• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت عملاً فراموش کردی جاتی ہے کہ کسی بھی قوم کی تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی و خوشحالی کے لئے جو عوامل درکار ہوتے ہیں، ان میں سے ایک بنیادی اور انتہائی اہم عامل امن ہے، اندرون ملک بھی اور سرحدوں پر بھی۔ امن عنقا ہو تو نہ صرف مقامی اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ غیرملکی سرمایہ داری اور باہمی منصوبوں پربھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ رہا کہ اسے ابتدا سے ہی اپنی بقاکی جنگ لڑنا پڑی۔ بھارت نے نہ صرف پاکستان کے اثاثے روک لئے بلکہ کشمیریوں کی منشا کو کچلتے ہوئے بزور ِ بندوق کشمیر پر قابض ہوکر پاکستان پر جنگ بھی مسلط کردی۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ بھارت کی خودساختہ ازلی دشمنی نے دونوں ملکوںکی ترقی و خوشحالی کی راہ روکی ورنہ دونوں ملکوں میں خط ِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہوتی۔ پاکستان کا اس حوالےسے ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ تنازعات کا حل باہمی گفت و شنید سے نکالا جائے۔ منگل کے روز وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی اپنے ٹویٹر پیغام میں یہی موقف دہرایا کہ ’’مستقبل کی طرف پیش قدمی کے لئے انڈیا اورپاکستان کو مذاکرات کرنا ہوں گے اور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات کا حل نکالنا ہوگا۔ غربت مٹانے اور برصغیر کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کا آسان ترین نسخہ بات چیت سے مسائل کا حل اورباہمی تجارت کاآغاز ہے۔‘‘ یاد رہے کہ عمران خان کے وزارت ِعظمیٰ کے منصب پرفائزہونے کا یقین ہوجانے کے بعد مودی حکومت نے انتہائی گرمجوشی سے اس کا خیرمقدم کیا تھا اور دوستانہ تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی توقع ظاہر کی تھی۔ پاکستان پرامن ہمسائیگی کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہے اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ اپنی انتخابی کامیابی کے بعد عمران خان نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا تھاکہ ’’باہمی رشتوں میں بہتری کے لئے انڈیا اگر ایک قدم آگے آئے گا تو وہ دو قدم آگے بڑھائیں گے۔‘‘  عمران خان کی وزارت ِعظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت پر بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو پرانڈیامیں تنقید پر عمران خان نے کہا کہ ’’وہ امن کا پیامبر بن کر آیا۔ اس پر تلوار سونتنے والے دراصل برصغیر کے امن پر حملہ آور ہیں‘‘ قبل ازیں پاکستان کےوزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھاکہ ’’پاکستان اور انڈیا کو مسلسل اوربغیررکاوٹ بات چیت کی ضرورت ہے۔دونوں ایٹمی قوتوں کے پاس سوائے مذاکرات کے اور کوئی راستہ نہیں۔‘‘ اس حقیقت سے مفرممکن نہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت میں مخاصمت کی بجائے معاونت ہوتی تو خطے کی صورتحال وہ نہ ہوتی جو اب ہے۔ دونوں ملک اپنی زیادہ توجہ عوام کی بہبود پرصرف کرتے جودونوں ملکوں میں بدتر زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ چار جنگوں کےبعد حالات مزید ابترہوئے تو کیا یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جنگ تو مسائل کو جنم دیتی ہے ان کا حل ہرگز نہیں۔ 1948کی رزم آرائی اقوام متحدہ کی مداخلت سے تمام ہوئی، 65ء کی مبارزت معاہدہ تاشقند پر منتج ہوئی، 71ء کامعاملہ بھی امریکی مداخلت پر رکا اور کارگل کی لڑائی بھی۔ گویا تمام ترجانی ومالی نقصانات کے بعد مذاکرات کی میزپر ہی آنا پڑا توکیا یہ بہتر نہیں کہ کسی ثالث کو درمیان میں لائے بغیر خود بات چیت سے مسائل حل کرکے دنیا کو اپنے مہذب اور باشعور ہونے کا ثبوت دیا جائے۔ یورپی یونین کی مثال لے لیں جو ایک عرصہ باہم برسرپیکار رہا لیکن بالآخر اس نتیجے پرپہنچا کہ اس کی بقا اور ترقی امن میں مضمر ہے، جنگ میں نہیں۔ پاکستان اور بھارت کو اب ماضی کی تمام ترتلخیوں کو بھول کر خطے میں پائیدارامن کی کوشش کرنا ہوگی لہٰذا ان کی یہ کوشش ہی عیاں کرےگی کہ وہ اپنے عوام سے کس قدر مخلص ہیں۔ دونوں حکومتوں کو البتہ یہ امر ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ایسی کاوشوں کو امن دشمن برباد کرتے آئے ہیں ،ان سے باخبر رہنا ہوگا۔ اس حوالے سے مسلسل اوربغیر رکاوٹ مذاکرات ہی واحد حل ہیں۔ دونوں ملک تعلقات ہی بہتری کے خواہاں ہیں توامید کی جانی چاہئے کہ اس بار یہ بیل ضرور منڈھے چڑھے گی۔

تازہ ترین