• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم نے نئے وزیراعظم عمران خان کی تین تقریریں سنیں۔کچھ نے کہا کہ بہت اچھی تقاریر ہیں، کچھ نے کہا ایسے وعدوں سے ہر نئے آنے والے حکمران پاکستانی قوم کو بہلاتے رہے ہیں اور ان کے مخالفین اُن میں کیڑے نکالنے میں لگ گئے ہیں ۔خصوصاً وہ تمام سیاسی خاندان جو اس الیکشن 2018ء میں پہلی مرتبہ شکست کھاچکے ہیں ،باہر سے اسمبلیوں میں ہلچل مچاکر حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے ۔پہلی تقریر بہت سلجھی زبان میں تھی ہر کسی نے سراہا ۔خصوصاً وزیراعظم ہائوس اور گورنرہائوسز میں نہ رہنے کا اعلان۔ دوسری تقریر جو انہوں نے اسمبلی کے فلور پر کی وہ یقیناََ مسلم لیگ (ن)کے اراکین کے شوروغل مچانے کا ردِعمل تھی۔ جس کی وضاحت تفصیل سے ان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کردی کہ شہباز شریف نے یقین دہانی کروائی تھی کہ کچھ دیر ان کے ممبران احتجاج کرکے تقریر خاموشی سے سنیں گے۔ مگر ماضی کی طرح ان کے نادان ممبران نے اپنی روش نہیں بدلی اور پوری تقریر میں ہڑبونگ مچاکر غیر سیاسی طرزعمل کا مظاہرہ کیا اور عوام نے بھی اُس کا برامنایا۔ اسی وجہ سے عمران خان بھی اکھڑے رہے اور احتساب احتساب کا وعدہ قوم اور اللہ سے کرتے رہے ۔تیسری تقریر دراصل ان کے پروگرام کا حصہ تھی جو اصلاحات وہ آنے والے دنوں میں شروع کرنا چاہتے تھے وہ 30بتیس نکات تھے۔ کھل کر تفصیل بتانے میں لگ گئے ۔خاص طور پر وہ وعدے جو وہ گاہے بگاہے 22سالوں میں مختلف مواقعوں پر قوم سے کرتے رہےہیں ،مختلف انٹرویوز ،میڈیا پر، یا جلسے جلوسوں میں ۔گزشتہ کالم میں بھی راقم نے ان کو یاد دلایا تھا کہ وہ ایسے ساتھیوں کو جو ان کے ووٹوں کی کمی پورا کرنے کے لئے دوسری جماعتوں سے ہاتھ ملانے والے جن کاماضی داغدار رہاہے۔جن پر نیب کے مقدمات ہیں، کیسے صفائیاں قوم کے سامنے رکھیں گے اور پھر جب انہوں نے پہلی وزراء کی کھیپ کا اعلان کیاتو اُس میں صرف 2 وزراء ان کی پارٹی کے بنیادی کارکنوں میں سے تھے، بقایا مسلم لیگ (ن) ،مسلم لیگ (ق)،پی پی پی اور پرویز مشرف کی ٹیم کا حصہ رہے تھے ۔کہاں گئے وہ نوجوان کارکن جنہوں نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور 22سال بعد انہی کی کوششوں سے وہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ان میں وہ وزراء بھی شامل ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہی نہیں نیب میں مقدمات بھی چل رہے ہیں ۔یہ ان کی وعدوں کی مکمل نفی ہوتی ہے، ایسے وزراء کیسے اپنی پرانی برائیاں چھوڑیں گے اور عوام کی توقعات پر پورا اترسکیں گے ۔

جب ٹیم ہی پرانی اور اُس کی اکثریت امین اور صادق نہیں ہوگی تو کیسے عوام کو تسلی ہوگی ۔پہلی سنگین غلطی چنائو میں ہو چکی ہے اور ناکام عاشقوں کی جماعت اکٹھی کردی گئی ہے اس لئے ان سے اچھی کارکردگی کی توقع کرنا عقلمندی نہیں ہوسکتی۔ بے شک وزیراعظم ہائوس کے 532 ملازمین میں سے صرف 2ملازمین 2گاڑیاں اور 3 کمروں پر مشتمل ملٹری سیکرٹری کے مکان میں رہائش قابل ِتعریف کام ہیں ۔سالانہ اس سے 95کروڑ کی بچت ہوگی اور اربوںروپوں کی گاڑیوں کی نیلامی سے بھی قومی خزانے میںرقم جائے گی، مگرکیا آپ کے باقی وزراء بھی ایسی سادگی اپنائیںگے؟ ۔جو 30بتیس نکات آپ نے پیش کئےہیں یہ ناممکن ہیں ۔

آپ کے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہے۔قوم ابھی تک پرانی طرززندگی گزارتی رہی ہے ،آپ کے وزراء کیسے اپنی عیاشیاں چھوڑیں گے ۔صرف چند دن خاموشی سے گزاریں گے ،پھر آہستہ آہستہ اپنی پرانے روش کی طرف لوٹ جائیں گے ۔دوسری بڑی غلطی پنجاب کے چیف منسٹر کا چنائو اور اُس کی وضاحت ،میڈیا تو میڈیا خود آپ کی پارٹی والوں کو بھی ہضم نہیں ہورہی ہے ۔جو شخص 10سال کونسلر اور ایم پی اے ہونے کے باوجود اپنے گائوں میں بجلی نہیں لگوا سکا وہ دوتہائی پاکستان میں کیسے کام کرواسکے گا ۔جہاں منہ زور ،بے لگام بیوروکریٹس اور پولیس کا راج رہا ہو۔اُن کو 24گھنٹوں میں 20گھنٹے کام لینے والا 10برس میں اُن کو نہیں سدھار سکا، شہباز شریف جس کا نام تھا ۔اُس کو معصوم بے نام سردار کیسے سنبھالے گا اور وہ پھر کیسے اپنے وزراء کاچنائوکرے گا ،جس کو خود کوئی تجربہ نہیں ہے اُس کو بہکانا معمولی کام ہوگا۔ لگتا ہے کسی کے خصوصی دبائو میں آکر یا خصوصی سفارش آپ کو مجبور کررہی ہے ،جسے آپ کو ٹالنا ناممکن تھا۔یادرکھیں آپ سے قوم کی بہت سی امیدیں وابستہ ہوچکی ہیں اور دوسری طرف مخالفوں کی توپیں بھی آپ کی طرف رُخ کرچکی ہیں جس سے نمٹنا اتنا آسان نہیں ہے۔

آپ نے اپنی تقریر میں جنوبی پنجاب صوبے کا ذکر کیا مگر کراچی والوں کی دیرینہ خواہش کوٹہ سسٹم جو بھٹو صاحب نے صرف 10سال کے لئے نافذ کیا تھا اور پورے پاکستان میں کسی دوسرے صوبے میں نافذ نہیں ہے ۔آج 50سال سے نافذالعمل ہے اُس کے خاتمے کا اعلان کیوں نہیں کیا گیا، جبکہ آ پ خود میرٹ کی بات کرتے ہیں تو کہاں گیا سند ھ میں میرٹ کا نفاذ؟کراچی کا آپ نے ذکر ضرور کیا مگر کراچی کی آبادی کو آدھی دکھاکر وہاں کی سیٹیں چھینیں اُس کا بھی مداوا ہونا چاہئے تھا۔سمندر سے فائدہ اُٹھاکر ہم معیشت بہتر کرسکتے ہیں ۔آپ نے بیرون ممالک میں پاکستانیوں کی عظمت کو سلام کیا اور جیلوں میں ان کی رہائی کا وعدہ تو کیا مگر امریکہ میں ایک پاکستانی بیٹی عافیہ صدیقی جس کا آپ پہلے وعدہ کرچکے ہیں، ذکر تک نہیں کیا اور وہ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی جو بنگلہ دیش میں محصور ہیں 1971ء سے 2018آج 48سال ہوچکے ہیں انہیں کیوں نہیں لایا جاتا ۔جبکہ لاکھوں افغانی ،بنگالی ،برمی ہمارے ملک میں غیر قانونی نقل مکانی کرچکے ہیں ان کو واپس ان کے ملکوں میں بھیجا جائے تاکہ یہ اسلحہ اور منشیات کا کاروبار بند ہوسکے ۔

آپ نے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، بہت اچھی ابتدا کی ہے اب بھارت کو بھی چاہئےکہ وہ اس خیر سگالی کا جواب مثبت تبدیلی سے دے ۔ہم کو لاہور بارڈر سے شام کو جھنڈا اتارنے والی رسم میں مثبت تبدیلی لانی چاہئےاور نفرت کی فضا کو ختم کرکے پیار ومحبت والے پڑوسیوں کا طرزعمل اپنانا چاہئے ۔دشمنی سے دونوں ملکوں کا اربوں،کھربوں ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے وہ باب اب بند ہونا ضروری ہے۔ تب عوام محسوس کریں گے کہ تبدیلی آگئی ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین