• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقرا الطاف، کراچی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ جس کا شوہر مرچکا تھا، دریا کے کنارے رہتی تھی، وہبہتبیمار رہتی تھی، ایک روز طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ڈاکٹر کے پاس گئی۔ڈاکٹر نے اُس کا معائنہ کرکےاُسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی ہےکہ تم جلد مرجاوٴ گی۔

یہ سن کراُسے بہت دکھ ہو ا کیونکہ اُس کے پاس ایک انڈا تھا۔ اُسے ڈرلگا کہ اگر وہ مر گئی تو اس کے انڈے کا کیا ہوگا،میرےبچے کو کون سنبھالے گا۔وہ جنگل میں رہنے والے اپنے سب دوستوں کے پاس گئی اور اُنہیں اپنی کہائی سنائی لیکن سب نے اُس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔

بیچاری بطخ بھی کیا کرتی اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے بھائی مرغے کے پاس جائے، وہ ضرور میری مدد کرے گا لہٰذا وہ مرغے کے پاس گئی اور اُسے سارا قصہ سناتےہوئےکہا،

مرغ بھائی ، آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو، پلیز آپ ہی میرے بچے کو میرے بعد اپنےپاس رکھ لینا۔مرغا بولا ، میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا مگر میری بیگم مرغی یہ بات نہیں مانے گئی لہٰذا مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نہیں رکھ سکتا ،تم مجھے معاف کر دینا۔

بطخ مایوس ہو کر اپنے گھر واپس آگئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے اچانک اُس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر یہ کام انجام دے دیاانڈامرغی کے انڈوںمیں رکھ دیا اور خود جا کر ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس کے بعد بطخ کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ مرگئی۔

جب مرغی کے انڈوں سے بچے نکلے تو ان میں ایک بطخ کا بچہ بھی تھا ۔مرغاسمجھگیا تھا لیکن اُس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔ مرغی نے بہت شور شرابہ کیا اور کہا:” میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا“۔ مرغے نے اُسے بہت سمجھایا لیکن مرغی نے اُس کا کہا نہیں مانا۔

مرغی نے اپنے بچوں کو منع کر دیا کہ بطخ کے بچے سے بات نہیں کرنی ،بچوںنے مرغی کی بات مان لی لیکن دو چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی ، وہ جو خود کھاتے ، اپنے ساتھ اُس بطخ کے بچے کو بھی کھلاتے۔ مرغی کو بطخ کے بچے سے سخت نفرت تھی ، وہ اُسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔

ایک دن مرغی کے ذہن میں خیال آیا کہ ہم سب مل کر دریا کے کنارے سیر کو جائیں واپسی پربطخ کے بچے کو وہیں چھو ڑکر آجائیں گے، یوں اس سے جان چھوٹ جائے گی۔ دریاکنارےپہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا، اور ڈوب گیا،یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے لگی، بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا، اُ س نے فوراََ دریا میں تیرنا شروع کر دیا اور چوزے کو نکال کر باہر لے آیا۔مرغی نے جب دیکھا تو اُسے اپنے کئے پر بڑی شرمندگی ہوئی اور اُس نے بطخ کے بچے سے معافی مانگ کر اُسے اپنا بیٹا بنا لیا اس طرح وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

دیکھا بچو! کیسے بطخ کے بچے نے مرغی کو بچایا اور کیسے اُسکا بھلا ہوا۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ، کر بھلا ہو بھلا۔

تازہ ترین