• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکر الحمد للہ! ن لیگی تیسری حکومت کے انتہائی منفی رویے سے اجڑی ہماری وزارت خارجہ نومنتخب عمران حکومت کے قیام کے پہلے ہی ہفتے میں پانچ سال کے بعد بحال ہوتے ہی سرگرم ہوگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان، سفارتی ابلاغ کے لئے مکمل موضوع اور متوازن سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو وزارت ِخارجہ سونپ کر، تیسرے ہی روز خود بھی دفتر وزارتِ خارجہ پہنچ گئے۔ سینئر سفارتی عملے اور دوسرے افسران سے تفصیلی ملاقات کی۔ ان سے وزارت کے تنظیمی ڈھانچے پر تفصیلی بریفنگ لی۔ انہیں اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات سے آگاہ کیا۔ ضروری ہدایات دیں۔یوں نواز شریف دور میں مجرمانہ حد تک حکومتی غفلت کی شکارحساس وزارت کو عملاً بحال کردیا گیا۔ واضح رہے کہ’’آئین نو‘‘ میں سابقہ نواز حکومت میں خارجی امور سے متعلق نئی قومی ترجیحات و ضروریات کی نشاندہی کرتے ہوئے ناصرف یہ کہ دانستہ جامد کی گئی وزارت کی بحالی پر تواتر سے زور دیا گیا بلکہ خطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کے پیش نظر اس کی پیشہ ورانہ سکت میں دوگنا اضافے پر بھی۔

گزشتہ روز وزیراعظم کی وزارت خارجہ کے دفتر میں آمد کے ساتھ ہی اس کی بحالی کا فوری فالو اپ یوں بھی ہوا کہ جناب عمران خان کی روانگی کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے قوم کو آئندہ چند روز میں ہونے والی اہم سرگرمیوں کی اطلاع دی۔ اس سے پاکستا ن میں تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی پاکستان کی بدستور موجود اور ظہور پذیر علاقائی اور عالمی اہمیت اجاگر ہوئی اور پاکستانی قوم کا مورال بڑھا۔ اس طرح پاکستان دشمنوں کے اس پروپیگنڈے کے اثرات زائل ہوئے جس میں شور مچایا گیا کہ پاکستان عالمی برادری میں تنہا ہو رہا ہے۔

عمران حکومت بنتے ہی، بین الاقوامی تعلقات میں پاکستان کی اہمیت کا گراف یکدم کتنا اوپرگیا، اس کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ ہمسایہ بھارت میں جہاں ہماری انتخابی مہم کے دوران بھارتی حکمران جماعت کے رہنما، میڈیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے شدت پسندوں کی جانب سے آئوٹ آف دی وے خود ہی فریق بن کر نومنتخب پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے خلاف بھارت مخالف ہونے کا زوردارپروپیگنڈہ کیاگیا۔ تاہم ان کےاقتدارمیں آنے کے امکانات واضح ہوتے ہی وزیراعظم مودی اور وزیر خارجہ سشماسوراج کی جانب سے امن مذاکرات کی خواہش کے واضح اشارے آنے لگے جو اب رسمی سفارتی شکل اختیار کررہے ہیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ عمران خان کی فتح کی تقریر نے دنیاپر واضح کردیا کہ پاکستان اپنے خارجی امور میں سرگرم ہونے والا ہے اور وہ بھی ’’مذاکرات برائے امن‘‘ کے حوالے سے اور مسئلہ کشمیر کو قومی موقف کے مطابق اہمیت دیتے ہوئے جبکہ صورتحال بھی اتنی سازگار کہ مقبوضہ کشمیر میں خالصتاً مقامی تحریک آزادی کےگراف میںمسلسل اضافے اور اس کے لاکھوں فوجیوں سے بے قابو ہونے کے باعث بھارتی سرکار اور نیتا دونوں نفسیاتی شکست سے دوچار ہیں۔

دوسری جانب عمران خان نے اپنی وکٹری اسپیچ میں واضح کردیاکہ بھارتیوں نے ہماری انتخابی مہم میں جس طرح مجھے بالی ووڈ کی روایتی فلموں کا ولن بناکر پیش کیا، میں وہ نہیں، میری خواہش اور نظر دونوںملکوں کے عوام اور پورے علاقائی استحکام پر ہے کہ برصغیر میں غربت و افلاس ختم ہونا چاہئے جس کاراستہ صرف پرامن مذاکرات ہیںاوریہ کہ اگر بھارت اس جانب ایک قدم بڑھائے گاتو ہم دو بڑھائیں گے۔ اسی کا سفارتی ثمر ہے کہ دنیا بھرکے اہم ممالک کی حکومتوں کی طرف سے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ مل کر امن کے لئے کام کرنے کی خواہش کااظہار کیا جارہاہے۔

سو، وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی نے وزیر خارجہ کا منصب سنبھالتے ہی قوم کو مطلع کیا کہ ستمبر کے پہلے عشرے میں امریکی، چینی، جاپانی اور ایرانی وزرا ئے خارجہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اسلام آباد کی جانب سے اتنی تیز تر سفارتی سرگرمیاں (معمول کے حالات میں) شاید ہماری سفارتی تاریخ کا ریکارڈ ہو، جو پوری پاکستانی قوم اورہماری نئی منتخب حکومت، پورے خطے اور دنیا کے امن پسندوں کے لئے باعث حوصلہ و اطمینان ہے کہ پاکستان جس خطے نہیں بلکہ جن خطوں سارک، ایکو، سائوتھ ویسٹ ایشیا یا مشرق قریب (Near East) میں واقع ہے، اسے علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات میں تنہا نہیں کیاجاسکتا جبکہ امریکہ، چین، روس اور بھارت جیسے بڑے اہم ممالک کے دو طرفہ تعلقات بھی پاکستان سے ناگزیر ہیں۔ سو، امریکہ بھارت سے جتنے اور جیسے بھی تعلقات بڑھالے، جو اس نے بڑھا لئے ہیں،ایک مخصوص درجے پر اسے پاکستان سے تعلق قائم رکھنا ہی پڑے گا کہ واشنگٹن پاکستان کی حیثیت و اہمیت اور نئی علاقائی صف بندی میں اس کے امکانی کردار سے بخوبی واقف ہے۔ کاش! پاکستان کی نئی جیو اسٹریٹجیکل اورجیو اکنامک پوزیشن کے حوالے سے ہم گزشتہ پانچ سال میں کافی ہوم ورک کرکے اب تک کوئی پوزیشن لے چکے ہوتے، لیکن ہماری وزارت ِ خارجہ کو تو جیسے وزیر خارجہ سے محروم کرکے جامد کردیاگیا تھا، بہرحال دیر آیددرست آید۔

جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، اس نے ہمیں ایک ڈگری پر تو انگیج رکھناہے۔ اُتنی پر ہی ہم نے رکھناہے بس جیسے اس نے رکھناہے ویسے ہی ہم نے رکھنا ہے۔ امریکہ اور بھارت کے حوالے سے پاکستان کے تعلقات پر پاکستانی نئی قیادت کی اپروچ میں کوئی ابہام نہیں۔ یہ بقائے باہمی کی بنیاد پردونوں کے جائزقومی مفادات کو تسلیم کرنا اور اس کے مطابق رشتے استوار کرنے پرہے۔ بلاشبہ پاکستان کو اپنے دم توڑتے اسٹیٹس کو کے حوالے سے بہت سی پیچیدگیوں اور مشکلات کاسامنا ہے، لیکن اب اس کا ازالہ پاکستانی حکومت اورقوم جمہوری عمل کی طاقت، بنیادی حقوق کی حفاظت و احترام اور اپنی نظریاتی بنیاد پرقائم رہتے ہوئے کرے گی، جس میں پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انٹرنیشنلزم کا ایک بڑا پلیئر ہوگا اور قیام عالمی امن اور بین التہذیبی ہم آہنگی کو پروموٹ کرنے میں اپنے قائد عمران خان کی قیادت میں اہم کردار اداکرے گا، جس کاآغاز ان کی حکومت بنتے ہی ہو گیاہے۔ ان کی یہ تازہ اپروچ کتنی اہم ہے کہ اب ’’ہم قیام امن کی کوششوں کے اتحادی ہوںگے نہ کہ جنگوں کے‘‘

بلاشبہ آج پاکستان جس سنگین اقتصادی بحران کا شکارہے، وہ بظاہر اتنا ہی تشویشناک ہے جتنایقینی پاکستان کا تابناک مستقبل۔ یقینی یوں کہ ہم اس کی طرف ابتدائی قدم بڑھا چکے، اپنی داخلی اصلاح سے۔ یہ ہی وہ حکمت ہے جس سے پاکستان بیرونی دنیامیں عزت و مقام بھی پائے گااور برابری کی بنیاد پر ہم باہمی خوشحالی و امن واستحکام کے حوالے سے خارجی تعلقات کے اہداف بھی حاصل کریں گے۔ ہم نے اپنے بگڑے ملک میں آئین و قانون کی بالادستی، پھر اس کے ذریعے حقیقی جمہوریت اور جمہوری عمل کے ساتھ ٹاپ ٹو ڈائون احتسابی عمل کو نتیجہ خیز بنا کر پہلا مشکل مرحلہ طے کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ دنیا یہ سب جان رہی ہےاور جانتی جائے گی۔

باہمی مفادات اور دوست ملکوںکے پرخلوص اورقابل اعتماد رشتوں کی بنیاد پر ممکنہ بیل آئوٹ اقتصادی پیکیج کی تلاش اور اس کی حکمت عملی تیار کرنا تو اب اسد عمر جیسے ماہرین کاکام ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وزیراعظم اس حوالے سے کہاں تک جائیں گے اور کہاں لائن کھینچ دیں گے۔ اصل راہ اپنے پوٹیشنل کی نشاندہی، اسے منظم کرنا، مربوط کرنا، اس پر ادارہ سازی اورقانون سازی کرنااسے حاصل کرکےبہترین استعمال میں لانا، کم خرچ بالانشین، قوم کو بلند درجے پر موبلائز کرنا، رضاکارانہ سپرٹ پیداکرنا،مشکلات سہنااور ساتھ ساتھ ختم کرنا، خوداحتسابی اور حاکموںکا احتساب۔ جن سے لوٹامال نکل سکتا ہے، کتنا نکل سکتاہے؟کیسے نکل سکتا ہے؟ ایسے سوالوں کے درست جواب تک رسائی ۔ یہ وہ راہ ہے جو مشکل ہے اورخارجہ تعلقات سے بھی بہت جڑی ہے۔ لیکن پاکستان نے ہی اپنے جغرافیائی حدود سے باہر کے مفادات کے حصول کو اپنے استحکام و خوشحالی کے لئے ممکن نہیں بنانا،کتنے ہی ہیں جنہوں نے اپنی جغرافیائی سرحدوں سے باہر اپنے قومی مفادات، جو پاکستان میں ہیں اور پاکستان کی مدد سے مل سکتے ہیں کو سمجھناہے، اور ہم نے سمجھاناہے، پھر باہمی تعاون سے حاصل کرنے ہیں اور انہیں لانے میں مدد کرنی ہے۔ تازہ دم پاکستانی وزارت ِ خارجہ نےاس سب کی تیاری کرنی ہے۔ اطمینان ہے کہ پہلے قدم ہم نے اس کٹھن لیکن ثمرآور سفرکی طرف اٹھا دیئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین