• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں شہباز شریف کہتے ہیں: غربت، جہالت کے خلاف کامیابی اقبال، رومی، اور گولن کے فلسفے سے ممکن ہے۔
اگر فلسفہ روٹی ہوتا تو یہاں کوئی غربت نہ ہوتی، مگر ذہنی تعیش کا کھاجا فلسفہ ہے، جو ایک خوشحالی شخص کو لان میں واکنگ چیئر پر غم غلط کرنے کے کام آ سکتا ہے، کوئی فلسفہ نہیں، کوئی فکری گورکھ دھندا نہیں بس رسول اللہ (ﷺ) کی ایک سادہ سی بات ہے کہ ”محرومیاں کہیں کفر تک نہ لے جائیں“ اگر حکمران بروقت اس سادہ سی بات یعنی حدیث محمد (ﷺ) پر ہی عمل کر لیں تو یہ فلسفیوں کی دکان پر جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ شہباز شریف بڑے باذوق طالب علم ہیں مگر وہ فلسفوں کو ملک فردوس بننے تک ملتوی رکھیں ابھی تو وہ یہ گیت سنتے جائیں
دل دیاں لگیاں جانے نہ میرا پیار پچھانے نہ
کملا نی میرا ڈھولن ماہی
ان کو عوام نے پنجاب سونپا تھا لکھ کر نہیں دیا تھا، انہوں نے ان پانچ برسوں میں اپنے کاموں کی ترجیحات ہی کو مدنظر نہ رکھا، مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی یہ تھے وہ ترجیحی درد جن کا مداوا وہ پہلے کرتے پھر چاہے سڑکیں اکھیڑتے یا اوور برج بناتے، یا وہ بھی یہ مسلک رکھتے ہیں
اودوں کی زندگی دا مزہ آؤندا اے
فاقے مستیاں تے جدوں رنگ آؤندا اے
یہ بعض لوگوں کا فلسفے کے جلسے لگانا بے وقت کی راگنی ہے، امریکہ نے پہلے اپنے لوگوں کو خوشحال کیا، پھر ستاروں پر کمند ڈالنے کی ٹھانی، فلسفے اور حکمتوں کے جمگھٹے لگائے، یہ تو کچھ ایسا سماں ہے کہ ذات دی ”پاکستانی حکمرانی“ تے شہتیراں نوں جپھے!
اب تو نئے انتخابات کی آمد آمد ہے، اور مسلم لیگ نون جامد جامد ہے
اس لئے محترم! ساز کی لے تیز کرو!

آصف زرداری نے کہا ہے: لیڈر وہ ہوتا ہے جسے عوام مانیں، پارلیمنٹ کا فیصلہ ہے۔
صدر کا مخصوص سیاسی کردار ہونا چاہئے، سب سے زیادہ تنقید برداشت کرنے والا آدمی ہوں۔ اگر عوام ایک بار مان کر پھر نہ مانیں تو اس کا کیا جواب ہو گا یہ تو عالی مرتبت صدر ہی بتا سکتے ہیں، لوگوں نے پانچ برس کے لئے اس لئے اپنا لیڈر مانا تھا کہ اب کم از کم ان کے برے دن کم برے دن ہو جائیں گے، مگر
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
باقی سیاست اور صدر کا رشتہ آئین کے مطابق کچھ سوتیلا سا ہو جاتا ہے، یا سیاست کی طلاق یافتہ خاتون کی حیثیت ہو جاتی ہے، کیونکہ صدر کسٹوڈین ہوتا ہے وہ بس دیکھے اور پٹڑی سے نہ اترنے دے، اپنی سیاست کو اگلے انتخابات پر اٹھا رکھے، لیکن پھر بھی ہم یہ کہتے کہ صدر سے سیاست چھین لینا بھی، چھینا جھپٹی ہے، صدر بہت صابر ہیں، مگر صبر ایوب سے ابھی کوسوں دور کیونکہ آن ریکارڈ انہوں نے ہر تنقید کا یہ جواب دیا کہ مجھ پر بہت تنقید ہوتی ہے مگر میں کچھ نہیں بولتا، حالانکہ آج کے بیان میں بھی ان کا جواب آں غزل پوری طرح موجود ہے، جبکہ ان کی اپنی تنقید کا یہ حال ہے کہ
موج کے دامن میں پھر اس کو چھپا دیتی ہے یہ
کتنی بیدردی سے نقش اپنا مٹا دیتی ہے یہ
پارلیمنٹ بلاشبہ ایک مرکزی کلیدی اور عوامی ادارہ ہے، لیکن اس کی زلفِ دراز آئین کی چٹان تلے دبی رہتی ہیں، اور قانون بھی آس پاس بطور گارڈ ڈیوٹی دیتا رہتا ہے، عوام نے زرداری کو لیڈر بنایا مانا، سہرے باندھے ڈھول بجائے، بھنگڑے ڈالے کہ لیڈر آ گیا اب ”مٹھے چول“ کھلائے گا، پھر عوام آگے آگے اور مشکلات زندگی پیچھے، اور حکمرانوں کی آنیوں جانیوں کا نتیجہ یہ نکلا
بھج بھج کے وکھیاں چور ہوئیاں
مڑ ویکھاں تے کھوتی بوڑھ تھلے

کوئٹہ میں 70 ہڑتالی ڈاکٹروں کو جیل بھیج دیا گیا مزید گیارہ گرفتار۔
ایک زمانہ تھا کہ ڈاکٹر حضرات ہسپتالوں کی رونق تھے اب انہوں نے سڑکوں پر اپنی بیماریوں کا کلینک بنا لیا ہے، اور ایک زمانہ تھا کہ نرسیں ڈاکٹروں بھرے ہسپتال میں کہتی تھیں
اس نے تپتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
مریض تب بھی رل رہے تھے، اب تو بیماریوں دکھوں دردوں پر ”ڈل“ رہے ہیں کہ جب عدالت نے ڈاکٹرز کے ہڑتال کو غیر قانونی قرار دے دیا تو پھر قانون کا احترام کیا ڈاکو لٹیرے کریں گے جن کا رزق ہی ڈاکوں رہزنیوں میں پوشیدہ ہے اور حکومت کے لئے یہ سب مناظر گویا نادیدہ ہیں، اس نادیدنی کا علاج کون کرے گا، کون بنے گا آئی سپیشلسٹ یا آئی اوپنر؟ کراچی کا مسئلہ اور بلوچستان کا مسئلہ حل ہو گا نہ ہڑتالی ڈاکٹروں کا، آخر حکومت کس چڑیا کا نام ہے، اسے کوئی بلی کیوں نہیں پڑتی کہ نہ سر رہے نہ درد، ڈاکٹروں کو بھی اپنے پیشے کی مخصوص نوعیت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کیا وہ دکھی انسانیت کو اذیت دینے کے لئے ڈاکٹر بنے تھے، ڈاکٹر بنتے وقت تو وہ بھی ان کے والدین بھی یہی کہتے تھے، یہ دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھیں گے، یوں اپنی تنخواہوں میں اضافے اور سروس سٹرکچر ٹھیک کرنے کے لئے تار کول کی سڑکوں سے اپنا منہ ”گورا“ نہیں بنائیں گے۔ حکومت جس صوبے کی ہو یا مرکز کی ذرا اپنی اداؤں پر غور ختم کرے اور ڈاکٹروں کے مسئلے کا کوئی حل نکالیں، البتہ ہڑتالی ڈاکٹر پسند کریں تو مریضوں کو زہر دیدیں تاکہ نہ ڈاکٹر کی ضرورت پڑے، نہ ہڑتال کی، ہڑتالی معالجوں کی خدمت میں خسرو کا ایک فارسی شعر پیش ہے ممکن ہے، وہ فارسی سمجھتے ہوں اور کام بن جائے سنیں مریضوں کی آہ
بلبم رسید جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس اذاں کہ من نہ مانم بچہ کارِ خواہی آمد
”میری جان لبوں پر آ گئی ہے تو جلد آ کہ ابھی میں زندہ ہوں اس سے پہلے کہ میں نہ رہوں تو پھر کیا لینے آؤ گے۔“

خبر ہے کہ کیا پریشانی تھی نامعلوم شخص بیٹے کو سینے سے چمٹا کر نہر میں کود پڑا۔
یہ تو اب بروز حشر اللہ ہی بتائے ان کو جن کے سبب یہ منظر آسمان کو دیکھنا پڑا، لوگوں نے بھی نظارہ کیا مگر وہ خود نہر کے کنارے کھڑے ہیں، وہ دن گئے کہ کہتے تھے
سانوں نہر والے پل تے بلا کے
خورے ماہی کتھے رہ گیا
دنیا بڑا لمبا سفر طے کر کے یہاں تک پہنچی، لیکن شاید ہمارا ملک روانہ ہی نہ ہو سکا اور ریس ہار گیا، لوگوں کو تعلیم سے اس لئے بیگانہ رکھا کہ یہ ان حکمرانوں جیسے بھکشوؤں کو منتخب کر کے کرسی ٴ اقتدار پر سوچے سمجھے بغیر بیٹھاتے رہیں، اور یہ ان کے حقوق پر مست ہاتھی کی طرح لیٹے رہیں۔ جس شخص نے بیٹے کو سینے سے چمٹا کر خود کشی کی اس کی موت سے ملاقات کے اسباب جاننا، جانے ہوئے کو جانناہے، سبب کوئی بھی ہو اس کی بنیاد محرومی کے سوا کیا ہو گی، بیچارگی بے بسی کے علاوہ کیا ہو گی؟
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
غموں دکھوں کی یہ وادی جس کا نام بڑے چاؤ سے پاکستان رکھا گیا تھا، اب اس میں وہ مجنوں کروڑوں کی تعداد میں بھٹکتے پھرتے ہیں، جن کی لیلائیں گم، محمل غائب اور منزلیں ناپید ہیں، البتہ جو قومیں اور ان کے حکمران سینے میں درد رکھتے ہیں وہ خوشحال و مالا مال، نئے نئے کھیل، انوکھی خوشیاں، اور سرمستیاں تلاش کرتے ہیں، روٹی کے ٹکڑے نہیں ڈھونڈتے،
یاران تیز گام نے محمل کو لیا
ہم محو نالہٴ جرس کارواں رہے
تازہ ترین