• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برس ہا برس سےپاکستانی قوم روایتی وزرائے اعظم کی روایتی باتیں سن رہے تھے ۔ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف تک ہر وزیراعظم نے قوم کو خوش کرنے کے لئے جھوٹی سچی داستانیں سنائیں۔ہر ایک نے کہا کہ اب میں آ گیا ہوں۔دیکھنا اگلے دو برسوں میں اس ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دوں گا۔جب اقتدار کےتین برس گزر جاتے تو آہستہ آہستہ یہ کہنا شروع ہو جاتے کہ بس اگلے پانچ برس میں ہم یہ تبدیلی لے آئیں گے۔پچھلی حکومتوں نے بڑی تباہی مچا دی تھی ۔ان مسائل کو حل کرنے میں بڑا وقت لگے گا۔جبکہ ہر حکومت پچھلی حکومت سے بھی زیادہ قرضہ بڑھا کر چلی جاتی ہے۔ 2017ء میں قوم پر قرضہ 60ارب ڈالر تھاجو اب 95ارب ڈالر ہو چکا ہے۔2013ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پھر ن لیگ کی حکومت آ گئی اسحاق ڈارنے اس ملک کی معیشت کو تباہ وبرباد کر دیاہر مرتبہ حکمرانوں نے سبز باغ دکھائے تاکہ لوگ پھر بیوقوف بن کر انہیں مزید پانچ برس کے لئے منتخب کر لیں اقتدار میں آکر جس سیاست دان نے بھی کاروبار کیا اس کو کبھی نقصان نہیں ہوا۔آج تک کوئی سیاست دان اپنے ماضی سے زیادہ غریب ہوا ۔اسحاق ڈار کو دیکھ لیں غربت سے سفر کرنے والا آج اربوں کی جائیداد کا مالک ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اندرون شہر کے دو دو مرلے کے مکان سے اسٹوڈنٹس سیاست میں حصہ لینا شروع کرتے ہیں اور پھر اربوں روپے کی جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ وہ گلیوں کی سیاست کو بخوبی سمجھتے ہیں ۔بے شک وہ محلوں اور گلیوں کی سیاست کو بخوبی سمجھتے ہیں۔تبھی تو سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بنا کر ووٹ لیکر اقتدار میں آجاتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو۔اور ووٹر کو جوتیاں مارو ۔جو لوگ عمران خان کی کردار کشی کر رہے ہیںانہیں سوچنا چاہئے ۔کیاباقی سیاسی جماعتوں میں سارے صوفی بیٹھے ہیں؟ مسلم لیگ ن میںبھی ایسے افراد ہیں جن پر بے شمار تحفظات ہیں شادیاں تو چھوٹے میاں صاحب بھی اکثر کرتے رہتے ہیں پھر صرف عمران خاں پر اعتراض کیوں؟ایسے ایسے کالم نگار موجود ہیں جنہیں جھوٹ بولتے ذرا شرم نہیں آتی اور وہ قسمیں کھا کر ان سیاست دانوں کی پاک دامنی بیان کرتے ہیں۔جو انتہائی کرپٹ ہیں کبھی کسی صحافی نے سوچاتھا کہ وہ اربوں روپے کی جائیدادیں خرید سکیںگے؟ ہم جانتے ہیں کہ کن کالم نگاروں کی کتنی کتنی جائیداد ہے اور کہاں کہاں وہ سرمایہ کاری کرتے رہتے ہیں۔ صحافت میں اگر لوگ اچھے اور ایماندار ہوتے تو آج ملک کا نقشہ ہی اور ہوتا۔کاش صحافیوں کا بھی آڈٹ ہو جائے عمران خاں نے وزیر اعظم بننے کے بعد جو خطاب کیا ہے وہ آج ہر اس محب وطن پاکستانی کی آواز ہے جو اس ملک اور یہاں کے عوام سے محبت کرتا ہے ان مسائل پر بات کی۔جس پر کبھی کسی وزیر اعظم نے بات نہ کی کتنی بدقسمتی نواز شریف کی ہے کہ انہوں نے اپنے تین مرتبہ نامکمل اقتدار کے عرصے میں جو تقاریر کیں ان میں کوئی وعدہ پورا نہ کیا۔

ملک کے 45فیصد بچے Stantedہیں یعنی شدید غذائی کمی کا شکار ہیں عمران خاں نے بالکل درست کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان5ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر بچوں کو پوری خوراک نہیں ملتی۔آج تک کسی وزیر اعظم نے بچوں کے بارے میں بات نہیں کی اور عمران خاں نے اپنی تقریر میں باقاعدہ دو ایکسرے فلمیں دکھائیں جو دو سال کے بچوں کے دماغ کی تھیں ایک وہ بچہ جس کو مکمل خوراک مل رہی تھی اور دوسرا جو غذائی کمی کاشکار تھا دونوں کے دماغ میں واضح فرق تھا جن بچوں کو خوراک نہیں ملتی ان کے قد، جسمانی نشوونما اور دماغ نہیں بڑھتا ،پاکستان میں 45فیصد بچے اس طرح کےہیں آج تک کسی وزیر صحت اور وزیر اعظم نے اس پر بات نہیں کی ظاہر ہے جو بچے دماغی اور جسمانی طور پر کمزور ہوں گے انہیں بڑے ہو کر بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہو گی اور پھر وہ ایسے ہی کرپٹ، دھوکہ باز اور چور سیاست دانوں کو ووٹ دیں گے کیونکہ ان کا آئی کیو لیول ہوتا ہی نہیں ۔

عزیز قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ گزشتہ برس امریکہ سے آئی ہوئی بچوں کی ڈاکٹر عائشہ نجیب نے پنجاب کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے اس وقت کے ن لیگ کے حکمرانوں کو بتایا کہ پاکستان میں Stantedبچے بہت پیدا ہو رہے ہیں مگر ہمارے سابق حکمرانوں کو شادیوں اور کرپشن سے فرصت ہی نہیں تھی ۔عوام اورنج ٹرین اور میٹرو ٹرین کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں مگر پانی اور صحت مند غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔مگر چھوٹے میاں صاحب کو صرف اورنج ٹرین سے پیار تھا اس کے پیچھے اربوں روپے برباد کر دیئے پھر پی کے ایل آئی پر 20ارب بغیر کسی منصوبہ بندی کے ضائع کر دیئے جس کی فرانزک رپورٹ میں 6ارب روپے کا گھپلا سامنے آ گیا ہے ابھی تو بہت کچھ سامنے آنا ہے صرف دوافسر سلطانی گواہ بن گئے اس دن سچائی کے دعویدار بے نقاب ہو جائیں گے ہمیں تو اس وقت حیرت ہوئی جبکہ عمران خاں کی قومی اسمبلی میں ووٹنگ اور کامیابی کے بعد چھوٹے میاں صاحب جس طرح اچھل اچھل کر باتیں کر رہے تھے تو ہمیں ایم اے او کالج کے وہ اسٹوڈنٹس یاد آ گئے جو الیکشن ہارنے کے بعد عجیب وغریب حرکتوں پر اتر آتے تھے کم ازکم ہم شہباز شریف جیسے سوبر انسان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کاش ہمارے سیاست دان بردبار اور سمجھ دار ہو جائیں۔

اگر ہم نے بچوں اور حاملہ مائوں کی خوراک پر توجہ نہ دی تو آنے والے تیس برسوں میں پاکستان کے 50فیصد بچے Stantedہو جائیں گے۔یعنی آنے والے تیس برسوں میں پاکستان کی آبادی میں 50فیصد لوگ ایسے ہوں گے جن کے قد چھوٹے، جسم لاغراور دماغ نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی پھر ن لیگ کے مزے ہی مزے سارے ووٹ انہیں ملیں گے۔اور ان بچوں کا قد عمر کے حساب سے نہیں بڑھتا آج کل بھی آپ کو خصوصاً کراچی میں ہزاروں بچے ایسے نظر آئیں گے جو مائیںیہ بچے جنم دے رہی ہیں وہ خودشدید غذائی کمی کا شکار ہیں ۔ہم عمران خاں اور پنجاب کی نامزد وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد(جو کہ خود بھی گائناکالوجسٹ ہیں) سے کہیں گے کہ مائوں کی خوراک پر توجہ دینے کے لئے اقدامات کریں۔اسکولوں میں کیفے ٹیریا سے گندی خوراک کی بجائے دودھ، دہی اور صحت مند غذا شروع کرائیں ۔ لاہور میں یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز میں بریک ٹائم میں کوئی کولا نہیں ملتا بلکہ یونیورسٹی کی اپنی آسٹریلوی بھینسوں اور گائے کا خالص دودھ شیشے کی بوتلوں میں ملتا ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ یونیورسٹی آف ویٹرنری اور اینیمل سائنسز کے ساتھ کوئی معاہدہ کرکے ان سے خالص دودھ اور مکھن حاصل کرے۔عمران خان نے اپنی تقریرمیں وزیر اعظم ہائوس کو ریسرچ یونیورسٹی بنانے اور وزیر اعظم ہائوس میں 529ملازمین کو کم کرنے کی بات کرکے ایک اچھا اعلان کیا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان گورنر ہائوسز کو فوری طور پر تعلیمی اداروں اور بہترین اسپتالوں میں منتقل کردیں کیونکہ عمران خان نے دعوے تو بہت کر دیئے ہیں اور ن لیگ کے پیٹ میں مروڑ بھی بہت اٹھ رہے ہیں جو کام تیس سال میں ن لیگ والے نہیں کر سکےاب وہ عمران خاں سے راتوں رات کرنے کے خواہش مند ہیںاحسن اقبال روزانہ ہی بے تکے بیان جاری کر رہے ہیں ن لیگ کو چاہئے کہ تھوڑا سا اپنے گریبان میں جھانکےاور دیکھے کہ انہوں نے اتنے طویل عرصہ میں کیا کیا! صرف اورنج ٹرین، میٹرو بس اور پی کے ایل آئی پر اربوں روپے ضائع کرڈالے ۔

پنجاب میں اسپتالوں اور پولیس کا نظام درست کرنے کی اشد ضرورت ہے شہباز شریف اپنے دور میں صرف تھانہ کلچر کا راگ درباری الاپتے رہے عملاً انہوں نے کچھ نہیں کیا۔آج بھی تھانوں میں وہ لوگ ذلیل وخوار ہو رہے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں۔امید ہے ناصر درانی یہاں آکر کچھ اصلاحات ضرور کریں گے۔

عمران خان نے بیرون ممالک علاج پر پابندی لگا کر ایک اچھا قدم اٹھایا ہے آج کل فیس بک اور ٹویٹر پر فضول قسم کی بحث چھڑی ہوئی ہے کوئی کہتا ہے نواز شریف وزیراعظم ہائوس کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا دل نہیںمانتانواز شریف اپنی جیب سے وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات ادا کرتے ہوں اور وہ اس کا پوری طرح ڈھنڈورا نہ پیٹتے ہوں دل نہیں مانتا سوال یہ ہے اگر چھوٹے میاں صاحب نے اپنے دور میں مضبوط بنیادوں پر کسی بھی محکمے کا سسٹم بنایا ہوتا تو ان کے جانے کے بعد بھی چلتا رہتا اور یہ کہنا ہے کہ چھوٹے میاں صاحب تھے تو سب ٹھیک چل رہا تھا کل کو چھوٹے میاں صاحب نہیں ہو ںگے تو کیا سارے محکمے کام کرنا بند کر دیں گے چھوٹے میاں صاحب سسٹم بنا کر نہیں سسٹم بگاڑ کر گئے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین