• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل پاکستانی قوم کڑے احتساب اور شفا ف انتخاب کی دو لکیروں کے درمیان بھلے دنوں کی امید پر جی رہی ہے ۔ یہ کبھی زور دار احتساب کی ابھر تی لکیر کی طرف دوڑتی ہے تو کبھی انتخاب کی لگی لکیر کی طر ف ۔ اس کے لیے دال روٹی کا حصول تو کب سے مشکل ہو گیا ہے ، لیکن پھر بھی آس ہے کہ دن بدلیں گے ،اندھیرے چھٹیں گے ، لٹیرے پکڑے جائیں گے ،لوٹا کامال واپس ملے گا ، دہشت ختم ہو گی اور امن قائم ہو گا ۔ عجب یہ ہے کہ ملک کے ظالم اور مظلوم دونوں امید سے ہیں ۔کرپٹ حکمران ایک بار پھر انتخاب میں میدان مارنے کی امید لے کر امن و محبت کے پیغمبر بن کر وارد ہو ئے ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ جمہوریت یونہی رینگتی رہے گی ، پھر ا س میں حلوہ خوری جاری رہنے کی امید ۔ مظلوموں کو بھی کڑے احتساب کی امید ہے ۔ انہیں یقین ہے کہ دن پھریں گے اور لوڈ شیڈنگ کا لوڈ ختم ہو گا ۔ عوام نے نصف عشرے تک بے حسی و بے بسی ، بیجارگی ، ذہنی پسماندگی و غلامی کے طنز و طعنے بجھے تیر کھاتے کھاتے ، ملکی تاریخ کی کرپٹ اور نکمی ترین حکومت کو بلاآخر جمہوریت کو آئینی مدت کا پل (تقریباً )پار کرا ہی دیا ۔ اس دوران عوام، فوج ، عدلیہ اور اپوزیشن سبھی ڈرتے رہے ، اور حکومت ڈراتی رہی کہ دیکھو! جمہوریت ڈی ریل نہ ہوجائے ۔ بد عنوان حکمرانوں نے ڈرانے کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کا بازار بھی گرم رکھا ۔ اسی بہتی گنگا میں بین الصوبائی و اضلاعی آمد و رفت اور قومی یکجہتی کا سب سے بڑا اور سر گرم ذریعہ ریل کو تقریباً ڈی ریل کر دیا گیا ۔ ''جمہوریت ڈی ریل نہ ہوجائے''کی پکار کر نے والوں نے ریل کے ڈیل ریل ہو نے کی کوئی پرواہ نہ کی کیونکہ یہ عوام کے لیے تھی ، جو گورا دے گیا ، ہمیں اس کی دی ہوئی جمہوریت تو چلانا نہ آئی ، ریل چلانا آگئی تھی ۔ بیچاری بے حس یا بے بس قوم کی بد قسمتی ملاحظہ ہو، ملک چلانے سے منہ موڑے ہمارے طرح طرح کے حاکم کبھی وردی والے کبھی بے وردی بڑی بے دردری سے عوام سے منہ موڑے ملک چلانے کی بجائے بس اپنی حکومت چلاتے رہے ۔ طرح طرح سے آئین شکنی ، خزانے کی لوٹ مار ، اقربا پروری اور ایک سے ایک بڑھ کر سیاہ دھندوں کی شکل میں ۔ سو ، پہلے ایک عقل کل وزیر نے بیچاری فراٹے پھرتی ریل کے ساتھ بڑی ''زیادتی ''کی ، پھر جاری دور کے جمہوری اور حاجی وزیر نے بھی ، اس کے ساتھ ایسی ہی زیادتی کرتے کرتے پٹری پر چڑھی رینگتی جمہوریت میں اس کو بھی تقریباً ڈی ریل کر دیا ۔ ریل کی خیر ہے کہ وہ ڈی ریل ہو گئی کہ وہ غریب غربا عوام کی ایک بنیادی ضرورت کا ایک ذریعہ ہی ہے نہ ۔ اور کون سی بنیادی ضروریات ہیں جو انہیں کوئی باآسانی میسرہیں ۔ ڈی ریل تو جمہوریت نہیں ہونی چاہیے ، جو جیسی ہے ، اسے ہر حال میں چلتے رہنا چاہیے کہ یہ اسٹیٹس کو کے پیدا کردہ ”'براہمنی طبقے“ کی سواری ہے ، جس پر یہ سواری بھی کرتے اور ہر ہر آہسن سے زیادتی بھی ۔ قوم نے بھی ڈھیٹ بن کر ریل کے ڈی ریل اور پی آئی اے کے بڑی شان مان سے پرواز کرتے طیاروں کو گراؤنڈ کر نے اور انہیں ناکارہ بسوں کی طرح چلانے پر بھی چپ سادھ لی ۔ ابھی پی آئی اے کے ایک ماہر پائلٹ نے اپنی باکمال مہارت سے آڑان بھرتے ہی کوئی بڑی تشویش ناک فنی غلطی ہونے پر طیارہ گراؤنڈ کر لیا ۔ایک سال میں دو مسافر طیاروں کے حادثات اسلام آباد میں ہوئے ۔ اللہ سب پاکستانیوں کو اپنی امان میں رکھے ، پائلٹ مہارت نہ دیکھاتا تو 160معصوم مسافر عملے سمیت گراؤنڈ سے بھی گراؤنڈ ہونے کے سفر پر روانہ ہو جاتے ۔ عوام نے کمال حوصلے سے پی آئی اے کا گراؤنڈ ہو نا بھی برداشت کیا اور فراٹے بھرتی ریل کا قریب قریب ڈی ریل ہونا بھی ۔ بیچارے جمہوریت کی رینگتی گاڑی کے قریبی ا سٹیشن ( الیکشن 2013ء )تک پہنچنے کے بعد بھلے دنوں کی امید میں صبر شکر کیے ہوئے ہیں اور ریلوے والے حاجی صاحب کی امید یہ ہے کہ وہ اگلے دور میں بھی ریلوے کے وزیر بنیں گے ۔ خواہ کھڑی ٹرین میں بیٹھ کر ہی اجڑی وزارت چلائیں ۔ ''جمہوریت دیواتا ''نے اسی گورننس کی تربیت پانچ سالوں میں انہیں دی ہے ۔ ایسے میں ایک بڑی امید فخرو بھائی والے الیکشن کمیشن نے بھی دلا ئی ہے ، انتخاب عدلیہ کی نگرانی میں ہو نگے ۔ حقیقی جمہوریت پرستوں کے لیے بڑی خوشخبری ہے کہ چلو انتخاب غیر جانبدار اور شفاف ہو نگے ۔ پانچ سالوں سے اندھیروں میں ڈوبی اندھی قوم کو اور کیا چاہیے ۔ الیکشن کی غیر جانبداری اور شفافیت کسی اندھے کو دو آنکھوں سے کم ہے ۔ سوئس حکام کو لکھی گئی چٹھی کے بعد کے راجا کی باقی ماندہ راج کی شدید خواہش جو محض امید تھی اب یقین میں تبدیل ہو گئی ۔ شنید ہے کہ عدالت میں سوئس حکام کی خط وصولی کی رسید کی کاپی سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے ۔ راجا صاحب اپنا راج پورا کر ہی لیں گے ، کھو نے والے پیر سائیں نے ایک اور امید باندھ لی ہے ، سرائیکی صوبے کی ۔ بنے نہ بنے ، اسی امید کے ساتھ پیر سائیں ملتان شریف میں اپنی تنہائی دور کر رہا ہے ۔ قلعہ لاہور فتح کر نے کی امید باندھے پارٹی دیوتا نے بھی پیر سائیں کو تسلی دی ہے کہ ابھی وقت نہیں لیکن بیوستہ رہ شجر سے اور سرائیکی صوبے کی امید رکھ ۔ وہ خود بھی پر امید ہیں کہ پنجاب اب باکمال گٹھ جوڑ سے اور بابا وٹو کی چٹے بٹے کی سیاست سے پنجاب ہماری جھولی میں ہوگا ۔ یہ کیسی امید ہے کہ پارٹی دیوتا بھی اور ملک کا صدر بھی ، پھر اس کے حواری بھی سو سو چوہے کھا کے امن و مفاہمت کی تبلیغ کے زور پر سو سو چوہے کھا کے حج کے سفر پر ہیں ۔اپنی انتخابی سیاست کا آغاز پیار و محبت ، شرافت کی سیاست اور حد ادب کے درس سے کیا اور دوسروں سے بھی یہی امید باندھی کہ پنجاب ان سے نفرت نہ کرے ۔ادھر کڑے احتساب کے پر زور حامیوں کی امید کے دیے بھی جلتے جا رہے ہیں ۔ جمہوریت پرست بھی غیر جانبدار اور شفاف انتخاب کی امید سے ہو گئے ہیں ۔ خان اعظم نے اپنی جماعت میں ملک گیر سطح پر انتخاب کا اہتمام کر کے انتخاب سے قبل پارٹی میں انتخاب کرا کر کمال کر دیا ہے ۔ یہ حقیقی جمہوریت کی بڑی ضرورتوں میں سے ایک ہے ۔ اس سے دوسری جماعتوں میں بھی خاندانی اجارہ داریاں ٹوٹنے کی امید جاگی ہے ۔ بابا وٹو اپنی تھیلیوں میں چٹے بٹے لیے پھر رہے ہیں ، پنجابی جیالے اس پر بغلیں بجا رہے ہیں ۔ انہیں امید ہو گئی ہے کہ کبھی بابا وٹو کی انگلیاں گھی میں پھر سے تر بتر ہو نگی ، لیکن امید کے یہ سب دیے اور ان خدشات میں بھی جل رہے کہ انتخاب نہیں ہوں گے ۔ نگران حکوت کی آمد آمد ہے اور یہ خدشہ بھی کہ اس کی نگرانی بہت طویل ہو گی ۔ ہم پاکستانی ایسے ہی ہیں کہ امیدوں کے سمندر میں بھی تشویش پیدا کرتے اور اچھے حالات کی امیدیں باندھتے رہتے ہیں ۔
تازہ ترین