• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی سرکار آتی ہے، نئے نئے وزیر آتے ہیں تو ہر شعبے کے لوگوں کو اپنے اپنے وزیرتک رسائی کی فکر ہوتی ہے۔ڈھونڈتے ہیں کہ اس وزیر کا یار جانی کون ہے ؟کوئی ہم زلف، کوئی برادرنسبتی! ہر سیکرٹریٹ کے باہر کچھ شخصیتیں مستقل گشت کرتی ہیں۔ وزیر کوئی بھی ہو، کسی پارٹی کا بھی ہو، اس وزارت کے کام ان جادوگروں کے ذریعے ہی تمام ہوتے ہیں۔ وزیر کے سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری، پی آر او بھی ان سے ہی رابطے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کام جتنا مشکل ہو، جتنا منافع بخش، اسی حساب سے سروس چارجز (خدمتانہ) ادا کرناہوتا ہے۔ وزیر بدل سکتا ہے، سیکرٹریٹ نہیں بدلتا۔ نہ ہی سیکرٹریٹ کے باہر کی فضا!

دوسری وزارتوں کے متاثرین اپنے اپنے نجات دہندہ تلاش کرچکے ہوں گے۔ ہمارا واسطہ تو نصف صدی سے وزارت اطلاعات و نشریات سے چلا آرہا ہے۔ نیا وزیر اطلاعات و نشریات آتا ہے تو میڈیا مالکان سے لے کر ایڈیٹروں، رپورٹروں اور اب اینکر پرسنز کو اس تک پہنچنے کی بیتابی ہوتی ہے۔ سب کا اتفاق ویسے تو اس امر پر ہے کہ اب وزارت اطلاعات نہیں ہونی چاہئے کیونکہ سب سے زیادہ جھوٹ یہاں بولنا پڑتا ہے، ڈس انفارمیشن سب سے زیادہ یہی وزارت پھیلاتی ہے۔ آمریتوں کے زمانے میں وزارت اطلاعات و نشریات کی بنیادی ذمہ داری یہ ہوتی تھی کہ میڈیا کو قابو کیسے کیا جائے۔ جمہوریتوں میں اس وزارت کی ذمہ داری یہ بن جاتی ہے کہ میڈیا کو خوش کیسے رکھا جائے۔ اشتہارات کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں اور حجم بھی! رپورٹرز، کالم نویسوں کوبڑے ملکوں کے سیر سپاٹے پربھیجا جاتا ہے۔ شادی کے قابل ہوں تو ان کی شادی کے خرچے! اور اگر زیادہ اہم ہیں تو ہنی مون کے اخراجات بھی وزارت کے سیکرٹ فنڈ سے ادا کئے جاتے ہیں۔ بعض ادوار میں یہ خدمت پراکسی سسٹم سے کروائی جاتی رہی ہے۔ دائیں ہاتھ سے کی جانیوالی اس نیکی کا بائیں ہاتھ کو علم نہیں ہوتا تھا۔ خود شادی شدہ میڈیا جوڑے کو پتا نہیں چلتا تھا کہ اس شاندار اہتمام کا اصل محسن کون ہے۔

ایک روایت یہ رہی ہے کہ ہر نیا وزیر اطلاعات حلف اٹھاتے ہی برسوں سے دشت صحافت کی سیاحت کرنے والوں کو بڑی سنجیدگی سے یہ سکھانے لگتا ہے کہ صحافت کیا ہے، اس کے آداب کیا ہیں، تعمیری تنقید کیا ہے، ملک دشمنی کیا ہے۔

یہ بھی ہم سب کا تجربہ بلکہ مشاہدہ ہے کہ سرکار خاکی ہو یا خاک نشینوں کی، اسے کامیاب یا ناکام بنانے میں مرکزی کردار MINFA، وزارت اطلاعات و نشریات کا رہا ہے۔ ایوب خان کی حکومت ٹھیک ٹھاک جارہی تھی کہ اس وقت کے وزیر اطلاعات نے انہیں عشرئہ اصلاحات منانے کا مشورہ دے دیا۔ بھٹو صاحب کے 1977ء کے انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی بلامقابلہ منتخب ہونے کی دوڑ لگی اور اس کے بعد وزارت اطلاعات نے سارے اخبارات سے پہلے صفحے پر 3کالمی پورٹریٹ شائع کرنے کی ایڈوائس جاری کی اور کیپشن لگوائی ’’عوام کا متفقہ مسلمہ غیر متنازع رہبر‘‘

نئے وزیر اطلاعات و نشریات سے ہماری کوئی بالمشافہ ملاقات نہیں رہی ہے انہیں مختلف جماعتوں کی ترجمانی کرتے دیکھا ہے کچھ تو راندئہ درگاہ ہوگئیں۔ تحریک انصاف سخت جاں نکلی ان کی ترجمانی کو بھی برداشت کیا اور الیکشن میں کامیاب بھی ہوگئی۔ یہ تو اسلام آباد کے ایڈیٹرز، اینکر پرسنز اور رپورٹرز بتا سکتے ہیں کہ فواد چوہدری صاحب نے اپنے پیش روئوں کی طرح یہ بتانا شروع کیا ہے کہ نہیں کہ صحافت کیا ہوتی ہے، میڈیا کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔

میں نے سوچا کہ اس سے بیشتر کہ وہ ہمیں بتائیں کہ صحافت کیا ہوتی ہے، ہم انہیں وزارت اطلاعات و نشریات کے ماضی کی سیر کروا دیں۔

وزیر اطلاعات نے سابقہ وزرائے اطلاعات کی تصاویر دیکھ لی ہوں گی اور جان رہے ہوں گے کہ وہ کس صف میں کھڑے ہیں۔ مجھے یاد آرہے ہیں پہلی کابینہ کے فضل الرحمن پھر پیر علی محمد راشدی، خواجہ شہاب الدین، نوابزادہ شیر علی خان جنہوں نے نظریہ پاکستان کی پاسداری کی کوشش کی۔ بائیں بازو کے صحافیوں کو چن چن کر بے روزگار کردیا گیا۔ حفیظ پیرزادہ جن کے دور میں ان صحافیوں کو دوبارہ برسرروزگار کیا گیا۔ مولانا کوثر نیازی، طاہر محمد خان، راجہ ظفرالحق، لیکن ان کے سیکرٹری جنرل مجیب الرحمان زیادہ بااختیار تھے حالانکہ راجہ ظفرالحق کے بھی قریبی رشتے دار جنرل تھے۔ قاضی عبدالمجید عابد، چوہدری شجاعت حسین، جاوید جبار، شیخ رشید احمد، محمد علی درانی، نثار میمن، شیری رحمن، پرویز رشید ڈان لیکس کی نذر ہوگئے۔ مریم اورنگ زیب۔

وزراء اپنی جگہ اطلاعات و نشریات کے سیکرٹری بھی بڑے بااثر اور نامور رہے ہیں۔ جناب الطاف گوہر، قدرت اللہ شہاب، روئیداد خان، مسعود نبی … جنرل مجیب الرحمن، راشد لطیف، انور محمود، اشفاق گوندل، ان میں سے بہت سوں کی خودنوشت مقبول خاص و عام بھی رہیں کچھ نام یاد نہیں آرہے ہوں گے۔ طریقہ یہ بھی رہا کہ بعض اوقات وزیر سخت گیری کا مظاہرہ کرتے تو سیکرٹری نرم رویہ رکھتے۔ بعض اوقات سیکرٹری درشت لہجے میں دھمکیاں دیتے، وزیر آنکھیں قدموں میں بچھاتے۔

فواد چوہدری بالکل ہی مختلف دور میں وزارت اطلاعات و نشریات کے گناہ بے لذت کا ارتکاب کررہے ہیں۔ اخبارات تو اس وقت ثانوی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ اسی طرح کالم نویس بھی! سامنے صرف 24گھنٹے بولتے ٹی وی چینل ہیں اور ہر لمحہ مستعد سوشل میڈیا! اب یہ وزارت گزشتہ دہائیوں والی وزارت نہیں رہی ہے۔ اشتہارات میں زیادہ تر غیر سرکاری سیکٹر میں چلے گئے ہیں۔ نیوز پرنٹ بھی حکومت کے دائرئہ اختیار میں نہیں ہے۔ جھوٹ بھی چند لمحوں میں بے نقاب ہوجاتا ہے۔ ڈس انفارمیشن میں سوشل میڈیا، وزارت اطلاعات سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل وزارت اطلاعات سے زیادہ منظم ہیں۔ وہاں بجٹ کی پابندی ہے نہ اخراجات کی کوئی حد…! غیر سیاسی قوتوں، غیر سرکاری تنظیموں، سیاسی گروپوں کے میڈیا منیجرز بھی زیادہ تربیت یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے زیادہ آشنا ہیں۔

پہلی احتیاط تو یہ ہونی چاہئے کہ وزارت اطلاعات و نشریات حکمران پارٹی کا میڈیا سیل نہ بنے۔ پارٹی کو اپنا میڈیا سیل غیر سرکاری رکھنا چاہئے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کو صرف حکومت پاکستان کے میڈیا کا کردار ادا کرنا چاہئے ریاست پاکستان کا اپنا میڈیا ہے اس کی کارکردگی اور MINFA کی کارکردگی الگ الگ ہونی چاہئے۔

وزیر اطلاعات کو صرف اسلام آباد تک محدود نہیں رہنا ہوگا لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور اب ملتان، فیصل آباد بھی متحرک فعال میڈیا مراکز ہیں باقاعدہ روابط اور ہر ماہ بریفنگ کا اہتمام ناگزیر ہے۔ ان مراکز کے دورے بھی ضروری ہیں میڈیا مالکان، ایڈیٹرز، اخباری رپورٹرز، ٹی وی رپورٹرز، اینکر پرسنز، تجزیہ نگاروں سے ملاقاتیں الگ الگ ہوں کیونکہ ان سب کے مسائل بھی الگ ہیں، نقطہ ہائے نظر بھی جدا ہیں۔

یہ بھی تاریخ کا جبر ہے کہ وزیر اطلاعات کو میڈ یا میں دوسرے وزراء سے زیادہ کوریج ملتی ہے اس لئے دوسرے وزراء حسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اپنی وزارتوں کے کارناموں کی کم تشہیر کا ذمہ دار وزیر اطلاعات و نشریات کو ٹھہرانے لگتے ہیں وزیراعظم کو بھی باور کروایا جاتا ہے کہ ٹی وی میں آپ سے زیادہ وقت اخبارات میں آپ سے زیادہ جگہ وزیر اطلاعات لے رہا ہے پھر وہ وقت آجاتا ہے

ترے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین