• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی آئی اے اور امریکہ میں آباد پاکستانیوں کے درمیان چولی دامن جیسا بڑا خوشگوار اور گہرا رشتہ رہا ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب1970ء کے عشرے کے ابتدائی سالوں میں پی آئی اے نے نیویارک کے مشہور ففتھ ایونیو پر اپنا پہلا ٹکٹ اور ریزرویشن آفس کھولا تو نیویارک اور دیگر امریکی ریاستوں میں آباد چند ہزار پاکستانی کس قدر خوش تھے ۔
پی آئی اے کو اپنا سمجھ کر وہ دوسری ایئر لائنوں کی ڈائریکٹ یورپ لے جانے اور پاکستان پہنچانے والی پروازوں کی بجائے کئی کئی گھنٹے کی مسافت کر کے نیویارک آ کر پی آئی اے کی ہفتہ وار دو پروازوں کے ذریعے نیویارک سے پیرس، فرینکفرٹ، قاہرہ اور دبئی کے لینڈنگ اور ٹیک آف کے بعد 18تا20گھنٹوں میں کراچی پہنچتے اور وہاں سے آگے اپنی منزل کے شہر یا گاؤں کا سفر بھی کرتے۔ وہ تھکن اور پی آئی اے کی مہنگے ٹکٹ کا بھی کوئی گلہ نہ کرتے، اسی طرح پی آئی اے کا عملہ اور انتظامیہ بھی اپنی سروس کو مسافر کا حق اور اپنی ڈیوٹی سمجھ کر ادا کرتی۔ پاکستانی مسافروں اور پاکستانی ایئر لائن کے عملے میں مقاصد ،معاملات اور مفادات کا ایک اشتراک نظر آتا تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ طیاروں کے ماڈل، سفر کی رفتار، مسافروں کی تعداد اور پی آئی اے کے عملے کے رویوں میں بتدریج تبدیلیاں آتی گئیں اور پھر پی آئی اے کے نیویارک میں روز ویلٹ ہوٹل کو ذاتی جاگیر کے طور پر استعمال سے لیکر پی آئی اے کو بھی ذاتی مقاصد کے لئے تنزلی کا شکار بنانے کا رجحان بھی پیدا کر دیا جس کا بہت سا دستاویزی ریکارڈ پی آئی اے، امریکی امیگریشن اور کسٹم حکام حتیٰ کہ امریکی عدالتوں میں بھی موجود ہے جبکہ بوئنگ طیارہ ساز کمپنی کے دستاویزی ریکارڈ کی افسوسناک داستان علیحدہ باب ہے اور پی آئی اے کے نیویارک میں روز ویلٹ ہوٹل کی تاریخی عمارت بھی کئی سو ملین ڈالرز کے نقصانات ،اخراجات، ناجائز استعمال اور دیگر الزامات کی کہانیاں اپنے اندر سمیٹے کھڑی ہے۔ بہت سے حقائق ناقابل تردید خبروں کی صورت میں بھی اخبارات کی فائلوں میں موجود ہیں۔ یہ سب کچھ تو وہ صورت حال تھی جس کا زیادہ تر تعلق پاکستانیوں، پاکستان کے قومی وسائل، پاکستانی انتظامیہ اور دیگر قومی اداروں میں کرپشن اور وسائل کی لوٹ مارسے تھا اور ایک طرح سے پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دیا جاتا تھا مگر اب کچھ سالوں سے ایک نئی پیچیدہ اور تشویشناک صورت حال پیدا ہو رہی ہے جس کا تعلق پاکستان کے عالمی وقار اور اس کے امیج سے ہے صرف یہی نہیں بلکہ اگر سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد پاکستانیوں کے امیج اور حالات پر نظر ڈالئے تو اس تناظر میں یہ صورت حال بڑی پریشان کن ہے۔ جس کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے کہ امریکہ میں آباد اب کئی لاکھ پاکستانی تو آبائی وطن کے حالات پر پریشان ہیں اور امریکہ کو اپنا اور اپنی اولاد کا نیا وطن سمجھ کر اپنے امیج اور ساکھ کو بطور قانون اور امن پسند شہری قائم کرنے کے چیلنج سے گزر رہے ہیں تاکہ وہ امریکی معاشرے میں اپنا باوقار تشخص حاصل کر سکیں۔
لیکن امریکہ کے ان کئی لاکھ پاکستانیوں کو نیویارک آنے والی پی آئی اے کی پروازوں پر ڈیوٹی کیلئے آنے والے عملے کے بعض عناصر کے ہاتھوں بھی ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے بلکہ ایک ایسے تضاد اور تصادم کی کیفیت ہے کہ امریکہ کے کئی لاکھ پاکستانی امیج بنا رہے ہیں اور پی آئی اے کے عملے کا کوئی ایک فرد ہر دوسرے ہفتے اس کو تباہ کر ڈالتا ہے اور امریکی قانون شکنی کے یہ شرمناک واقعات بڑی رفتار سے نہ صرف ہوتے ہیں بلکہ امریکی کسٹم اور امیگریشن حکام کے ریکارڈ میں بھی محفوظ ہو جاتے ہیں جبکہ نیویارک ایئرپورٹ پر پی آئی اے کا ایک چیف سیکورٹی آفیسر بھی پچھلے کئی عشروں سے ایسے ہی واقعات کی روک تھام کیلئے کسی تبادلہ کے بغیر نیویارک میں ہی متعین ہے۔ پی آئی اے کے اسٹاف اور امریکہ کے پاکستانیوں میں تصادم کی اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے صرف پچھلے کچھ عرصہ میں ان شرمناک واقعات کا مختصر ذکر سن لیں جن میں پی آئی اے کے عملے کے افراد نیویارک ایئرپورٹ پر پکڑے گئے اور یہ واقعات امریکی کسٹم اور امیگریشن حکام کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ تازہ یہ کہ گزشتہ روز لاہور سے نیویارک آنے والی پی آئی اے فلائٹ 721کے کپتان کو روک کر ان کے تین سوٹ کیسوں کی تلاشی ہوئی تو کاروبار کیلئے کمرشل مقدار میں سستی پاکستانی ادویات اور لیدر کی جیکٹوں کی بڑی تعداد ان کے سامان سے نکلی۔ موصوف نے یہ سامان ڈیکلیئر بھی نہیں کیا تھا اور نیویارک میں ان کا قیام صرف دو روز کیلئے تھا کہ فلائٹ پاکستان لے جانا بھی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ امریکیوں نے ریکارڈمرتب کر لیا ہے سامان ضبط اور جرمانہ، کسٹم ڈیوٹی اور کلیئرنگ ایجنٹ کی خدمات کی ادائیگی کے بعد بھی مل سکے گا۔
یہ امریکیوں کا نرم رویہ ہے ورنہ غیر ڈیکلیئرڈ شدہ سامان اسمگلنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ پی آئی اے امریکہ کے سربراہ نے پہلے تو اس واقعے سے ہی لاعلمی کا اظہار کیا اور پھر بعد ازاں مبہم تصدیق فرما دی۔ یہی نہیں بلکہ ایک میزبان خاتون کو کچھ عرصہ قبل جنسی دوا کی دو ہزار گولیاں نیویارک سے لے جاتے ہوئے پکڑا گیا۔ پاکستانی خاتون کی سادگی اور شرم وحیا کے تصور کو تار تارکیا گیا۔ عملہ کے ایک صاحب کو پاکستانی پاسپورٹ ادھر ادھر کرنے کے کاروبار میں پکڑا۔ موصوف فلائٹ ڈیوٹی کی بجائے امریکی جیل گئے۔
نیویارک آنے والی ایک فلائٹ کی میزبان خاتون کو امریکی کسٹم نے روک کر تلاشی لی تو ان کے سامان سے متعدد لیپ ٹاپ اور دیگر غیر ڈیکلیئرڈ سامان نکلا تو انہوں نے گھبرا کر پی آئی اے کے چیف سیکورٹی افسر کی موجودگی کے باعث نہ صرف مدد مانگی بلکہ خاتون نے اپنے ساتھ عملہ کے بعض ان افراد کی نشاندہی کر ڈالی جو کسٹم سے گزر کر باہر نکل چکے تھے اور ان کے سامان میں بھی ایسے ہی غیر ڈیکلیئر ڈ کمرشل سامان تھا۔ بقیہ عملہ کو واپس اندر لایا گیا، تلاشی ہوئی اور پاکستان اور پی آئی اے کی بدنامی کا منظر دیکھنے کو ملا۔ کچھ عرصہ سے ایسے واقعات میں منظم طور پر اضافہ ہوا ہے۔ پی آئی اے کے ذمہ داران امریکی کسٹم امیگریشن کا ریکارڈ ہی دیکھ لیں تو یہ سب واضح ہو جائے گا۔ امریکہ کے پاکستانی تو انتہائی قابل ستائش انداز میں طوفان سینڈی کے متاثرین پاکستانیوں اور امریکی شہریوں کی امداد و بحالی کے کام کر کے پاکستان کی ساکھ بنانے میں مصروف ہیں اور پی آئی اے کے یہ بعض افراد ؟؟؟
تازہ ترین