• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل و خار … سیمسن جاوید
بیشک پاکستان میں رہنے والے مسیحی کلام مقدس کی اس آیت پر ہمیشہ سے کاربند رہے ہیں کہ ہر آنے والی حکومت خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور یہ کہ اعلیٰ حکومتوں کے طابع رہو۔ اور یہی وہ امید کی روشنی ہے جو ایک بار پھر روشن ہوئی ہے۔ مسیحیوں نے کھلے دل سے عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہےاور ان توقعات کا اظہار کیا ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو جینے کا حق ملے گا۔ قدم قدم پر ناانصافیوں اور ظلم کے بادل چھٹ جائیں گے۔ ان کی حکومت وہ تمام عملی کام کرےگی جس سے نیا پاکستان ہونے کا احساس ملک میں رہنے والے تمام فرقوں خصوصاً مذہبی اقلیتوں کو بھی ہوگا۔ پچھلے 70 سالوں سے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی نے قائد اعظم کے پاکستان کے تصور کو تقریباً ختم ہی کر دیا ہے۔ملک میں رہنے والے تمام مسلک فرقے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی اور اسلام فوبیا سے کوئی محفوظ نہیں رہا۔ پاکستان کے جھنڈے میں سفیدرنگ جو اقلیتوں کی کی نمائندگی کرتا ہے،آج لہو لہو ہے۔ملک میں غربت عروج پر پہنچ گئی ہے،کرپشن اور انسانی سوز جرائم کی سطح حد سے تجاوز کر گئی ہے۔’’روٹی کپڑا اور مکان ‘‘میسر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ جسم فروشی پر مجبور ہو گئے ہیں۔امید ہے کہ عمران خان جو قائد اعظم کے پاکستان کو پھر سے زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ خوشحالی کے ساتھ ساتھ مذہبی فوبیا کو روکنے اورملک میں بین المذاہب میں بھائی چارے کے فروغ کے لئے بھی عملی اقدام کریں گے۔ تعلیمی نصاب میں مثبت تبدیلی لائیں گے کیونکہ تعلیم ہی ہے جس پر نسلوں کی تربیت کا انحصار ہوتا ہے۔اورجس سے مہذب معاشرہ استوار ہوتا ہے۔ جس سے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کی وفا داری اور ان کی ملک کی تعمیر و ترقی کے کردار کو سب قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ ان کی قدر و قیمت کا احساس اکثریت کے دلوں میں پیدا ہو، مختلف القابات استعمال کر کے انسانیت کی توقیر نہ کریں او سب کو برابر کا شہری تسلیم کرتے ہوئے ان پر ظلمات کا سلسلہ بند ہو، انہیں اپنے ہی ملک میں جس کے لئے انہوں نہ صرف قربانیاں دیں ہیں بلکہ پاکستان کے معرض وجود میں لانے کے لئے اس کے حق میں اپنے ووٹ بھی دیئے ہیں یہ ظلم کو سلسلہ بند ہو، تاکہ اقلیتوں کو ملک سے فرار کا راستہ ڈھونڈنے کی نوبت نہ آئے ۔
اسی طرح ملک اور بیرون ملک رہنے والی مسیحی کمیونٹی کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ مختلف گروپس میں تقسیم ہو کر جدوجہد کرنے کی بجائے یکجہتی کامظاہرہ کریں اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی عادت ڈالیں ورنہ میرے جیسے بہت سے اور لوگ جو عرصہ دراز سے استحصال اور نا انصافیوں کے خلاف اپنے قلم اور عمل سے یہ سوچ کر جدوجہد کررہے ہیں کہ ایک دن تو پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو با عزت مقام ملے گا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ دلبرداشتہ ہو کر یہ لکھنا اور سوچنا شروع نہ کردیں کہ ان کی تمام محنت رائیگاں چلی گئی ہے۔ انتہائی کوشش کے باوجود میں اپنے اندر کے بیدار انسان کو ایک لمبی اور گہری نیند سلانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اپنے گرد ناانصافیوں اور نہ ختم ہونے والے سلسلے کیونکر ختم ہو سکتے ہیں۔۔۔ شاید اس کی بڑی وجہ وہ خواب ہے جس کی تعبیر پانے کے لئے میں نے جدو جہد کے ساتھ ساتھ کاروانِ قلم کا سہارابھی لیا۔ ہرپل مایوسی اور حوصلہ شکنی کے باوجود میرے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ اسی خواہش ناتواں نے مجھے اب تک بیدار رکھا ہوا ہے۔آخر ایک دن تو یہ کمیونٹی تمام تر مصلحتوں کو بالاتر رکھ کر یکجہتی کا مظاہرہ کرے گی اور بے حسی اور بے بسی کی تمام زنجیروں کو توڑ ڈالے گی۔ ایک دوسرے کو کم تر ثابت کرنے، پسندو ناپسند کی بنیاد پر کاربند رہنے،ایک ہی شہر اور ایک ہی قصبے میں رہتے ہوئی اپنی اپنی ڈفلی بجانا کہ ہمیں انصاف دیا جائے، ظلم و ستم ختم ہوں یہ کیسے ممکن ہے۔ اگر کوئی ان پر تنقید کرے تو اسے فرسٹریشن کا نام دے کر اپنی کمزوریوں کو چھپانا کہاں کی عقل مندی ہے۔ہمیں حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب ہم ایک کمیونٹی لیول پر تعلیمی اور معاشی طور پر مضبوط ہو جائیں گے تو ہم خارجی، داخلی اور بیرونی استحصالی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔تو ناانصافیاں،ظلم و ستم ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ کسی طرح معاشرے میں پائی جانے والی بدعتیں، قباحتیں،معاشرتی ومعاشی ناہمواریوں کو دور کیا جا سکے اور مذہب کے ٹھیکیدار جنہوں نے اپنی کمیونٹی کو ایک مخصوص سرکل سے باہر نکلنے کی سوچ کو پروان چڑھنے نہیں دیا۔ اپنے اور اپنے خاندان کے گھر تو بھرے ہیں مگر دوسروں کو رزقِ حلال اور روز کی روٹی پر اکتفا کرنے کا درس دیتے رہے ہیں۔ سارے معاشرے کو کمپلیکس کا شکار بنا دیا ہے۔ اب بھی وقت ہے ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا جائے جو غریب اور مظلوم لوگوں کے نام پر اپنا کاروبار تو چمکا رہے ہیں مگر مظلوموں کو انصاف دلانے میں ناکام ہیں۔
تازہ ترین