• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو ان کے مداحین کی طرف سے پاکستانی سیاست میں اونچا مقام دیا جاتا ہے۔ یہ کہ وہ عوام کے ہر دلعزیز رہنما تھے، یہ کہ وہ سیاسی صلاحیتوں سے مالا مال تھے، یہ کہ انہوں نے وطنِ عزیز کے مشکل ترین لمحات میں عنانِ حکومت کو سنبھالا۔ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے عوام کو اتنا سیاسی شعور دے دیا کہ وہ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے روایتی سیاست کا تیاپانچا کر ڈالا۔ پاکستان کے لئے اُن کی بہت سی خدمات گنوائی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ 1971ء کی جنگ میں بدترین شکست کھانے کے بعد جب پاکستانی قوم کا مورال بُری طرح گر چکا تھا انہوں نے نہ صرف یہ کہ اُسے بحال کیا بلکہ 90ہزار جنگی قیدیوں کو ہندوستان سے آزادی دلواتے ہوئے، واپس پاکستان لائے۔یہ بھٹو مرحوم ہی تھے جنہوں نے ’’انڈیا سے ہزار سال جنگ لڑنے‘‘اور ’’گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے‘‘ جیسے نعرے دیے جنہوں نے قوم کو متفقہ اسلامی دستور دیا،90سالہ قادیانی مسئلہ حل کیا وزارت مذہبی امور قائم کرتے ہوئے شراب پر پابندی لگائی جمعہ کی چھٹی کروائی،اسلامی سمٹ مینار بنوایا پھر وہ پھانسی پر چڑھ گئے لیکن کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا۔

اس سوچ کے برعکس دوسری طرف ان کے ناقدین یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ انہوں نے ہے جمالو اور ہلڑ بازی کے کلچر کو پروان چڑھاتے ہوئے ہماری روایتی معاشرت کو بد تہذیبی کے اونچے مقام تک پہنچایا یہ بھٹو مرحوم ہی تھے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ آمریت کی گود میں پرورش پائی بلکہ محترمہ فاطمہ جناح کی جمہوری جدوجہد کے دوران وہ محترمہ کے بالمقابل ایوب خان کے دست و بازو بنے رہے۔ بھٹو بغیر کوئی انتخابی معرکہ جیتے طویل عرصہ تک اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ واضح رہے کہ 1970کے انتہائی منصفانہ انتخابات میں انہوں نے پورے (متحدہ) پاکستان کی 300نشستوں پر محیط ایوان میں محض 81 سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن وہ وزیراعظم بننے کے لئے چھلانگیں لگا رہے تھے جبکہ ان کے سیاسی حریف شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ 160نشستیں حاصل کرتے ہوئے واضح میجارٹی یا برتری حاصل کر چکی تھی۔

عمران خان بلاشبہ کرکٹ کے ایک پاپولر کھلاڑی یا ہیرو کی حیثیت سے میدانِ سیاست میں داخل ہوئے تھے اُن کے سر پر کینسر اسپتال کی تعمیر یا خدمت کا تاج بھی تھا اور عوام میں ان کے لئے جوش وخروش بھی۔درویش اگر اپنی یادوں کی پٹاری کھولے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اپنے زمانہ طالبعلمی میں یہ بھی اس کا گرویدہ رہ چکا ہے۔ ’’ہم ہوئے،تم ہوئے کہ میر ہوئے ... اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے ‘‘ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں ہی نہیں بیڈروم میں بھی اس کی تصاویر لگا رکھی تھیں کہ جیسے وہ ہمارا قومی ہیرو ہو ایک دن درویش کا ایک کزن راشد جاوید ملنے آیا تومیری غیر موجودگی میں اُس نے سگریٹ نوشی کے دوران میرے پسندیدہ کرکٹر کی آویزاں تصویر کو بُرے طریقے سے بدنما کر دیا۔ سلگتے سگریٹ سے مصوری کرتے ہوئے یہ کہا کہ کھلاڑی کی آنکھیں بہت چھوٹی ہیں میں نے بڑی کر دی ہیں۔ بعدازاں اس کزن سے تلخ کلامی بھی ہوئی اور بول چال بھی کچھ مدت تک بند رہی اسی طرح نو عمری میں ہر سال عید پر انہیں عید کارڈ بھیجتا۔ایک سال جواب میں Acknowledgement receipt ملی جس پر ان کے والد کے دستخط تھے ’’ اکرام اللہ نیازی‘‘ تو بڑی خوشی ہوئی وہ آج بھی میرے پاس کہیں پڑی ہوگی۔ کرکٹ کے اس قومی سرمائے کو اکثر ملک کے بجائے یہ لکھتا’’ عالم اسلام کا قابلِ فخر سرمایہ‘‘۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی یاد ہے جن دنوں پرنس ڈیانا کی طلاق سے متعلق خبریں اخبارات کی زینت بنا کرتی تھیں ایک دن شامی صاحب سے کہا کہ میری نظریں یہ دیکھتی ہیں کہ اگر ڈیانا شاہی خاندان کو چھوڑ کر عوام میں آجائے اور عمران خان کرکٹ اور خدمت کے کاموں سے آگے بڑھ کر میدانِ سیاست میں اترے تو یہ دونوں اپنی مقبولیت کی بنیاد پر اپنے اپنے ملکوں کے وزرائے اعظم بن سکتے ہیں اس پر شامی صاحب نے حسبِ روایت خاصا توّا لگایا اور پھر ایک دن کہا کہ اپنے پسندیدہ کھلاڑی کا انٹرویو ہی کرو۔انٹرویو کے لئے کھلاڑی صاحب کے لینڈ نمبر پر فون کیا تو وہ کہیں نکلے ہوئے تھے اپنا نام اور پیغام چھوڑا تو سہ پہر کے وقت فون آیا۔دوسری طرف سے زور دار آواز تھی ’’افضال میں عمران بول ر ہا ہوں ‘‘یک دم اپنے پسندیدہ ہیرو کو یوں مخاطب پا کر خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی اور کہا’’ کیاآپ عمران خان صاحب ہیں ؟‘‘’’جی افضال آپ نے انٹرویو کے لئے فون کیا تھا؟‘‘ ’’کل ڈیڑھ بجے شوکت خانم آجائیے‘‘

انٹرویو کی کہانی کو چھوڑتے ہوئے یہاں دو باتیں قابل ذکر ہیں اول یہ کہ دور کے ڈھول سہانے کی طرح کئی چیزیں دور سے جتنی چمکدار لگتی ہیں لازم نہیں قریب سے ملاحظہ کرنے پر بھی وہ ویسی ہی خوبصورت یا خوش نما ہوں۔ اگرچہ اس دوران کئی مضامین ان کی شان میں لکھے جو روزنامہ پاکستان اور ہفت روزہ زندگی میں چھپے۔۔لوگوں سے ان کے دفاع میں بحثیں بھی کیں اچھی طرح یاد ہے کہ جن دنوں ان کی جمائما خان سے شادی ہونے جارہی تھی ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اس کے سخت خلاف بول رہے تھے ایک تفصیلی مضمون لکھا’’عمران خان کا جرم کیا ہے؟‘‘جو اس وقت کسی میگزین میں چھپا بھی لیکن جب ان کے زمان پارک والے گھر میں ان کا تفصیلی انٹرویو کیا ان کے خیالات اور شخصیت کو قریب سے ملاحظہ کیا تو دل ایسا کھٹا ہوا کہ جس کو ہیرو مان کر جا رہا تھا وہ زیرو لگنے لگا بعدازاں جنگ میں ایک کالم بھی لکھا ’’کرکٹ کا کھلاڑی سیاست کا اناڑی‘‘۔

