• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

17 اگست 2018ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد ایوان ( وزیر اعظم ) منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں عمران خان نے ملک میں کڑے احتساب کا اعلان کیا ۔ یہ صرف ایک نو منتخب وزیراعظم کے عزم کا اظہار نہیں ہے بلکہ پاکستانی قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ ان لوگوں کا احتساب ہو ، جو ان پر حکمرانی کرتے رہے ہیں ، کر رہے ہیں یا آئندہ کریں گے اور 25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کے نتائج کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو عمران خان کو پاکستان کے عوام کا مینڈیٹ ان کے احتساب کے نعرے پر ہی ملا ہے ۔ انہوں نے ’’ نیا پاکستان ‘‘ کا جو تصور دیا ہے ، اس کی بنیاد ’’ احتساب کا شفاف اور غیر جانبدارانہ نظام ‘‘ ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کو اور بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن سب سے بڑا چیلنج احتساب کے حوالے سے ہے ۔

عمران خان نے منتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ’’ میں اللہ کے سامنے وعدہ کرتا ہوں کہ سب کا کڑا احتساب ہو گا ۔ کسی ڈاکو کوکسی قسم کا این آر او نہیں ملے گا ۔ اقتدار کے ذریعہ پاکستان کا پیسہ چوری کرکے باہر لے جانے والے ایک ایک آدمی کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کروں گا ۔ ‘‘ کڑے احتساب کے اس دو ٹوک اعلان کے بعد وزیر اعظم نے ایک اور بات واضح الفاظ میں بیان کی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے آدمی نہیں ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ یہ کہا جا رہا تھا کہ میں اسٹیبلشمنٹ کا پلانٹ ہوں ۔ مجھے کسی ڈکٹیٹر نے نہیں پالا ۔ میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر آیا ہوں ۔ ‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیا پاکستان میں وہ سب کے کڑے احتساب کے اپنے وعدے کی کس طرح تکمیل کرتے ہیں ۔ پاکستان کے عوام بہر حال احتساب پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان تحریک انصاف نے کرپٹ لوگوں کے احتساب کے حوالے سے لوگوں میں نہ صرف شعور بیدار کیا بلکہ لوگوں کی امیدوں کو بھڑکایا ۔ تحریک انصاف کی اس مہم میں سب سے اہم کردار ’’ سوشل میڈیا ‘‘ نے ادا کیا ۔ سوشل میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے ، جس کا ادراک تحریک انصاف کی قیادت نے کیا اور اس طاقت کو بہت دانش مندی سے استعمال کیا ۔ تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کو اب اگر کوئی سختی سے مانیٹر کرے گا تو وہ سوشل میڈیا ہی ہے اور سوشل میڈیا نے یہ مانیٹرنگ شروع کر دی ہے ۔ سوشل میڈیا کیا ہے ؟ اس حوالے سے امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی ( سی آئی اے ) کے ایک سابق افسر کی رائے کا حوالہ یہاں بہت زیادہ مناسب ہو گا ۔ ریمنڈ میک گورن ( Raymond McGovern) 1963ء سے 1990 ء تک سی آئی اے میں تجزیہ کار رہے ۔ 1980 کے عشرے میں وہ نیشنل انٹیلی جنس (Estimates) کے سربراہ بھی رہے ۔ وہ امریکی صدر کے لیے روزانہ کی بریفنگ بھی تیار کرتے تھے ۔ وہ سوشل میڈیا کو میڈیا کی ففتھ اسٹیٹ ( Fifth Estate) قرار دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیںکہ ’’ عہد جدید کے لوگ ففتھ اسٹیٹ کے ذریعہ باخبر رہ سکتے ہیں۔ اس ففتھ اسٹیٹ کا وجود ایتھر (Ether) میں ہے ۔ ( واضح رہے کہ ایتھر ایک نامیاتی مرکب ہے ) یہ ففتھ اسٹیٹ حکومتوں، کارپوریشنز اور ایڈورٹائزرز کے زیر اثر نہیں ہے اور نہ ہی اس پر افواج کاکنٹرول ہے ۔ یہ آزاد ہے ۔ یہ ان لوگوں کے لیے خطرناک ہے ، جو خفیہ فیصلے کرتے ہیں یا ایسی چیزیں بناتے ہیں ، جو خفیہ انداز سے چلتی ہیں ۔

فورتھ اسٹیٹ کو حکومتوں ، کارپوریٹس ، ملٹری انڈسٹریل کمپلیکسز اور انٹیلی جنس اداروں نے قابو کر لیا تھا ۔ اس لیے اب فورتھ اسٹیٹ نہیں ہے ۔ ‘‘ ریمنڈ میک گورن نے سوشل میڈیا سے پہلے والے میڈیا بشمول پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو میڈیا کی فورتھ اسٹیٹ قرار دیا تھا اور اب ریمنڈ میک گورن کے نزدیک اس فورتھ اسٹیٹ میڈیا کا اب کوئی اثر نہیں ہے۔ اب ایک ایسا ففتھ اسٹیٹ میڈیا ہے، جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے ۔ اگرچہ کچھ افراد یا گروہ زیادہ سرگرم ہو کر سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں لیکن دوسرے افراد یا گروہوں کے لیے بھی برابر کے مواقع موجود ہیں ۔

پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی کارکردگی خصوصا پہلے 100 دن کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے حوالے سے سوشل میڈیا پر سخت مانیٹرنگ شروع ہو چکی ہے ۔ اس حوالے سے کئی مانیٹرنگ ویب سائٹس بن چکی ہیں ۔ یہاں ’’ خان میٹر ‘‘ نامی ویب سائٹ کا تذکرہ خاص طور پر ضروری ہے ، جو سلمان سعید نامی ایک شخص نے بنائی ہے۔ اس ویب سائٹ پر ان تمام نکات کا اندراج کیا گیا ہے ، جو عمران خان نے گزشتہ 20 جولائی کو اپنی حکومت کے پہلے دنوں کے ایجنڈے کا اعلان کرتے ہوئے بیان کیے تھے ۔ ویب سائٹ میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے کتنے دن گزر گئے ہیں اور ان دنوں میں ایجنڈے کے کس نکتے پر کتنا عمل درآمد ہوا ہے ۔ اس طرح مشہور ویب سائٹ ’’ وکی پیڈیا ‘‘ پر بھی تحریک انصاف کی حکومت میں شامل 500 سے زائد وزراء ، مشیروں اور ارکان اسمبلی کے پروفائل پیجز (Pages) بنا دیئے گئے ہیں ، جہاں ان کی کارکردگی کا ریکارڈ جمع ہوتا رہے گا یا بصورت دیگر ان کی کسی بے قاعدگی کا بھی تذکرہ ہو گا ۔ سوشل میڈیا پر ان ویب سائٹس کی سائنسی بنیادوں پر مانیٹرنگ کے علاوہ لوگ انفرادی طور پر تمام چھوٹے چھوٹے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ وہ نہ صرف ایسی چیزیں منظر عام پر لا رہے ہیں ،جو الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا یا فورتھ اسٹیٹ میڈیا میں نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ ہر اسٹوری پر بے رحمانہ تبصرے بھی کرتے ہیں ۔ جس سوشل میڈیا نے روایتی سیاست دانوں کے مقابلے میں عمران خان کو کامیابی دلائی ۔ وہ سوشل میڈیا اب بھی کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے ۔

اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں احتساب پہلے سے شروع ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نہ صرف ایوان وزیر اعظم سے نکلے بلکہ وہ اپنی صاحبزادی اور داماد کے ساتھ جیل میں ہیں ۔ یہ سب تحریک انصاف کی حکومت آنے سے پہلے ہوا ۔ اگرچہ تحریک انصاف کے کچھ حلقے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے احتساب کا عمل شروع ہوا ۔ اگر اس دعوے کو بوجوہ درست تسلیم کر لیا جائے تو اب احتساب کے اس عمل کو جاری رکھنا اور ساتھ اس عمل کے غیر جانبدارانہ ہونے پر دنیا کو یقین دلانا بہت بڑا چیلنج ہے ۔ آج کی دنیا ریمنڈ میک گورن کے بقول ففتھ اسٹیٹ کے ذریعہ باخبر رہتی ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین