہیں مانتا، اور ان کے لیڈر نے بعد میں کہہ دیا میں ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے پر راضی ہوں، اب کیا کرے گا قاضی کہ یہاں تو ایجاب و قبول ہی موجود نہیں، اس لئے یہ سیاسی نکاح رجعی انداز میں ٹوٹ چکا ہے، اب ایک ہی حل ہے کہ میاں صاحب رجوع کر لیں اور ایسا ممکن نہیں، ہمیں جب دونوں کے معاملے کی کچھ سمجھ نہ آئی تو ناچار دونوں کیلئے یہ شعر پیش کرنا پڑا
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رَو جس میں نہ دن ہے نہ رات

وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ نے کہا ہے: ٹی وی چینلز پر ہندوستانی فلمیں اور ڈرامے دکھانے کی پابندی نہیں۔
بڑے عرصے کی بات ہے، کہ ایک دینی مدرسے کے دو طالب علموں نے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہ ایک مخصوص دینی ماحول سے آئے تھے، یونیورسٹی میں حسن نسواں کے جلوے اس انداز میں دیکھے، کہ جگہ جگہ آدم و حوا محو گفتگو تھے اور کلاس میں مخلوط فضاء تھی، ایک نے کہا یار میں تو جا رہا ہوں چھوڑ کر دوسرے نے پوچھا کیوں؟ اس نے کہا میرے ایمان کو خطرہ ہے، یوں وہ تو چلا گیا اور جس کا ایمان پختہ تھا وہ قائم رہا، یہ دنیا اب سمٹ کر ایک چنبے کا گاؤں بن چکی ہے، اس میں ہم تم کی تکرار اچھی نہیں لگتی۔ سب جانے پہچانے سے لگتے ہیں، اگر ایک شخص کے کمرے میں کوئی خوبصورت تصویر آویزاں کر دی جائے تو وہ ایک دن دیکھے گا اور اس کے بعد اس کی طرف اس پر نگاہ بھی نہیں ڈالے گا اور اگر دیکھے گا بھی تو اس کے افکار و نظریات اور بالخصوص نیت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جس شخص نے کبھی برائی کو دیکھا تک نہ ہو وہ تو اسے نیکی سمجھ کر کر بیٹھے گا، اوراگر کوئی بھول چوک ہو بھی جائے تو توبہ کے گیٹ جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں، حافظ شیراز کو دیکھئے کہ
بعزمِ توبہ سحر گفتم استخارہ کنم
بہار توبہ شکن میرسد چہ چارہ کنم
(صبح سویرے اٹھ کر استخارہ کر کے توبہ کی، کہ اسی دوران توبہ توڑ بہار آ گئی اب کہئے میں کیا کرتا)
آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر تہذیب ہر کلچر ہر روئے نگاریں جنات کی طرح ہوا بن کر اندر آ جائے گا لیکن کنٹرول بٹن آپ کے پاس ہے۔ آپ کوئی دینی مذہبی چینل لگا دیں، کوئی خبروں کا بلٹن سن لیں، ضرور یہ دیکھنا ہے کہ منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے،

چیف جسٹس نے کہا ہے: لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے روکنا عدالت کا کام ہے۔ سی این جی کی قیمت 5 دسمبر تک برقرار رہے گی۔
لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والے نہ ہوتے تو چیف جسٹس کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، یہ جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کا دائرہ بہت وسیع ہے، اور اس کی لاتعداد اقسام ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ
کس کے روکے رکا ہے سویرا
دم بھر کا ہے مہمان اندھیرا
عام لوگوں کے پاس رہزنوں کے لئے تو کچھ باقی نہیں رہا، کیونکہ ان کے پہنچنے سے پہلے حکمرانوں نے لوگوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ ان کی جیب سے کچھ برآمد ہو، بڑے بڑے ڈاکوؤں نے جن کی ہیئت شرفاء سے ملتی ہے، مگر اقتدار و اختیار رکھتے ہیں۔ عوام الناس کو تہی دست کر چکے ہیں ایک کفن چور نے قبر کھودی تو دیکھا کہ کفن غائب ہے، تب اس نے بے دلی سے کہا ”رحم اللہ اول نباشٍ“ (اللہ میرے پیشرو کفن چور پر رحم کرے جس نے میرے لئے کچھ چھوڑا ہی نہیں)
سارا فساد محرومیوں کا ہے، اور دولت کی غلط تقسیم کا جس نے غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر ترین بنا چھوڑا ہے، اگر معاشرے میں خوشحالی ہو، ریاست ضروریات زندگی پورا کر دے تو یہ چھوٹی موٹی چوریاں تو ہوتی ہیں، مگر یوں کراچی کے ساحل سے لے کر تابخاک خیبر سرکاری غیر سرکاری ڈاکہ زنی کا بازار گرم نہ ہوتا، چیف جسٹس کا ہر قدم خیر کی طرف اٹھتا ہے اگر وہ کچہریوں کا بھی ایک پھیرا لگا لیں، اور وہاں جو کچھ عدل اور قانون مل کر کر رہے ہیں، تو وہ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے، ہمارے ایک مہربان کے ساتھ یہ ہوا کہ وہ کسی جگہ کھڑے تھے کہ فراٹے بھرتا ہوا حسن ان کے قریب آ گیا اور نہایت شیریں لہجے میں کہا آپ کو دیکھ کر میں ٹھٹک سی گئی کہ کیا چہرہ ہے، اپنا ایک فرضی نمبر بھی دیا، ا ور ہزار روپیہ مانگ لیا، جو فوراً دے دیا گیا۔ نوٹ پرس میں رکھا اور یہ جا وہ جا، اور ہمارا مہربان یہ کہتا رہ گیا
موج خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی

نواز شریف نے کہا ہے: جماعت اسلامی فنکشنل لیگ اور ہم خیال سے اتحاد ہو سکتا ہے،
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
اچھا ہوا کہ میاں نواز شریف بھی اتحادی بنانے کی طرف راغب ہوئے، اور انہوں نے اگرچہ چند تھکی ہوئی جماعتوں سے اتحاد کا مژدہ سنایا ہے تاہم یہ بھی غنیمت ہے، اور یہ غنیمت بھی امکانی ہے، یقینی نہیں، ایک زمانہ تھا کہ مسلم لیگ ق ان کے دامن میں پکے ہوئے پھل کی طرح گرنے والی تھی کہ انہوں نے دامن ہی سمیٹ لیا، اور اس امکان ہی کو رد کر دیا۔ جماعت اسلامی کتنی سیٹیں جیت لے گی، فنکشنل کیا فنکشن دکھا کر ڈی فنکٹ ہو جائے گی اس پر بھی غور کرنا چاہئے، ہنوز مسلم لیگ ن تنہاء کھڑی ہے اب میاں صاحب سے یہی کہا جا سکتا ہے،
تم ایسے کھرے داد و ستد کے تھے کہاں سے
تنہا گئے ہو اب رہو تنہا کوئی دن اور
یہ قوم تو اتنی رحمدل ہے کہ کوئی دانت نکال کر ذرا ہنس کر گلے لگا کر بات کر لے چاہے ماضی میں اس نے اس کا ابا ہی کیوں نہ مارا ہو تو یہ سب کچھ بھلا کر اپنا سب کچھ اس کے دامن میں ڈال دے گی ووٹ تو کوئی چیز ہی نہیں، ان دنوں زرداری کی سیاسی گراری بہت تیز چل رہی ہے، وہ پنجابی بھی سیکھ رہے ہیں، اور بچا کے رکھا ہوا ”پیار“ لوگوں میں بڑی انکساری کے ساتھ بانٹ رہے ہیں، قوم کا حافظہ چونکہ کمزور ہے، اس لئے اس میں کچھ بھی ڈالا جا سکتا ہے، پھر انہوں نے اپنی پوری ممکنہ کابینہ پہلے ہی سے مرتب کر لی ہے، ان کا کوئی اتحادی ان سے الگ نہیں ہوا، اور پلڑا دیکھ کر مزید پنچھی بھی ان کے دام میں الجھ سکتے ہیں، اس لئے میاں صاحب سے کہنا پڑے گا مشتری ہوشیار باش کہ مشتری زرداری کے برج میں داخل ہو چکا ہے
سن ری سن ری سجنی اب کیا ہو گا؟
تازہ ترین