آج کئی نوجوان دوست پوچھتے ہیں کہ یہ آپ کا کیسا اناڑی ہے جس نے بڑے بڑے سیاسی کھلاڑیوں کو پچھاڑ دیا ہے؟ بات تو یہ بھی غلط نہیں ہے مگر جواب میں نہ جانے کیوں اقبال کا یہ شعر پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ ’’فتنہ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی... جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے‘‘ باتیں تو کہنے کو بہت ساری ہیں لوگ بالعموم چیزوں کے ظاہری پہلووں کو دیکھتے ہیں اور تادیر انہی کے طلسم میں گرفتار رہتے ہیں۔ پہلی نظر میں دھوکہ کھا جانا قابلِ فہم ہے مگر پیہم اصلیت کو نہ پرکھ پانا اور اسی اولین سحر میں گرفتار رہنا سطحی پن کی دلیل ہے۔ ۔اعتزاز احسن ان کے ہمسائے ہیں ساری عمر ساتھ رہ کر بھی ذہانت کاا تنا بڑا دعویدار اصلیت کو نہیں سمجھ پایا تو کیا کہا جا سکتا ہے الٹے مجھے فرمانے لگے آپ نے ایک ہی تفصیلی انٹرویو کے دوران انہیں ہیرو سے زیرو بنا ڈالا حیرت ہے۔ عرض کی جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا۔ بہرحال قوم کو حقیقت تک پہنچنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ دعا کرنی چاہیے کہ اس کا فیصلہ پانچ سال بعد ہی ہو۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر جنگ میں ایک کالم لکھا تھا ’’سیاست کے تھری ایڈیٹس‘‘ یا’’ تین نابغے‘‘ یہ ا نڈین مووی’’تھری ایڈیٹس‘‘ کی طرز پر ہی تھا۔ ان تین میں سے ایک انڈیا کے پاپولر بلکہ ان دنوں چھائے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی صاحب تھے( نکتہ معترضہ یہ ہے کہ ناچیز امن کے حوالے سے ہمیشہ مودی کی بجائے واجپائی جی کا مداح رہا ہے)اپنے نو منتخب وزیراعظم کے حوالے سے یہ یادیں اس لئے تحریر کی ہیں کہ بہت سے نوجوان دوست ملتے ہیں تو اُسی زلف کے اسیر دکھائی دیتے ہیں بلکہ شاید قوم کا اچھا خاصا حصہ انہیں امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے خدا کرے کہ ان کی امید یں نہ ٹوٹیں لیکن اسی قوم کے ایک فرد کی حیثیت سے خیال آیا کہ اپنی امیدیں بننے اور ٹوٹنے کو اختصار سے بیان کروں اگرچہ ٹوٹنے کی وجوہ پر اظہار خیال موقع کی مناسبت سے خوشگوار نہیں اس لئے بڑے اجتناب کے ساتھ بھٹو صاحب سے تقابل کیا ہے کہ کبھی ان سے بھی ہمارے بہت سے مہربانوں نے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں لیکن جو کچھ قوم کو ملا کاش اس پر کھلے مباحثے کی بھی کھلی اجازت ہو۔۔کبھی وطنِ عزیز کی تین مذہبی شخصیات کے متعلق ان کی حصول اقتدار کے لئے بڑھی ہوئی حرص دیکھ کر یہ خیال آیا کرتا تھا کہ خدایا انہیں اس کے بغیر رات کو نیند کیسے آتی ہو گی۔ بھٹو صاحب کی حالت بھی ان سے کچھ مختلف نہ تھی۔

اپنے نو منتخب وزیراعظم کے لئے ہماری دعا ہے کہ بھاری ذمہ داری کاندھوں پر پڑنے کے نتیجے میں وہ احتیاط کا دامن تھام لیں بولنے سے پہلے تولیں۔کوئی بھی شخصیت جس کے لاکھوں کروڑوں چاہنے والے ہوں اس کے متعلق کبھی کسی کو نازیبا زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے۔

چاہے وہ نواز شریف ہوں یا عمران خان یا ذوالفقار علی بھٹو لیکن تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی حقائق بالآخر کھل کر رہتے ہیں مثال کے طور پر اگر عمران خان نے تین شادیاں کی ہیں یا اگر بھٹو صاحب نے بھی تین شادیاں کی تھیں تو بلاشبہ یہ اُن دونوں کا نجی یا ذاتی معاملہ ہے مگر تاریخ میں تو سب کچھ موجود ہے اور رہے گا جس طرح ہمیں کسی بھی بلند تر شخصیت کا حق احترام ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے اُسی طرح ریکارڈ کی درستی کے لئے حق تنقید کا بھی ویسا ہی احترام ہونا چاہیے درویش کی نظر میں دونوں کا مقصد حیات سوائے حصول اقتدار اور پھر دوامِ اقتدار کے اور کچھ نہیں رہا۔ انسانی خدمت کے حوالے سے بھی دونوں کے وچار افلاطون یا ارسطو سے نہیں بلکہ میکیاولی مکتب ِفکر سے حاصل کردہ ہیں۔ بھٹو صاحب نے تو دی پرنس باقاعدہ پڑھ رکھی تھی اور وہ اس سے متاثر بھی تھے ہمارے ممدوح بغیر پڑھے ہی اس کے مندرجات پر عمل پیرا ہیں۔بھٹو مرحوم اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا رویہ روا رکھتے تھے اور کیسی زبان بولتے تھے، سب جانتے ہیں۔ ہماری تمنا ہے ہمارے نومنتخب وزیراعظم وقار اور متانت کا اصلاحی رویہ اپنائیں۔ خداوند انہیں اپنی ٹیم کے ساتھ عوامی خدمت کا وہ موقع دے کہ جو لوگ سیاستدانوں کے متعلق منفی باتیں کرتے ہیں وہ بھی مثبت اظہارِ خیال پر مجبور ہو جائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین