• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری:حلف اٹھاتے ہی وزراء نے پریس کانفرنسوں کا طومار باندھ دیا

اسلام آباد(محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)وفاقی کابینہ کے ارکان نے پیر کو حلف اٹھاتے ہی اسلام آباد میں الگ الگ پریس کانفرنسوں کا طومار باندھ دیا اور کوئی قابل ذکر اعلان کرنے کی بجائے اپنی رونمائی کااہتمام کیا تاکہ ان کے حلقہ نیابت میں پتہ چل جائے کہ وہ’’پرچم بردار‘‘ ہوگئے ہیں۔ وزارت پر فائز ہونے والوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قلمدان سنبھالنے کے بعد اپنی وزارتوں سے بریفنگ لیں گے اور اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں بخوبی معلومات حاصل کرکے اپنے عزائم کے بارے میں دنیا کو آگاہ کریں گے یہاں ہمارے وزرا کو ٹیلی ویژن کیمروں اور ان کی روشنیوں کی چکا چوند نے بےقرار کررکھا تھا۔ نیوز کانفرنس کرنے میں نئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سبقت لے گئے انہوں نے اعلان کیا کہ خارجہ پالیسی اب دفتر خارجہ میں مرتب ہوگی ایک غیرملکی صحافی کے استفسار پر انہوں نے اعتراف کیا کہ مقتدر اداروں کی طرف سے تزویراتی امور میں معلومات اور رہنمائی فراہم کی جاتی ہے اور یہ دستور العمل امریکہ سمیت دنیا کے ہر اہم ملک میں پایا جاتا ہے قریشی صاحب نے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں جرات رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہادرانہ موقف اختیار کیااور امریکی صدر اوباما کے موقف کو چیلنج کردیا تھا نتیجے کے طور پر انہیں وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ وزارت خارجہ میں کابینہ کی حلف برداری کے بعد عجلت میں منعقدہ نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کردیا کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم عمران خان کو تہنیتی خط میں ارادہ ظاہر کیا ہےکہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرسکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کی آواز ابھی دفتر خارجہ میں گونج رہی تھی کہ نئی دہلی سے بھارتی حکمرانوں نے اعلان کیاکہ بھارتی وزیراعظم نے اپنے خط میں مذاکرات بحال کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ قبل ازیں وفاقی کابینہ کی حلف برداری کے موقع پر ایک دلچسپ منظر ابھرا جب سیکرٹری کابینہ نے صدر مملکت ممنون حسین سے استدعا کی کہ وہ وفاقی وزرا سے حلف لیں۔ وزیراعظم عمران خان جو ڈائس پر صدر کے برابر فروکش تھے صدر ممنون حسین کے حلف لینے کےلئے اٹھتے ہی ساتھ اُٹھ کھڑے ہوگئے۔ صدر نے ابھی حلف کی عبارت پڑھنا شروع نہیں کی تھی کہ عقب سے صدر مملکت کے اے ڈی سی آگے بڑھے اور انہوں نے وزیراعظم کو یاد دلایا کہ وہ کھڑے ہونے کی بجائے کرسی پر بیٹھ جائیں۔ عام انتخابات کے بعد اب صدارتی انتخاب کا غلغلہ برپا ہورہا ہے صدر ممنون حسین کی صدارت کے آخری دن شروع ہوگئے ہیں برسر اقتدار تحریک انصاف کے دانتوں کے معالج ڈاکٹر عارف علوی کو اپنا امیدوار نامزد کردیا ہے پیپلزپارٹی کی طرف سے معروف قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن چوہدری کا نام لیا جارہا ہے اور یہ بھی وضاحت کی جارہی ہے کہ اس حوالے سے بات چیت ہوسکتی ہے دوسرے لفظوں میں امیدوار پسند نہ ہوتو حزب اختلاف میں شامل دوسری جماعتوں کی ایما پر اس میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ وزارت عظمیٰ کےلئے پاکستان مسلم لیگ نون کے صدرشہباز شریف کو اپنے وعدے کے باوجود پیپلز پارٹی کا قومی اسمبلی میں ووٹ نہ دینا زیادہ سنگین نزاع کا باعث نہیں بنا تھا تاہم مسلم لیگ نون نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کی محترمہ شیری رحمٰن کی جگہ راجہ محمد ظفرالحق کا نام پیش کردیا جس سے پیپلز پارٹی کے حلقوں میں کافی بے چینی محسوس کی گئی۔ نظر بظاہر ان کارروائیوں سے متحدہ حزب اختلاف کا تصور دھندلا گیا تھا ایسے میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف تسلیم کرنے کااعلان کردیا ہے اور اسپیکر سیکرٹریٹ نے انہیں باضابطہ طور پر قائد حزب اختلاف تسلیم کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جس کے بعد توقع کی جاسکتی ہے کہ متحدہ حزب اختلاف متفقہ صدارتی امیدوار لانے پر مفاہمت کرسکتی ہے،پیپلز پارٹی نے فی الوقت اپنے حتمی امیدوار کا نام ظاہر نہیں کیا لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وہ چاہے گی کہ ایک مرتبہ پھر آصف زرداری کو ہی ملک کا صدر بنوادیا جائے تاکہ ان کے خلاف جاری مارا ماری ختم ہواور آئے دن کےمقدمات اور پیشیوں سے انہیں امان اور نجات مل جائے اگر ایسا ہوجائے تو ملک کا قومی منظر کس قدر دلچسپ ہوگا کہ ملک کے صدر آصف زرداری وزیراعظم عمران خان اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف ہونگے۔

تازہ ترین