• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اس عہد کے دو بڑے صحافیوں کا تذکرہ مقصود ہے محمود شام، پاکستانی صحافت کا بہت بڑا نام ہیں جبکہ کلدیپ نائر اس خطے کی صحافت کا بہت بڑا نام تھے۔ محمود شام جی ان دنوں دھڑا دھڑ کتابیں لکھ رہے ہیں کتابیں کیا ہیں ایک جہان معنی ہے’’ لاڑکانہ سے پیکنگ تک‘‘ میں ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی سفر کی داستان رقم ہے شام جی بھٹو کے ہم سفر ہوتے تھے، بھٹو کی سوئیکار نو سے کیا باتیں ہوئیں اور ماوزے تنگ سے کیا؟یہ پہلی دفعہ اس کتاب میں پڑھنے کو ملا۔’’اپ سیٹ 2008‘‘ لکھی تو جنرل مشرف اور شریف خاندان کے درمیان معاہدے کی اصل دستاویزات شائع کر کے سب کو حیران کر دیا۔ اپنے سفر حج کی تہہ در تہہ کہانی ’’رحمن کے مہمان‘‘ شائع کی ہے تو اس میں نہ صرف اپنے دلی جذبات کو سمویا ہےبلکہ حج کی تاریخ اور آج تک حج کے جتنے بھی سفر نامے لکھے گئے ہیں ان کا خلاصہ بھی پیش کر دیا ہے، شام جی کے قلم کی جولانیاں مسلسل 40سالوں سے عروج پر ہیں۔ ادب، شاعری، سیاست اور اب مذہب، غرضیکہ کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر ان کی دسترس نہ ہو۔ شام جی شاعر ہونے کے باوجود محبوب کی کمر کو غائب نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی آنکھ کو غزال بناتے ہیں وہ حقیقت پسندی کے قائل ہیں افراط و تفریط کی بجائے الفاظ کو ناپ تول کر استعمال کرتے ہیں۔ وہ اس عہد کی صحافیانہ شان ہیں ان کی ہر تحریر میں کچھ نہ کچھ سبق، ماضی کا تجربہ اور مستقبل کا لائحہ عمل موجود ہوتا ہے۔ صحافیوں کو ان کے تجربے سے اور عوام کو ان کے کہے سے سیکھنا چاہئے شام جی زندگی کے ابتدائی دنوں میں جھنگ میں رہے، لاہور کے علمی اور ادب ماحول میں پڑھے دوسری طرف گزشتہ دن وفات پانے والے کلدیپ نائر بھی لاہور کے ایف سی کالج میں پڑھے۔ کلدیپ نائر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد ڈاکٹر تھے نائرا پنے سیالکوٹ والے گھر کی یادیں زندگی بھر نہ بھلا سکے۔ ٹرنک بازار سیالکوٹ کا ’’بھولا‘‘ کلدیپ نائر اپنے گھر سے ملحقہ ایک مرحوم مسلمان پیر کی برکات اور مہربانیوں کا ہمیشہ قائل رہا بقول ان کے ہر مشکل وقت میں یہ پیر میری مدد کرتے رہے۔

کلدیپ نائر کی کتاب BEYOND THE LINES برصغیر کی خفیہ تاریخ کو کھول کر رکھ دیتی ہے کلدیپ نائر نے تاشقند معاہدہ ،شملہ معاہدہ ، ہندوستان کی تقسیم، نہرو اور لیڈی مائونٹ بیٹن کا تعلق۔ شاستری کی تاشقند میں موت سمیت ہر سر بستہ راز کو یوں آشکار کیا جیسے کسی عظیم صحافی کا حق ہوتا ہے۔نہرو اور لیڈی ماونٹ بیٹن کے تعلقا ت کے متعلق ان کی کھوج یہ کہتی ہےاپنے دوست لارڈ مائونٹ بیٹن کو دھوکہ نہیں دے سکتے تھے۔ یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ نہرو اور لیڈی مائونٹ بیٹن ہر روز ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے جو ائیر انڈیا کی فلائٹ کے ذریعے ارسال کئے جاتے تھے۔ خط میں ایک دن کی تاخیر ہو جاتی تو نہرو باقاعدہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے۔ معاہدہ تاشقند کے حوالے سے بھٹو جس خفیہ معاہدےیاشق کی بات کرتے تھے وہ کلدیپ نائر نے بھارتی فارن آفس کی فائلوں سے نکا ل کر اپنی کتاب میں شائع کر دی۔ یہ دراصل صدر ایوب خان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ الفاظ تھے’’بغیر طاقت کے استعمال کے ‘‘ جو کہ پہلے سے ٹائپ شدہ معاہدے میں بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے کہنے پر شامل کئے گئے تھے۔کلدیپ نائر نے انکشاف کیا کہ جب شاستری نے اپنی بیوی کوتاشقند سے دہلی فون کیا تو اس نے معاہدے پر دستخط کرنے کے حوالے سے منفی رد عمل کا اظہار کیا اور شاستری جی کو یہ بھی بتا دیا کہ بھارت میں لوگ بہت ناراض ہیں بس اسی دبائو سے شاستری کا ہارٹ فیل ہو گیا اور وہ تاشقند میں ہی وفات پا گئے۔ کلدیپ نائر نے اپنی کتاب میں اس بات کا اشارہ بھی دیا گیاکہ شاستری کو روسی خفیہ ایجنسی نے زہر دیا تاکہ روس نواز اندرا گاندھی کو بھارت میں بر سر اقتدار لایا جائے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے کلدیپ نائر نے انکشاف کیا کہ یحییٰ خان اور شیخ مجیب میں یہ طے ہو گیا تھا کہ مغربی پاکستان اسمبلی اور مشرقی پاکستان اسمبلی کی بنیاد پر دو کمیٹیاں بنائی جائیں جو الگ الگ آئینی مسودے تیار کر یں ذوالفقار علی بھٹو اسے پاکستان کی تقسیم سمجھتے ہوئے، ماننے پر تیار نہ ہوئے۔

اسی طرح کلدیپ نائر نے شملہ معاہدہ کے حوالے سے بھی یہ راز ظاہر کیا کہ آخری وقت ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے قلم سے مسودے میں اضافہ کیا مسودے میں تحریر تھا کہ دونوں ملکوں کی افواج 16دسمبر 1971 کی پوزیشنز پر لائن آف کنٹرول پر چلی جائیں گی بھٹو صاحب نے قلم سے اضافہ کیا’’بغیر اس موقف کو تبدیل کئے جو دونوں ملکوں کا پہلے سے طے شدہ موقف ہے‘‘ ظاہر ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر پر اپنا موقف رکھنے کا حق شملہ معاہدے کے بعد بھی حاصل رہے گا۔

کلدیپ نائر نے جنرل ضیاء کے طیارے کے حادثے کے حوالے سے اپنی کتاب میں خیال ظاہر کیا ہے کہ اس طیارے کی تباہی میں امریکہ کا ہاتھ تھا اور یہ بھی لکھا ہے کہ طیارے کی تباہی کے فوراً بعد ایک پاکستانی افسر بھارتی حدود میں داخل ہوا اور پھر امریکہ پرواز کر گیا۔ وہ افسر کون تھا اس کا کلدیپ نائر بھی پتہ نہیں چلا سکے۔

اپنے صحافیانہ تجسس کی وجہ سے کلدیپ نائر نے بہت سے سربستہ رازخفیہ فائلوں سے نکال کر لوگوں کے سامنے رکھ دئیے ایک روز مجھے بھارت سے کلدیپ نائر کی کال موصول ہوئی انہوں نے مجھے کہا کہ نواز شریف پر آپ کی کتاب غدار کون؟ کا ہندی ترجمہ بھارت میں شائع ہونا چاہئے اور پھر ساتھ ہی فون ایک پبلشر کے ہاتھ میں تھما دیا۔

چند ہی دنوں میں اس کتاب کا ہندی ایڈیشن تیار ہو کر بھارت میں پھیل گیا دہلی میں کتاب کی تقریب رونمائی میں مجھے بھی مدعو کیا گیا مگر میرے چچا ارشد محمود وڑائچ مرحوم نے مجھےوہاں جانے سے منع کر دیا اور یوں کلدیپ نائر کی صدارت میں میری عدم موجودگی کے باوجود بھرپور تقریب رونمائی ہوئی۔

بعد میں کلدیپ نائر پاکستان آئے تو ان سے ملاقات ہوئی انکا ایک تاریخی انٹرویو بھی کیا ۔ آخری بار وہ لاہور آئے تو ان کی کتاب BEYOND THE LINES کی تقریب رونمائی کا لاہور اور گوجرانوالہ میں اہتمام کیا گیا کلدیپ نائر نے مجھے خاص طور پر کہہ کر بلایا اور جب میں نے کتاب کے چیدہ چیدہ تاریخی واقعات اور ان کی صحافتی فتوحات کا ذکر کیا تو بہت ہی خوش ہوئے ۔ تقریب کے بعد بہت دیر تک گپ شپ کرتے رہے اور کہا کہ جس طرح آپ نے میری کتاب کو کھنگالا ہےایسا شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ کلدیپ نائر اب ہم میں نہیں رہے لیکن وہ اس خطے میں صحافت کی شان تھے۔ جنہوں نے بڑے بڑے راز قارئین کے سامنے فاش کر دئیے برصغیر میں ایسا اور کون صحافی ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین