• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بقر عید آئی بھی اور گزر بھی گئی۔ بکروں کے خریداروں میں ایک میں بھی تھا۔ سارا لاہور بکروں سے بھرا پڑا تھا بلکہ سارے ملک میں بکرے ہی بکرے نظر آ رہے تھے میں اپنے بیٹوں کے ساتھ بکروں کی خریداری کے لئے گھر سے نکلا تو ایک بیوپاری نے میرا راستہ روک لیا اس نے کہا جناب آگے جانے سے پہلے آپ میرے ریوڑپر بھی نظر ڈال لیں میں نے دیکھا اس کے ریوڑ میں بکرے چھترے اور دنبے سبھی شامل تھےمیرے ساتھ ایک بکرا سپیشلسٹ بھی تھا اس نے بکروں کے منہ بے دردی سے کھولتے ہوئے مجھے بتانا شروع کیا کہ ان میں سے کونسا دوندا ہے کونسا چوگا ہے اور کونسا کھیرا ہے۔ میرے نظر ایک دوسرے بکرے پر ٹھہر گئی اس کا قد کاٹھ دیدنی تھا وہ بکروں کا سردار لگتا تھا میں نے اسے ٹٹولنے کے لئے ہاتھ اس کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ اس نے مجھے ایک زور دار ٹڈھ مارا میں نے دوسری طرف سے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے چیتے جیسی پھرتی کے ساتھ اپنی پوزیشن بدلی اور ایک دفعہ پھر مجھ پر حملہ آور ہو گیا۔

یہ صورت حال دیکھ کر میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا’’میاں میں تمہیں اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہتا ہوں، آگے سے مزاحمت کر کے کیوں اپنا ثواب ضائع کرتے ہو‘‘ اس پر اس نے مجھے غصیلی نظروں سے گھورا اور بولا’’اب ہم بکرے تمہاری باتوں میں نہیں آنے والے تم ہمیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتے ہو ہم تمہاری باتوں میں آ کر اپنی جانیں قربان کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ برس ہا برس سے جاری ہے مگر اب ایسا نہیں ہو گا ‘‘ میں نے وجہ پوچھی تو پیشتر اس کے کہ بکرا کچھ کہتا، اس کے برابر میں بندھی بکرے کی ماں نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’اس بات کا جواب مجھ سے لو، میں اپنے کئی جگر کے ٹکڑے اللہ کی راہ میں قربان کر چکی ہوں مگر اب تم نے اللہ کی راہ میں قربان ہونے والوں کو الٹے سیدھے نام دے دئیے ہیں مجھےان قربانیوں پر فخر تھا لوگ مجھے شہید کی ماں کہتے تھے اور اب ‘‘ پھر اس نے رونا شروع کر دیا ۔

میں نے بکرے کی ماں کی یہ گفتگو سنی تو کچھ کھسیانا سا ہو گیا میں نے اپنے حوصلے مجتمع کرتے ہوئے کہا ’’کون کہتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جانیں دینے والوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ ہم تو بارڈر پر شہید ہونے والے اپنے فوجیوں پر فخر کرتے ہیں ہمیں ان سے نفرت ہے جو لوگوں کی جانیں مذہب کے نام پر لیتے تھے یا لیتے ہیں ، ویسے بھی ان باتوں کا اطلاق انسانوں پر ہوتا ہے تم پر نہیں‘‘ مگر بکرے کی ماں نے میری اس بات کا جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔

اس دوران بکرا اسپیشلسٹ نے ایک اور بکرے کے بارے میں سند جاری کی کہ یہ دوندا ہے اور بالکل بے عیب بھی ہے میں نے اسے ٹٹولنے کی کوشش کی تو وہ ہنستے ہنستے دہرا ہو گیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا ’’خدا کے لئے ایسا نہ کرو مجھے گدگدی ہوتی ہے‘‘۔

میں نے سوچا یہ مسخرا بکرا ہے سر پر تلوار لٹک رہی ہے اور اسے ہنسی آ رہی ہے۔بہرحال جب اس کی ہنسی تھمی تو اس نے مجھے مخاطب کیا اور پوچھا ’’تم مجھے کیوں خریدنا چاہتے ہو‘‘

میں نے جواب دیا’’میں تمہیں اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس پر اس نے دوبارہ ہنسنا شروع کر دیا اور پھر وہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا اور بولا ۔ خدا کے لئے مذہب کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانا چھوڑ دو میں نے پوچھا ’’کیا مطلب‘‘ بولا’’تم مجھے خرید کر لے جائو گے میرے پائوں میں گھنگھرو باندھو گے گلے میں رنگ برنگے دھاگوں کا ہار پہنائو گے اور سارا دن تمہارے بچے مجھے گلیوں میں گھسیٹتے پھریں گے۔ لوگ واہ واہ کریں گے کہ قاسمی صاحب نے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے کتنا مہنگا بکرا خریدا ہے اس کے بعد مجھے ذبح کیا جائے گا ایک ران روسٹ کرانے کے لئے رکھ لی جائے گی دوسری کسی افسر کو بھیج دی جائے گی دو دستیاں فریزر میں چلی جائیں گی اور باقی گوشت دو دو تین تین بوٹیوں کی صورت میں رشتے داروں میں بانٹ دیا جائے گا اور یوں پورے خاندان کو علم ہو جائے گا کہ تم نے قربانی کی ہے یہ سب کچھ تو نام و نمو د اور اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے ہے اس میں اللہ کے حکم کی تعمیل کا پہلو کہاں سے آتا ہے‘‘ میں نے اس بدتمیز بکرے کے منہ لگنا مناسب نہ سمجھا ورنہ میں اسے بتاتا کہ میں اوجھڑی پھیپھڑے اور بکرے کے دوسرے اعضائے رئیسہ ہمیشہ اللہ کی خوشنودی کے لئے غریبوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ہمیں شرم آنی چاہئے کہ پورے کے پورےبکرے کی قربانی کو نام و نمود کا نام دے دیا۔

اس پر اس مسخرے بکرے نےایک بار پھر ہنسنا شروع کر دیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین