• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنوں موسم پینترا بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ گرمی کے چنگل سے آزاد ہو لیکن اس کوشش میں وہ گرمی اور سردی کے درمیان پھنس کررہ گیا ہے چنانچہ خدشہ ہے کہ کہیں موسم بھی ”گرم سرد“ کا شکار نہ ہو جائے۔ موسم کے اس دوغلے پن کی وجہ سے لوگ بھی ”دوغلے پن“ کا شکار ہو رہے ہیں۔ گرمیوں کا لباس پہن کر نکلتے ہیں تو خنکی کا احساس ہوتا ہے اور سردیوں کا لباس پہنتے ہیں تو جسم پر ”پت“ نکل آتی ہے چنانچہ وہ کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی فکر میں ہیں البتہ ایک دوست کو میں نے دیکھا کہ وہ گرم سوٹ زیب تن کئے خراماں خراماں چلے آ رہے ہیں، کمرے میں داخل ہوتے ہی فرمانے لگے ”یار ذرا اے سی چلانا، گرمی لگ رہی ہے“ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو گرمی محسوس ہو رہی تھی تو پھر سوٹ پہننے کی کیا تک تھی؟ فرمانے لگے ”میں سرکاری ملازم ہوں اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ سرکاری طور پر موسم سرما اکتوبر سے شروع ہوچکا ہے“ ایک اور دوست بھی گزشتہ روز سوٹ میں ملبوس دکھائی دیئے۔ میں نے اس ”مشکل پسندی“ کی وجہ پوچھی تو بولے ”سردیاں اصولاً اب تک شروع ہو جانا چاہئے تھیں چنانچہ میں نے دو ہفتے قبل سوٹ سلا لیا تھا، اس کے بعدمیں سردی پڑنے کا انتظارکرتا رہا، لیکن کب تک کرتا؟بالآخر آج جان پرکھیل گیا ہوں۔“
خود میں بھی ان دنوں خاصے ”مخمصے“ میں مبتلا ہوں۔ سوچتا ہوں کس حقیقت کو تسلیم کروں؟ ایک حقیقت یہ ہے کہ فضا میں خنکی موجود ہے اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ گرمی اپنی جگہ پر قائم ہے چنانچہ اس منافق موسم نے خاصا پریشان کیا ہوا ہے تاہم میں نے درمیانی راستہ تلاش کرلیا ہے۔ میں دوپہر کو بوشرٹ وغیرہ اور رات کو سفاری سوٹ پہن کر نکلتا ہوں اور یوں حسب توفیق دونوں موسموں کو خوش کرنے کی کوشش میں ہوں۔ جب کبھی ان میں سے کسی موسم کو برا کہنے کو جی چاہتا ہے تو مجھے مولوی صاحب منع کردیتے ہیں کہ ”موسم کو برا نہ کہو، اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں“ اس موسم کے حوالے سے یاد آیا کہ میرے ایک دوست سیاسی موسموں کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ چنانچہ اکثر چولا بدلتے رہتے ہیں، موصوف ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ماؤ کیپ پہن کر پھرتے تھے۔ ضیاء الحق کا دور آیا تو انہوں نے ماؤ کیپ ایک دائمی قسم کے جیالے کو دان کر دی اور اسکی جگہ جناح کیپ پہننا شروع کردی جبکہ مشرف کے دور میں یہ صاحب کچھ نہیں پہنتے تھے۔ ان دنوں موصوف کنپٹی پر پائے جانیوالے رسمی بالوں کی نمائش کرتے ننگے سر پھرتے رہتے حالانکہ جو سر پہلے ہی اتنا ننگا ہو اس پر کچھ نہ کچھ ضرور رکھ لینا چاہئے۔
میں نے اس ”ننگ سر“ کو مشرف کے دنوں میں دیکھا توکہا ”تمہیں شاید علم نہیں کہ سیاسی رسم و رواج کے مطابق انسان خواہ کسی فوجی حکمران کے ساتھ ہو مگر اس کے سر پر جمہوری یا انقلابی ٹوپی ضرور ہونا چاہئے۔ افسردگی سے بولے ”مجھے علم ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو ٹوپی بھی میں نے پہنی ہے مجھے اس کی وجہ سے مار ہی پڑی ہے۔ مجھے پی پی پی کے ایک رہنما سے ملاقات کرنا تھی۔ میں نے سوچا یہ بھٹو کی انقلابی جماعت ہے۔ ماؤ کیپ پہن کر اس سے ملنا چاہئے چنانچہ سارے شہر کی مارکیٹوں کی تلاشی لینے کے بعد ایک دکان سے مجھے ماؤ کیپ ملی۔ میں نے وہ خرید لی اورسر پر دھر کر پی پی پی کے رہنما کے گھرگیا۔ اس کی پہلی نظر ہی میری اس کیپ پر پڑی اوربولا ”اصحابِ کہف کے ساتھ تمہارا کیا رشتہ ہے؟“ پھر خود ہی کہنے لگا ”یہ ٹوپی اتارو، زمانہ بدل گیا ہے۔ اب پیپلزپارٹی بھٹو کی نہیں زرداری کی جماعت ہے۔“ یہی سلوک میرے ساتھ جناح کیپ کے حوالے سے بھی ہوا۔ مسلم لیگ کے جس دھڑے سے بھی ملا، اس نے میری اس ہیت کذائی پرہنسنا شروع کر دیا۔ آپ خود ہی بتائیں میں کیا پہنوں؟“ میں نے جواب دیا ”نیکی ہیٹ پہنا کریں اب بہت عرصے تک پاکستان پرانکل ٹام ہی کی حکومت رہے گی“ میں نے اپنے دوست کو اپنا یہ شعر بھی سنایا :
لگتا ہے بہت دیر رکے گی میرے گھر میں
اس رات کی آنکھوں میں شناسائی بہت ہے
یہ ساری باتیں میں نے آپ کو اس لئے بتائی ہیں کہ میرایہ ”لوٹا“ دوست سیاسی ”یونیفارم“ کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہے۔ اتنا زیادہ کہ اگر کبھی ملک میں کنجروں کی حکومت قائم ہوگئی تو یہ سر پر ”ساتھی“ یافیملی پلاننگ والوں کا منظورشدہ کوئی اوربرانڈ سر پر پہن کر گھر سے نکلے گا!
اب سر کی بات چل نکلی ہے تو ایک اور ”سر“ کی داستان بھی سن لیں۔ یہ میرے ایک عزیز دوست ہیں جومیرے متذکرہ دوست کے ”ہم سرہیں“ ان کاکہنا ہے کہ جب وہ شیو بنانے کے لئے صبح آئینے میں اپنی شکل دیکھتے ہیں تو دو سروں سے کیا گلہ ان کا اپنا موڈ آف ہو جاتا ہے تاہم موصوف دھڑلے کے آدمی ہیں چنانچہ وہ پبلک میں بھی اپنا یہ واشگاف سر لئے پھرتے ہیں بلکہ اسی عالم میں خواتین میں بھی جا گھستے ہیں اوروہ شرما کر سروں پردوپٹہ رکھ لیتی ہیں لیکن موسم کے دوغلے پن سے میرے یہ دوست بھی پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گرمیوں میں سر پر ڈیڑھ پاؤ دہی لگا کر لیٹ جاتے ہیں کہ سارادن دھوپ ان کے سر پر براہ راست پڑتی ہے اور سردیوں میں زیتون کی مالش کرتے ہیں لیکن اس منافق موسم نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا۔مجھ سے مشورہ کرتے تھے کہ وہ کیا کریں؟ میں نے کہا وہ فی الحال تیل دیکھیں اورتیل کی دھار دیکھیں! میں نے یہ بھی کہاکہ آپ کو اپنے چہرے کی ”ابتدا“ اور ”انتہا“ کا پتہ نہیں چلتا لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ دریں اثناء یہ سر کسی مستحق پارٹی کو مستعار دے دیں جو اس منافق موسم میں ”فیس سیونگ“ کی فکر میں ہو مگر میرے یہ دوست اس مشورے سے ناراض ہوگئے۔ حالانکہ ناراض اس پارٹی کو ہونا چاہئے تھا جسے یہ سر میں نے بخشش میں دینے کی سفارش کی تھی!
بات سیاسی لوگوں کی ہو رہی ہے چنانچہ آخرمیں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کے دو ہے بھی سن لیں میں یہ دوہے سیاسی نیتاؤں سے معذرت کے ساتھ یہاں درج کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں:
نیتا کیسے بھاگ میں ہائے رہے بھگوان
دو کوڑی کے واسطے بیچیں دین ایمان
نیتا لے گئے لوٹ کر ہیرے، پنّے، لال
بے کس جنتا رہ گئی نیلامی کا مال
خالی کھیسہ قوم کا نیتا نکلے چور
سوداگر اندھیار کے کیسے آئے بھور
جگ سے لقمہ چھین کر نیت کھائیں بھوگ
اپنے پیارے دیس کے مجرم ہیں یہ لوگ

ایسے نیتا بخش دے نیت جن کی صاف
ظاہر باطن ایک ہو کرنی ہو شفاف
ایسے نیتا بخش دے جنتا سے ہو پیار
مرہم رکھیں گھاؤ پر، روگی کے اَدھار
ایسے نیتا بخش دے جن کے من ہو پیر
جنتا کے دکھ بانٹ لیں سکھلائیں جو دھیر
ایسے نیتا بخش دے من جن کے سچائی
مرنا جینا ساتھ ہو نکلیں نہ ہرجائی
ایسے نیتا بخش دے نیکو جن کے کام
اونچا ہو سنسار میں جن کے دم سے نام
ایسے نیتا بخش دے پتھ کی ہو پہچان
جن کی آنکھوں میں سدا منزل پاکستان
تازہ ترین