• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ امریکا اور تُرکی کے تعلقات اچھے نہیں ہیں‘‘، یہ بات کسی اور نے نہیں، بلکہ خود امریکا کے صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے کہی۔ نیز، یہ بات بیانات تک محدود نہیں رہی، بلکہ امریکا نے تُرکی کی دو اہم برآمدات، المونیم اور اسٹیل پر پابندی بھی عاید کر دی۔ صدر ٹرمپ نے اِن دونوں پر محصول دُگنا کردیا، جس کے باعث تُرکی کی کرنسی، لیرا میں20 فی صد کمی واقع ہوئی۔ اس پر صدر اردوان نے کہا’’ کرنسی کی قدر میں کمی اس مہم کا حصّہ ہے، جس کی قیادت غیر مُلکی طاقتیں کر رہی ہیں۔‘‘ تُرکی نے واضح کیا کہ’’ وہ امریکا کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے خلاف اقدام کرے گا۔‘‘ پاکستان نے اس کڑی معاشی آزمائش میں اپنے تُرک بھائیوں سے مکمل یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بلاشبہ تُرکی، پاکستان کا ہر مشکل وقت کا دوست ہے، اس لیے ہمیں ہر وہ قدم اٹھانا چاہیے، جس سے تُرک بھائیوں کی مدد ہوسکے۔ تاہم، یہ صرف لیرا کی قدر میں کمی یا اضافے کا معاملہ نہیں، بلکہ اس کا وسیع تر پس منظر ہے۔

سوال یہ ہے کہ تُرکی جیسا مغرب کا قریبی اتحادی، اب مغرب سے کیوں دُور ہو رہا ہے؟ تُرکی، نیٹو فوجی اتحاد کا اہم رُکن ہے اور وہ اس اتحاد میں دوسری بڑی فوجی قوّت ہے۔ پھر جیو پولیٹیکل لحاظ سے یہ یورپ کا مغربی قلعہ ہے، جہاں سے روسی یلغار روکنے کا بندوبست کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم، اس سب کچھ کے باوجود، تُرکی نہ صرف امریکا، بلکہ یورپی یونین کے ساتھ بھی تعلقات کے مشکل دَور سے گزر رہا ہے اور ناکام فوجی بغاوت کے بعد تعلقات میں مزید تلخی آئی ہے۔ شامی تارکین کا معاملہ ہو یا کُردوں کی مغربی امداد، سب معاملات پر مغرب اور تُرکی میں اعتماد کی خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب، بہ ظاہر یوں لگتا ہے کہ انقرہ اور ماسکو قریب ہوتے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے اقتصادی تعلقات میں بہتری ہی نہیں، بلکہ فوجی تعاون کی ٹھوس شکلیں بھی نمودار ہو رہی ہیں۔ تُرکی اور امریکا کے درمیان موجودہ خرابیٔ تعلقات کی فوری وجہ ایک امریکی پادری کی قید کا معاملہ ہے۔ 

اینڈریو برونسن، تُرکی میں دو سال سے جاسوسی کے الزام میں قید ہے۔ امریکا کا مطالبہ ہے کہ پادری کو فوراً رہا کیا جائے، کیوں کہ اُس کے مطابق وہ بے قصور ہے۔ اس معاملے میں امریکی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے تُرک صدر سے اپنی ملاقات میں اس موضوع پر تین مرتبہ بات کی تھی، تاہم تُرکی نے پادری کی رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا، جس کے جواب میں امریکی وزارتِ خزانہ نے تُرکی کے وزیرِ داخلہ، سلیمان سویلو اور وزیرِ قانون، عبدالحمیت گل کے اثاثوں پر پابندیاں لگا دیں۔ اسے تاریخ کی ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ پابندیاں اس’’ میگنیٹسکی ایکٹ‘‘ کے تحت عاید کی گئیں، جو کانگریس نے 2012 ء میں ایک روسی جاسوس کے خلاف بنایا تھا۔ ان دونوں وزراء کا کہنا ہے کہ’’ اُن کے امریکا میں کوئی اثاثے نہیں۔‘‘ تَرکی بہ تَرکی جواب دیتے ہوئے صدر اردوان نے بھی امریکا کے وزیرِ قانون اور وزیرِ داخلہ کے اثاثے منجمد کرنے کی ہدایات( اگر اُن کے کوئی اثاثے تُرکی میں موجود ہیں تو ) جاری کردی ہیں۔ امریکا میں وزیرِ قانون کا عُہدہ نہیں ہوتا، اس شعبے کو اٹارنی جنرل دیکھتے ہیں، لہٰذا، ان پابندیوں سے تو لگتا ہے کہ یہ عملی سے زیادہ علامتی ہیں، لیکن ناقدین نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکی پادری کی رہائی نہیں ہوئی، تو تُرکی کی معیشت مزید دبائو اور مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے اور چند دن بعد ایسا ہی ہوا۔ صدر ٹرمپ نے اسٹیل اور الموینیم پر بالترتیب، 25 اور 50 فی صد ٹیرف لگانے کا اعلان کردیا۔ اُنہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا’’ لیرا ہمارے مضبوط ڈالر کے مقابلے میں کم زور تھا اور یہ کہ امریکا کے اِس وقت تُرکی کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں۔‘‘ اس پر صدر اردوان کا کہنا تھا کہ’’ اگر امریکا نے اپنے رجحانات تبدیل نہ کیے، تو تُرکی نئے اتحادی تلاش کرے گا۔‘‘نئے ٹیرف کا فوری اثر یہ ہوا کہ تُرکی لیرا، یک دَم20 فی صد نیچے آگیا۔ تُرک معیشت کے لیے یہ کوئی معمولی پریشانی نہیں، کیوں کہ گزشتہ ایک سال سے وہ مسلسل دبائو میں ہے۔ افراطِ زر، جو اردوان کی وزارتِ عظمیٰ کے دَوران چار کے لگ بھگ رہتا تھا، اب سولہ فی صد تک جا پہنچا ہے اور اس کا اعتراف خود تُرک صدر نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیرا کو مستحکم کرنے کے لیے تُرک سینٹرل بینک کو غیر معمولی اقدامات کرنا پڑے۔ تُرک صدر نے قوم سے خطاب میں امریکی اقدام کو سازش قرار دیا اور عوام سے اپیل کی کہ’’ وہ لیرا میں زیادہ سے زیادہ خریداری کریں اور سونے کو بھی لیرا میں تبدیل کرلیں۔‘‘ نیز، اُنہوں نے کئی علاقائی مُمالک سے مقامی کرنسی میں تجارت کا عمل بھی شروع کیا، جب کہ اُنہوں نے عالمی تجارتی اداروں اور ترقّی یافتہ مُمالک سے کہا کہ وہ غیر قانونی پابندیوں کے معاملے میں تُرکی کا ساتھ دیں۔ اس کے علاوہ، اُنہوں نے عوام کو امریکی الیکٹرانک مصنوعات کے بائیکاٹ کا بھی کہا۔ اس فہرست میں مشہور کمپنی، ایپل کا آئی فون بھی شامل ہے۔

تُرک معیشت کی صُورتِ حال کیا ہے؟ اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت پر قرضوں کا کارپوریٹ بوجھ، 220بلین ڈالرز تک جاپہنچا ہے۔ معیشت پر فوری اثرات کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ لیرا کی قدر میں کمی، صدر ٹرمپ کے ٹیرف عاید کرنے کے ایک گھنٹے کے اندر ہی رونما ہوگئی اور یہ ڈالر کے مقابلے میں،6.80 پر آگیا، تاہم سینٹرل بینک کے اقدامات کے بعد اس میں کچھ بہتری آئی۔ مبصّرین کے مطابق، امریکا اور تُرکی بہت عرصے سے تجارتی پارٹنر ہیں، لہٰذا اس طرح کے اقدامات سے دونوں ہی کا نقصان ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے گزشتہ چند برسوں سے تُرک معیشت مسلسل دبائو کا شکار ہے اور موجودہ سال کے شروع سے اب تک لیرا میں چالیس فی صد گراوٹ دیکھی گئی ہے، جو پندرہ سال میں ایک ریکارڈ ہے۔ بحران کی تلخی کے باوجود، دونوں مُلکوں کا خیال تھا کہ یہ معاملہ جلد طے ہوجائے گا،کیوں کہ اس معاملے سے ذرا قبل، ایک اعلیٰ سطح کا تُرک وفد واشنگٹن میں امریکی پادری کی رہائی سے متعلق مذاکرات کر رہا تھا، لیکن آخری لمحات میں بات چیت ناکام ہوگئی۔ دراصل، طے یہ ہوا تھا کہ پادری کی رہائی کے بدلے ایک تُرک بینکر کو چھوڑا جائے گا، جن پر ایران پر عاید پابندیوں کی خلاف ورزی کا الزام تھا، مگر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ یوں سیاست میں مفاہمت کی اُمیدیں فی الحال تو دَم توڑ گئی ہیں۔ تُرکی نے بڑی بہادری سے ان امریکی اقدامات کا مقابلہ کیا ہے۔ تُرک صدر نے قوم سے خطاب میں کہا کہ’’ اُن کے پاس ڈالر ہیں، تو ہمارے پاس اللہ ہے۔‘‘ گو، تُرک سینٹرل بینک نے اعلان کیا کہ’’ وہ سرمایہ کاروں کو تمام لیکوڈیٹی فراہم کرے گا‘‘ مگر اس اعلان نے بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں کوئی خاص اثر نہیں دِکھایا۔ اُدھر تُرکی کے بانڈز بلندی کی نئی سطح چُھونے لگے، جس نے مُلکی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا۔ نیز، مندی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تُرکی میں کنسٹرکشن کمپنیز نے بہت زیادہ قرضے لے رکھے ہیں۔ اب لیرا کی قدر میں کمی کی وجہ سے وہ قرض، ڈالرز میں واپس کرنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح ڈالر پر دبائو آئے گا۔ تُرکی کے لیے پریشانی کی بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کہیں امریکا ،آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو پادری کی رہائی تک تُرکی کے قرضے روکنے کا نہ کہہ دے۔ اسی لیے اردوان نے کہا ہے کہ’’ امریکی اقدامات تُرکی کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہیں۔‘‘

صدر اردوان کے ماضی کا سولہ سالہ دَور، تُرک معیشت کے سنہری ادوار میں شمار ہوتا ہے۔ یہی اُن کی مقبولیت کی بنیادی وجہ بھی رہی، جس کی وجہ سے اُن کی جسٹس پارٹی بار بار فتح یاب ہوتی رہی ہے۔ نیز، اردوان کو کمال اتاتُرک کے بعد، سب سے مقبول اور طویل عرصے تک حکم رانی کرنے والا لیڈر مانا جاتا ہے۔ ان کی ماضی کی اقتصادی کام یابیاں مسلم دنیا میں رول ماڈل، تو دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں ایک مثال سمجھی گئی۔ پھر اُنہی کے دَور میں تُرکی کے طول وعرض میں میگا پروجیکٹس مکمل ہوئے۔ استنبول کا تاریخی زیرِ زمین ٹنل اُنھوں ہی نے بنایا، جو یورپ اور ایشیا کو خشکی کے راستے ملاتا ہے اور جسے صدیوں کے خواب کی تعبیر قرار دیا گیا۔ اُنہی کے دَور میں قرضوں کو وقت سے پہلے ادا کر کے آئی ایم ایف سے چھٹکارا پایا گیا، تو افراطِ زر کم از کم سطح پر، جب کہ بے روز گاری میں بھی کمی آئی۔ اس طرح کے اقدامات کی بہ دولت تُرکی، معیارِ زندگی میں یورپی مُمالک سے آگے بڑھ گیا۔ علاوہ ازیں، تُرکی جمہوریت کا ایک خوش حال ماڈل بن کر سامنے آیا، جہاں سویلین بالادستی قائم کی گئی۔ جمہوریت کی ایسی بے مثال کام یابی مسلم مُمالک میں شاذ ونادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہی کام یابیوں کے سبب، جب اردوان نے آئین میں ترمیم اور سیاسی نظام میں تبدیلی کرکے اُسے صدارتی نظام میں ڈھالنے کی بات کی، تو تُرک عوام نے اُن کا ساتھ دیا، بالکل اُسی طرح، جیسے2016 ء میں اُن کی اپیل پر سڑکوں پہ نکل کر فوجی بغاوت کو ناکام بنایا تھا۔

تُرکی کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اِس وقت مُلک اندرونی اور بیرونی طور پر مشکلات سے دوچار ہے۔ پھر مشکل یہ بھی ہے کہ اردوان حکومت کے تنازعات، خود اُن کے قریبی اتحادیوں سے ہیں۔ اِن میں اس کا ماضی کا سب سے قریبی دوست امریکا اور نیٹو ممالک بھی شامل ہیں۔ تُرکی کا ایک بڑا مسئلہ اندرونی بے چینی ہے، جس کے ذمّے دار اردوان، کُردوں کو قرار دیتے ہیں۔ حالاں کہ پانچ سال قبل خود اردوان نے بات چیت کے ذریعے اُنہیں قومی دھارے میں لانے کی ابتدا کی تھی، لیکن یہ مفاہمت جڑ نہ پکڑ سکی۔ آج تُرک افواج، کُردوں کے خلاف کئی محاذ پر برسرِ پیکار ہیں، جب کہ امریکا اور مغرب، کُردوں کے قریبی اتحادی ہیں۔ خاص طور پر کُردوں کی فوجی ملیشیا’’ پیش مرگہ‘‘ کو امریکا ،شام اور عراق میں داعش کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ شام میں صدر اسد کی افواج کے خلاف بھی کُردوں نے اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ صدر اردوان نے امریکا سے بار بار مطالبہ کیا ہے کہ وہ کُردوں کی پشت پناہی چھوڑ دے، مگر امریکا نے اس مطالبے پر کوئی توجّہ نہیں دی۔ اردوان کے لیے اندرونی طور پر یہ دوطرفہ محاذبن گیا ہے۔ پہلا تو فوجی بغاوت کی باقیات کو ختم کرنا، جس کے لیے صدر اردوان نے ہزاروں فوجی افسران اور سپاہیوں کو قبل از وقت ریٹائر کیا ہے، تو لاکھوں کی تعداد میں سرکاری ملازمین کو، جن میں یونی ورسٹی اساتذہ سے لے کر جج تک شامل ہیں، ملازمتوں سے فارغ کر دیا۔ تُرک حکومت کا الزام ہے کہ فتح اللہ گولن اس ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے ہیں اور یہ سب اُن کے تیار کردہ کارکنان ہیں، جو ایک جمہوری حکومت کو الٹنے کی سازش کر رہے تھے۔ گولن اِن دنوں امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ صدر اردوان دوسال سے امریکا کو کہہ رہے ہیں کہ وہ گولن کو تُرکی کے حوالے کردیں، لیکن امریکا نے ابھی تک اس مطالبے کو پورا نہیں کیا ہے۔ نیز، یورپی اور امریکی میڈیا اردوان کو اُن کے سیاسی نظام بدلنے کے اقدام پر بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ کئی انتہا پسند مغربی دانش وَر نظام کی تبدیلی کو تُرک عثمانی خلافت کے احیا اور سلطنت کے قیام سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صدر اردوان اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ’’ سارے اقدامات تُرک عوام کی مرضی سے انتخابی عمل کے نتیجے میں کرتے ہیں‘‘، اور اُن کا یہ کہنا درست بھی ہے۔ اب تک صدر اردوان کو اپنے عوام کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔

اب اس میں ایک اور عُنصر روس کا بھی داخل ہوچکا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں روس، تُرکی کا روایتی دشمن رہا ہے ۔روسی زار کے زمانے میں اُس نے تُرک مسلم سلطنت کو کم زور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تُرکی کو بار بار ہزیمت اٹھانی پڑی اور اس کے وسطی علاقوں پر روسی بادشاہوں نے قبضہ کر لیا۔ ان میں پیٹر اور ملکہ کیتھرین سرِ فہرست ہیں۔ اسی طرح تُرک عثمانی خلافت کے ٹکڑے کرنے میں روس اپنے مغربی اتحادیوں، فرانس اور جرمنی کے ساتھ پیش پیش رہا، بلکہ اُس نے اس حصّے بخرے میں استنبول پر اپنا حق بھی جتایا اور اسے اس وقت مذہبی رنگ بھی دیا گیا۔ اسی لیے جدید تُرکی کے بانی نے روس کی بجائے امریکا سے قریبی روابط قائم کیے، جو سرد جنگ میں بہت سی آزمائشوں میں کام یابی کی کسوٹی پر پورے اُترے، لیکن 2011 ء سے جاری شامی خانہ جنگی نے بالکل نئی علاقائی گروپ بندی کو جنم دیا۔ تُرکی اور امریکا، شامی اپوزیشن کے ساتھ مل کر صدر اسد اور روس کے خلاف نبرد آزما تھے کہ سابق صدر اوباما نے شام کے مسئلے سے ہاتھ کھینچ لیا، جس سے اپوزیشن بے آسرا ہوگئی۔ امریکا نے روس کو شام میں صدر اسد کی بھرپور فوجی مدد کی کُھلی چُھوٹ دے دی ۔ تُرکی نے جب دیکھا کہ امریکا پسپا ہورہا ہے اور روس علاقے پر قابض ہونے کو ہے، تو اس نے مجبوراً بگڑتے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے روس کے ساتھ معاملات طے کرنے شروع کیے۔ اُسی دَور میں ناکام فوجی بغاوت اور گولن کا معاملہ سامنے آیا۔ اُس پر بھی مغرب نے تُرکی کا ساتھ نہیں دیا۔ یوں رجب طیّب اردوان نے روس سے فاصلے کم کرنے شروع کردیے۔ اب دونوں مُمالک کے درمیان بات، شام پر مذاکرات سے ہوتے ہوئے، فوجی معاہدوں تک پہنچ چُکی ہے۔ تُرکی، روس سے میزائل دفاعی نظام بھی خریدنے کی بات چیت کر رہا ہے، جس پر امریکا شدید ناراض ہے۔ امریکا کی جانب سے ٹیرف عاید کرنے کے فوراً بعد صدر اردوان اور صدر پیوٹن میں ٹیلی فونک رابطے کی خبر سامنے آئی، جس میں بتایا گیا کہ دونوں لیڈرز نے موجودہ صُورتِ حال پر تبادلۂ خیال کے بعد تعلقات پر اطمینان کا بھی اظہار کیا۔ یہ شاید امریکا کو سگنل دینا تھا، لیکن اس کے یورپ اور مغرب پر خوش گوار اثرات مرتب نہیں ہوئے۔

کیا امریکا اور تُرکی میں خراب تعلقات کی وجہ سے تُرکی، روس کے مزید قریب ہوجائے گا اورکیا نیٹو اتحاد میں دراڑ پڑ جائے گی ؟یہ سوال جہاں مغربی اتحادیوں کو پریشان کر سکتا ہے، وہیں ماہرین کے لے بھی اہم ہوتا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ مغرب اور تُرکی فطری اتحادی ہیں۔ اس لیے عارضی تنائو کی وجہ سے بیانات میں تلخی تو دیکھی جاسکتی ہے، لیکن کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔ اوّل تو روس خود اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے زبردست معاشی تباہی سے دوچار ہے۔ پھر ایک وجہ وسیع تر تُرک، امریکا تجارتی مفادات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو شام کی صُورتِ حال ہے۔ اب بھی ادلب میں تُرکی، شامی اپوزیشن کی فوجی سپورٹ کر رہا ہے اور وہاں واشنگٹن اور انقرہ ساتھ ہیں، جب کہ مخالفت میں روس، ایران اور اسد ہیں۔ دوم، تُرکی کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی سرحدوں پر اس کا دیرینہ دشمن، روس آکر مسلّط ہوجائے۔ ابھی تک بیانات اور جذباتی باتیں تو ضرور سامنے آئی ہیں، تاہم، نیٹو میں کسی قسم کے تنائو یا علیٰحدگی کے اشارے تُرکی کی طرف سے نہیں ملے۔‘‘ فوجی ماہرین جانتے ہیں کہ تُرکی کا سارا عسکری نظام ایک صدی سے امریکا اور مغربی طرز پر چل رہا ہے اور اس میں کسی فوری یا انقلابی تبدیلی کی بہت کم گنجائش ہے۔ ایک آدھ ڈیفینس سسٹم کی تنصیب دبائو کے لیے تو شاید کام آسکتی ہے، لیکن حقیقی دفاع میں مشکل سے سود مند ہوگی۔ اکثر ماہرین اور ناقدین کی رائے ہے کہ تُرکی کی معیشت کو تیزی سے دبائو سے نکالنے کے لیے امریکا اور تُرکی میں کشیدگی کو کم کرنا ہوگا اور اس کے لیے ان کے پاس براہِ راست چینل بھی ہیں اور نیٹو مُمالک بھی موجود ہیں، جن سے دونوں ہی کے قابلِ اعتماد رشتے ہیں۔

تازہ ترین