• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قریب قریب آٹھ نو برس قبل، مقامی معاصر میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق ’’لیسکو نے آمدنی کا سالانہ ہدف حاصل کرنے اور خسارے کا ازالہ کرنے کے لئے رواں ماہ لاہور، قصور، شیخوپورہ اور اوکاڑہ میں صارفین کو اربوں کے زائد بل بھیج دیئے جس سے لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا صارفین کو ایک اور چوٹ لگی ہے۔ رواں مالی سال کے اختتام پر صارفین کو ملنے والے بجلی کے بلوں میں مجموعی طور پر اوسطاً ایک سے ڈیڑھ سو یونٹ زائد ڈالے گئے ہیں۔ بعض مقامات پر زائد یونٹوں کی تعداد 400سے 500بھی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق لیسکو نے اس ماہ اپنے 30لاکھ صارفین کو 35سے 40کروڑ زائد یونٹ ڈالے ہیں جن سے اس ماہ لیسکو کو ڈیڑھ ارب سے زائد کا اضافی ریونیو حاصل ہو گا۔ صارفین نے اس صورتحال پر شدید احتجاج کیا ہے۔ لیسکو کی سب ڈویژنوں اور ڈویژنل دفاتر میں زائد بلنگ کے ستائے عوام کا شدید رش ہے۔

لیسکو کا عملہ اس موقع پر بھی ان سے ہاتھ کرتا ہے اور بل کی تصحیح کے بجائے دو اقساط کر دیتا ہے جس سے صارف کو اضافی یونٹس پر 8سے 10روپے فی یونٹ کا نرخ لگتا ہے جبکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ماہ صارفین کو شدید ترین لوڈ شیڈنگ کے باعث اوسطاً ایک ماہ میں پندرہ روز بجلی ملی، اس کے باوجود انہیں معمول سے دوگنا بل ادا کرنا پڑے گا۔ اس ضمن میں لیسکو کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ صارف کو اوور بلنگ کمپنی کی پالیسی نہیں، اگر کہیں کسی صارف کو ایسی شکایت ہے تو وہ متعلقہ دفتر سے رجوع کرے اسے پورا بینیفٹ دیا جائے گا۔‘‘ عوام دشمن نظام کی یہ سفاکیت آج بھی اسی طرح جاری ہے۔

پرنٹ میڈیا میں عمر کا تقریباً 50,45برس سے زائد کا عرصہ گزارنے اور بطور کارکن صحافی کے گزشتہ آٹھ دس برس سے الیکٹرانک میڈیا کے دوستوں سے رابطے کے باوجود میرے ان دونوں کے بارے میں شدید ذہنی تحفظات ہیں جن کا میں اکثر اپنے کالموں میں ذکر کرتا رہتا ہوں۔ یہ علیحدہ بات ہے اس سلسلے میں میرا متشدد رویہ ایڈیٹر کی خفگی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ رپورٹروں کی خبروں کے معاملے میں میرا نقطہ نظر بے حد سنگین ہے۔ اتنا سنگین جسے میں ضبط تحریر میں لانا بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ اس قدر بدترین رائے کے باوجود مقامی معاصر کی اس خبر نے مجھے پوری طرح اپنی طرف متوجہ کر لیا جس کے ایک ایک لفظ کی میں اپنے ذاتی مشاہدے اور وقوعے کی روشنی میں سو فیصد تصدیق کرتا ہوں۔

غالباً یہ جنوری 2009ء ہی میں آنے والے بجلی کے بل کا قصہ ہے جو اسلامیہ پارک میں موجود میرے گھر کے معمول سے بہت زیادہ تھا۔ ان دنوں لیسکو کا اسلامیہ پارک سے متعلقہ ذیلی دفتر بیگم روڈ مزنگ پر واقع تھا۔ میں ایسے جسمانی عوارض کا شکار ہوں جن کی وجہ سے میں ان اوقات میں ممکن حد تک باہر نکلنے سے گریز کرتا ہوں۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق دو بار صبح سے لے کر ڈیڑھ دو بجے تک لیسکو کے دفتر خوار ہوا۔ دوسری بار متعلقہ نوجوان میرے دلائل کا قائل ہو کر کہنے لگا ’’سعید صاحب! آپ یہ بل ادا کر دیں اگلے ماہ کے بل میں اس کی تلافی کر دی جائے گی۔‘‘ اب پچھلے ماہ گرمیوں کا وہ انداز شروع ہو گیا ہے جس میں ہر آدمی گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے حسب توفیق کوئی نہ کوئی راستہ ضرور اختیار کرتا ہے۔ بے بسی کی بات اور ہے۔ شکر ہے خدا نے مجھے ایئر کنڈیشنر کی نعمت سے نواز رکھا ہے۔ ہم زندگی کے سادہ معمولات کو مزید سادہ کرتے ہوئے رات 11بجے تا صبح 7بجے تک ایئرکنڈیشنر چلاتے ہیں جسے لیسکو کی ہدایت کے تحت 26درجے پر ہی رکھا جاتا ہے تاہم مجھے تازہ ترین بل 6ہزار سے زائد رقم کا موصول ہوا۔ سونے کے پانی سے لکھنے والی رپورٹر کی یہ بات آپ کو یاد رہے کہ عملاً لوڈ شیڈنگ کے باعث ایک ماہ کا مطلب پندرہ دن ہے۔ جب وہ نوجوان مجھ سے تلافی کر رہا تھا مجھے اس پر ایک فیصد بھی اعتبار نہیں تھا، اب جب میں نے لیسکو کے ترجمان کا یہ بیان پڑھا کہ ’’کسی صارف کو اوور بلنگ کمپنی کی پالیسی نہیں، اگر کہیں کسی صارف کو ایسی شکایت ہے تو وہ متعلقہ دفتر سے رجوع کرے اسے پورا بینیفٹ دیا جائے گا‘‘۔ تب بھی میرے نزدیک اس بیان کی حیثیت سفید جھوٹ سے زیادہ نہیں، عام پاکستانی کے اپنے موقف کے مقابلے میں انہیں کسی نہ کسی طرح بے بس کر دینے پر یہ حضرات اکثر اوقات ’’میٹر ریڈنگ‘‘ کا حربہ استعمال کرتے ہیں جس کے بعد مدعی کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہوتا۔ میرے ساتھ ایک اور واقع ہوا، ایک روز کوئی صاحب آئے اور کہنے لگے ’’میں نیا میٹر لگانے آیا ہوں‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’کیا میٹر میں کوئی گڑبڑ ہے یا گڑبڑ کی گئی ہے‘‘۔ نوجوان کا جواب تھا ’’میٹر سو فیصد درست ہے، نئے میٹروں کی تنصیب کا فیصلہ ہوا ہے‘‘۔ میری ایک نہ چلی، اس نے نیا میٹر لگا دیا جس کے مجھ سے 3500وصول کئے گئے۔ یہ کیا پالیسی تھی؟ کیوں تھی؟ اس کے بارے میں کبھی کوئی سفید جھوٹ بھی سامنے نہیں آیا، مطلب یہ کہ رسماً بھی ان دنوں کوئی وضاحتی جواز پیش نہیں کیا گیا۔

یہ کہانی یہاں پر روکیں، ایک دوسری کہانی پڑھیں۔ میرے ایک دوست نے فیصل آباد میں قسطوں پر گھریلو اشیائے ضروریہ فروخت کرنے کا کاروبار شروع کیا۔ دکان شروع کرنے پر اسے معلوم ہوا جس بہترین واشنگ مشین کو وہ تھوک میں ڈھائی ہزار روپے کی خریدتا ہے وہ اس بازار میں تمام دکاندار ساڑھے سات ہزار کی فروخت کرتے ہیں۔ منافع کی یہی طوفان خیزی دیگر اشیائے ضروریہ کے بارے میں بھی جاری تھی۔ یہ قصہ کوئی سات آٹھ برس پہلے کا ہے۔ میرا دوست طبعاً منافع کی اس طوفان خیزی کو ایڈجسٹ نہ کر سکا اس نے ڈھائی ہزار کی مشین زیادہ سے زیادہ ساڑھے چار، پانچ ہزار میں بیچنا شروع کر دی جبکہ یہی طریق کار دوسرے گھریلو سامان کے لئے اختیار کیا گیا یعنی معقول لیکن متوازن منافع، چند دنوں بعد سارا بازار جلوس کی شکل میں اس کے پاس پہنچ کر کہنے لگا ’’تم تو ہمارا کاروبار اجاڑنے پر آ گئے ہو‘‘۔ آخر وہ فیصل آباد سے واپس لاہور آ گیا۔

یہ دونوں داستانیں ایک دوسری سے جڑی ہوئی ہیں پہلے کردار کا تعلق ریاست اور اس کے اہلکاروں کے 71برس کے اعمال سے ہے، دوسرے کردار کا تعلق پاکستانی عوام خصوصاً 90فیصد اکثریت کی بدنیتی اور بداعمالی سے ہے، گویا پاکستانی ریاست اور پاکستانی عوام مجموعی طور پر مل کر باڑھ کو کھا رہے ہیں۔

قومی اور صوبائی سطحوں پر پولیس، انکم ٹیکس، شماریات، بلدیات، اطلاعات لائیو اسٹاک، ایس اینڈ جی اے ڈی، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، تعلیم، وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت صنعت، وزارت زراعت، عدالتیں وغیرہ اور پاکستانی عوام بطور صنعت کار، تاجر، ریڑھی بان، استاد، وکیل، صحافی یا جن دیگر شعبوں سے بھی متعلق ہیں ہم سب مل کر باڑھ کو کھا رہے ہیں، باقی پھر کبھی سہی۔

بلاشبہ پاکستان میں جمہوری تسلسل کا دور ہے۔ لگتا ایسا ہے جیسے اس تسلسل میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، اصل بات اس کی موجودہ جاری صورتحال میں پوشیدہ عوامی دشمنی ہے جس نے لوگوں کو پاکستان میں لاشعوری خوف، بے عزتی اور بربادی کے ان عذابوں میں مبتلا کر دیا ہے جن کے بعد ان کی زندگیاں ’’زیادہ سے زیادہ کھانے‘‘، اور زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے ذہنی امراض کا گھر بن چکی ہیں۔ ریاست قطعی ماں جیسی نہیں بلکہ گناہگار قابو میں آنے کے بعد ’’قانون‘‘ کا نہیں ریاستی اہلکاروں کی طبیعتوں کے رحجان اور عادات کا مقتول بن جاتا ہے جبکہ بے گناہ بھی اس حشر سے دوچار ہوتا ہے تاوقتیکہ وہ خود کو بے گناہ ثابت نہ کر دے۔

چنانچہ آج 2018ہے۔ بجلی کے بلوں کی ’’خونریزی‘‘ اپنی انتہائوں پر ہے اور ’’عوام متعلقہ دفاتر سے رجوع کریں‘‘ کا جملہ انہی تباہ کن دفاعی تکلیفوں کا باعث بنتا ہے جن کا تذکرہ بے کار اور جن کے اثرات وہی جانتے ہیں جو رجوع کرتے ہیں۔

ریاست عملاً دو طبقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک برسراقتدار طبقہ دوسرا اس کے برابر کا غیر برسراقتدار طبقہ، برسوں سےریاست کے اقتدار پر براجمان طبقے اسی سطح پر ’’اصلاح اور انقلاب‘‘ کا طوفان برپا رکھتے ہیں، کرپشن کے خاتمے سے لے کر قانون کی بالادستی کے پاکیزہ آدرشوں کی تکمیل کے لئے، لمحہ حاضر میں حکمرانی کے منصب پر فائز گروہ کے شور و غضب سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، عوام بہرحال بے دست و پا اور ’’جان ، مال اور عزت کی گارنٹی سے مکمل طور پر محروم ہیں، ریاستی فورسز ’’اپنے لواحقین‘‘ کو چھوڑ کر لوگوں پر پل پڑی ہیں، نئی فورس کے نوجوان لڑکے اس کی ایک کھلی مثال ہیں، عام پاکستانی بلند ترین سطح پر جاری ’’جہاد‘‘ کو حیران نظروں سے دیکھتا اور ریاستی فورسز کے ہاتھوں انتظامی اور سماجی سطح پر اپنی بے بسی پر جان لیوا حقوق اور زندہ موت کا شکار رہتا ہے۔ بجلی کے بل بھی اس کی اس بے کسی پر ایک بہت ہی بڑے قہر کا وار ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین