• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن نے 17اگست کو ملک بھر میں 37 قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر 14 اکتوبر کو ضمنی انتخابات منعقد کرانے کا شیڈول جاری کیا جبکہ اسی دن چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو اس ضمنی الیکشن میں انٹر نیٹ یا آئی ووٹنگ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کا غیر معمولی فیصلہ بھی سنا دیا۔ 25جولائی کے عام انتخابات میں ایک سے زائد نشستوں پرجیتنے والے، امیدواروں کے انتقال یا دیگر وجوہات کے باعث خالی ہونے والی سینتیس نشستوں میں 11 قومی اسمبلی کی جبکہ 26 صوبائی اسمبلی کی ہیں۔ قومی اسمبلی کے جن گیارہ حلقوں میں ضمنی الیکشن ہونے ہیں ان میں 8 صوبہ پنجاب، ایک سندھ ،ایک خیبر پختونخوا جبکہ ایک اسلام آباد میں واقع ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کے جن چھبیس حلقوں پر ضمنی انتخابات کا معرکہ ہونا ہے ان میں پنجاب کے 13، خیبر پختونخوا کے 9 جبکہ سندھ اور بلوچستان کے دو دو حلقے شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ملکی تاریخ میں پہلی بار اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہوئے نہ صرف انہیں مبارک باد پیش کی بلکہ الیکشن کمیشن کو نادرا سے مکمل تعاون کر کے اس پائلٹ پروجیکٹ کی کامیابی یقینی بنانے کی ہدایات بھی دیں تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق مستقل بنیادوں پر دیا جا سکے۔ سپریم کورٹ نے یہ تاریخی فیصلہ موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی عام انتخابات سے قبل بطور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور دیگر شہریوں کی طرف سے دائر کی گئی ان پٹیشنوں پر سنایا جن میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ انکا آئینی حق ہے۔ عام انتخابات سے قبل پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن ایکٹ 2017ءکے مسودے کو حتمی شکل دیتے ہوئے اگرچہ اس پر اتفاق کیا تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے لیکن اس کیلئے ٹائم فریم کا تعین الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اوورسیز پاکستانیوں کے انٹر نیٹ کے ذریعے تجرباتی بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لینے کیلئے15 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک خصوصی سافٹ وئیر ڈیزائن کیا جس کی سپریم کورٹ میں پریزنٹیشن بھی دی۔ پٹیشنز کی سماعت کے دوران اس سسٹم کے ٹیکنیکل آڈٹ کیلئے سپریم کورٹ کے حکم پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس قائم کی گئی جس نے اکتیس صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نہ صرف متعدد نقائص کی نشان دہی کی بلکہ اس خطرے سے بھی آگاہ کیا کہ مجوزہ انٹر نیٹ ووٹنگ کے نظام کو ہیک کرکے انتخابی نتائج میں تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ عدالت عظمی کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس نظام میں بیلٹ پیپر کو خفیہ رکھنا یقینی نہیں بنایا جا سکے گا جو کہ آئین پاکستان اور انتخابی قوانین کا تقاضا ہے جبکہ پاکستان مخالف حکومتیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اس سافٹ وئیر پر سائبر حملے بھی کر سکتی ہیں۔ اسی طرح یہ امکانات بھی ظاہر کئے گئے کہ اس سسٹم میں ووٹوں کی خریدو فروخت ہو سکتی ہے اور الیکشن کمیشن ایسے کسی عمل کی تحقیقات بھی نہیں کر سکے گا ،رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ مجوزہ سافٹ وئیر میں درکار سیکورٹی فیچرز بھی موجود نہیں ہیں جسکے باعث نہ صرف مقامی سطح پر ہیکنگ ہوسکتی ہے بلکہ ووٹنگ کے نتائج کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس ٹاسک فورس نے انٹر نیٹ ووٹنگ کے نظام کو ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کے رائے شماری میں حصہ لینے کیلئے پوسٹل بیلٹ یا متعلقہ سفارتخانوں میں بیلٹ پیپرز کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا انتظام کرنے کی سفارش کی۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران نجی شعبے کے ایک ماہرنے معزز عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ امریکہ،آسٹریلیا، ہالینڈ، فرانس ،جرمنی اورناروے میں اس طرح کے سافٹ وئیر کے استعمال کے دوران ہزاروں کی تعداد میں آن لائن ووٹوں کے ہیک ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ ووٹنگ کو متروک کر دیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اگرچہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی حامی ہیں لیکن جلد بازی میں اس نظام کو عام انتخابات 2018ءمیں استعمال نہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے ماہرین کی رپورٹ، الیکشن کمیشن ،نادر اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی آرا سننے کے بعد 25جولائی کے عام انتخابات میں اس تجربے کی اجازت دینے سے گریز کیا تھا تاہم اب متعلقہ پٹیشنز پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے نادرا اور الیکشن کمیشن کو متعلقہ نظام میں تمام نقائص دور کر کے 14اکتوبر کومنعقد ہونیوالے ضمنی انتخابات میں انٹرنیٹ ووٹنگ کے پائلٹ پروجیکٹ پر عمل کرنے کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انہی ہدایات کی روشنی میں اوورسیز پاکستانیوں کے چودہ اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کو یقینی بنانے کیلئے نادرا اور وزارت خارجہ کی معاونت سے کئے جانیوالے اقدامات کی ٹائم لائن مقرر کر لی ہے۔ اس کے تحت پولنگ ڈے سے پہلے ٹاسک فورس کی سفارشات پر عمل درآمد،الیکشن کمیشن کے سامنے سافٹ وئیر کے استعمال کے تجربے، انٹرنیٹ ووٹنگ کیلئے متعلقہ حلقوں اور بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی نشان دہی،ووٹر فہرستوں کی دستیابی، اوورسیز پاکستانیوں کی رجسٹریشن، اوورسیز ووٹرز کیلئے آگاہی مہم، متعلقہ ہائی کمشنرز کے سامنے سافٹ وئیر کا تجربہ،ووٹرز کیلئے آئی ووٹنگ ٹیسٹ اور کال سینٹر سپورٹ کے قیام جیسے اقدامات کئے جائیں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کی حمایت تو کی لیکن ساتھ ہی ضمنی انتخابات میں اسکا اطلاق کرنے کوعجلت قرار دیتے ہوئے اس پر تحفظات بھی ظاہر کر دئیے ہیں تاہم سپریم کورٹ کا فیصلہ سالانہ اربوں ڈالر ترسیلات زر وطن بھیجنے والے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے کسی عظیم خوشخبری سے کم نہیں ہے کیونکہ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے انتخابات میں حق رائے دہی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پاکستان کے تمام رہنما بیرون ممالک دوروں کے دوران ان سے وعدے ضرور کرتے رہے لیکن ان پر عملدرآمد کرنے کیلئے کبھی مخلصانہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ دیار غیر میں رہنے کے باوجود وطن کی محبت دلوں میں رکھنے والے ان پاکستانیوں کی تعداد اب 79 لاکھ تک جا پہنچی ہے جو دنیا میں کسی ملک کے تارکین وطن کی چھٹے نمبر پربڑی تعداد ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اوورسیز پاکستانیوں میں سے 60لاکھ ووٹ ڈالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان پاکستانی شہریوں کوانتخابی کارروائی میں شامل کرنا یقینا ًخوش آئند ہے تاہم ٹاسک فورس کی سفارشات کی روشنی میں اس عمل کو انتہائی شفاف بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی تو عام انتخابات میں دھاندلی کا قضیہ نمٹانا باقی ہے۔ یہاں یہ تعین کرنا بھی ضروری ہے کہ بیرون ممالک مقیم جو پاکستانی ان ممالک کی شہریت حاصل کر کے غیروں کیساتھ وفاداری نبھانے کا حلف اٹھا چکے ہیں کیا انہیں بھی یہ حق دیا جانا چاہئے کہ وہ وہاں بیٹھ کرپاکستان کے حکمرانوں کا انتخاب کریں، یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جہاں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مستقل بنیادوں پرملنے کا انحصار ضمنی انتخابات میں انٹر نیٹ ووٹنگ کے پائلٹ پروجیکٹ کی کامیابی پر ہے وہیں اس کا ایک اور انتہائی اہم پہلو بھی ہے جس کی نشاندہی ضروری ہے۔ گزشتہ تقریبا ایک دہائی کی سیاست نے پاکستانی معاشرے کو متحد کرنے کی بجائے تقسیم کیا ہے جس کے اثرات بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں پر بھی واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہی اثرات کی ایک ناخوشگوارجھلک لندن میں ایون فیلڈ فلیٹس کے باہر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں کے درمیان لڑائی کی صورت میں پاکستانیوں کیساتھ پوری دنیا بھی دیکھ چکی ہے۔ اس صورتحال میں ووٹ کا حق ملنے کے بعد اوورسیز پاکستانیوں کا ملکی سیاست میں چونکہ عملی کردار شروع ہو جائے گا اس لئے ان کا اپنے رہائش پزیرممالک میں سیاسی طور پر زیادہ متحرک ہونا فطری امر ہوگا۔ اب اوورسیز پاکستانیوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہو گی کہ وہ حق رائے دہی کے استعمال کے ساتھ بیرون ممالک بطور پاکستانی سفیروطن کا مثبت چہرہ پیش کریں نہ کہ وہ اخلاقی گراوٹ پر مبنی ایسا طرزعمل اختیارکریں کہ جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہواورانہیں مستقل ووٹ کا حق دینے والے ایسا کرنے سے پہلے سو بارسوچنے پر مجبور ہو جائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین