• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں ۔ لہٰذا اس کی کارکردگی یا سمت کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا لیکن اب تک جو بات کہی جا سکتی ہے ، وہ یہ ہے کہ حکومت واضح پالیسیوں کا تعین نہیں کر سکی ہے یا کم از کم اپنی پالیسیوں کے بارے میں باور نہیں کرا سکی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی واضح پالیسیوں کے ساتھ آگے آئے تاکہ لوگوں کو تبدیلی کا یقین ہو سکے ۔ حکومت نے ان چند دنوں میں جو اقدامات کئے ہیں ، ان سے عام آدمی کی توقعات اور امیدوں میں مزید اضافہ ہوا ہے توقعات اور امیدیں پوری ہونے میں بہت وقت لگے گا لیکن واضح پالیسیوں سے لوگوں کی امیدیں اور توقعات برقرار رہیں گی اور وہ مایوسی میں تبدیل نہیں ہوں گی ۔

عام انتخابات سے قبل 20مئی 2018ء کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور نو منتخب وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے پہلے 100دنوں کے ایجنڈے کا اعلان کیا تھا ۔ پاکستان کے عوام کو امیدیں اور توقعات تحریک انصاف پہلے ہی دلاچکی تھی ۔ اس ایجنڈے کے اعلان نے امیدوں اور توقعات میں اضافہ کر دیا تھا ۔ تحریک انصاف کو عام انتخابات میں جو مینڈیٹ ملا ، اس کے تحت وہ مرکز ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومتیں بنانے کے قابل ہوئی ۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 100 دنوں کے حوالے سے الٹی گنتی ( کاؤنٹ ڈاؤن ) کا آغاز ہو چکا ہے ۔ لوگوں نے چونکہ تحریک انصاف کی حکومت سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں ۔ اس لئے تحریک انصاف کی حکومت کے ہر اقدام کی غیر معمولی مانیٹرنگ ہو رہی ہے ۔ اس کا اندازہ لوگوں کے سوشل میڈیا پر تبصروں اور تجزیوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ہر چیز کو ’’ خورد بین ‘‘ سے دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اب تک کیا اقدامات کئے ہیں اور آگے وہ کیا کرنا چاہتی ہے ؟ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کی دو تقاریر اور وفاقی کابینہ کے پہلے دو اجلاسوں کے فیصلے ہیں ، جن کی بنیاد پر لوگ اپنی رائے قائم کر رہے ہیں ۔ عمران خان نے 17 اگست 2018 ء کو قومی اسمبلی میں قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد پہلا خطاب کیا ۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد 19 اگست کو قوم سے خطاب کیا ، جو ان کا دوسرا خطاب تھا ۔ پہلے خطاب میں انہوں نے سب کے کڑے احتساب کا اعلان کیا اور اپوزیشن کو یہ چیلنج دیا کہ وہ دھرنے کرکے دکھائے ، کھانا ، کنٹینرز اور کارکن تحریک انصاف مہیا کرے گی ۔ اپنے دوسرے خطاب میں انہوں نے تبدیلی کا اپنا وہ پروگرام دیا ، جس کے زیادہ ترنکات 100 دنوں کے ایجنڈے میں بھی شامل تھے ۔ ان دونوں تقاریر میں بھی واضح نہیں تھا کہ تبدیلی لانے کیلئے پالیسیاں کیا ہوں گی ۔

اسی طرح وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کا پہلا اجلاس 20 اگست کو ہوا ، جس میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) میں ڈالنے کا فیصلہ ہوا ۔ اس کیساتھ ساتھ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ میاں محمد نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو انٹر پول کے ذریعے گرفتار کراکے پاکستان لایا جائے گا ۔ وفاقی کابینہ نے اپنے پہلے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا کہ وزرا کے بیرون ملک علاج پر پابندی ہو گی ۔ وزیر اعظم ہاؤس کی اضافی گاڑیاں نیلام کی جائینگی ۔ وغیر ہ وغیرہ ۔ وفاقی کابینہ کا دوسرا اجلاس 24 اگست کو ہوا ، جس میں کئی ایسے فیصلے کئے گئے ، جن سے لوگ یقینا خوش ہونگے اور ان فیصلوں کو سراہا رہے ہونگے۔ مثلا حکمرانوں کے صوابدیدی فنڈز ختم کر دیئے گئے ہیں ۔ سرکاری دفاتر کے اوقات تبدیل کر دیئے گئے ہیں ۔ وزیر اعظم خصوصی طیارے میں سفر نہیں کرینگے ۔ فرسٹ کلاس کی بجائے کلب کلاس میں جائینگے ۔ فیصلے کا اطلاق چیف جسٹس اور چیف آف آرمی اسٹاف پر بھی ہو گا ۔ ملک میں شجرکاری اور صفائی مہم شروع کرنے ، بیورو کریسی کے اخراجات کم کرنے سمیت سادگی اور بچت کیلئے کئی اقدامات کی منظوری دی جائیگی ۔ قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز میں یونیورسٹیز قائم کرنے ، چھوٹے سے گھر میں رہنے اور کم ملازمین رکھنے کا بھی اعلان کیا ۔ وزیر اعظم کی تقریروں او وفاقی کابینہ کے فیصلوں میں خارجہ اور داخلہ میں بڑی یا انقلابی تبدیلیوں کا کوئی عندیہ نہیں ملتا ۔

جیسا کہ اوپر تذکرہ کر چکا ہوں کہ اب تک اقدامات بہت سے حلقوں کے نزدیک قابل ستائش ہیں۔ ان اقدامات سے لوگوں کی توقعات اور امیدیں پوری نہیں ہوں گی بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ لوگ وی آئی پی کلچر سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کی تقریروں کی ساری باتیں اچھی ہیں اور وفاقی کابینہ کے فیصلوں کو بھی زیادہ تر سراہا جا رہا ہے لیکن وہ کوئی اور معاملات ہیں ، جن سے ملک میں حقیقی تبدیلی رونما ہو گی ۔ ملک کی داخلی ، خارجی اور اقتصادی پالیسیوں میں انقلابی تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ماضی کی سیاسی اور جمہوری حکومتیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی ہیں ۔ ان پر خراب حکمرانی اور کرپشن کے الزامات ہیں لیکن ملک کے بنیادی مسائل کا یہ اصل سبب نہیں ہے ۔ خراب حکمرانی اور کرپشن نے ان مسائل میں اضافہ ضرور کیا ہے لیکن ان مسائل کے اصل اسباب کچھ اور ہیں ۔ خصوصا وہ پالیسیاں ہیں ، جنہیں سیاسی اور جمہوری حکومتیں تبدیل نہیں کر سکی ہیں اور اگر کسی نے انہیں تبدیل کرنے کی کوشش کی تو اسکی اسے قیمت ادا کرنا پڑی ۔

وزیر اعظم عمران خان اور تحریک کے دیگر قائدین اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ پاکستان گزشتہ تین عشروں سے بدترین دہشت گردی کا شکار ہے ۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک کی سیاسی اور غیر سیاسی حکومتیں اس دہشت گردی کے مکمل خاتمے میں ناکام رہی ہیں ۔ دہشت گردی کی وجہ سے نہ صرف ہمارا جانی نقصان ہوا ہے بلکہ ہماری معیشت بھی تباہ ہوئی ہے ۔ اگرچہ یہ دہشت گردی بعض عالمی طاقتوں کے مفادات کے کھیل کا حصہ ہے لیکن ہماری داخلی پالیسی درست ہوتی تو ہم اس دہشت گردی کو نہ صرف روک سکتے تھے بلکہ ہم اپنی آزادانہ خارجہ اور اقتصادی پالیسیاں بھی بنا سکتے تھے ۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے اپنی داخلہ پالیسیوں کے ذریعے اس دہشت گردی کی لہر کو اپنے ملک کےاندر نہیں آنے دیا یا پھر دہشت گردی کو ابتدامیں ہی کچل دیا ۔ ہماری سول حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے ہمارے داخلی امور سیکورٹی اداروں کے پاس چلے گئے ۔ داخلی طور پر کمزور ہونے کے بعد ہمیں خارجی محاذ پر مصلحتوں کا شکار ہونا پڑا اور ہم پاکستان کے قومی مفادات کے تابع آزادانہ خارجہ پالیسی نہ بنا سکے اور پھر ہمارا معاشی انحصار ان عالمی مالیاتی اداروں پر بڑھتا گیا ، جو بعض عالمی طاقتوں کے مفادات کے محافظ ہیں اور ان کے ایجنڈوں پر عمل پیرا ہیں ۔ پاکستان اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور صرف سادگی اور بچتوں سے متعلق اچھے اقدامات ہمیں بڑے بحران سے نہیںنکال سکتے تحریک انصاف کی حکومت کو داخلی ، خارجی اور اقتصادی پالیسیاں واضح کرنا ہوں گی ، جو ہماری روایتی پالیسیوں میں انقلابی تبدیلیوں کا مظہر ہوں ۔ پالیسیوں میں تبدیلیوں سے امیدیں اور توقعات برقرار رہیں گی ۔ اگر 100 دنوں کے ایجنڈے پر عمل درآمد نہ بھی ہو سکا تو بھی واضح پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے لوگ مایوس نہیں ہوں گے ۔ انہیں یقین ہو گا کہ تحریک انصاف کی حکومت ان پالیسیوں سے اپنے مقاصد حاصل کرے گی چاہے ان میں تاخیر ہی کیوں نہ ہو ۔ لوگوں کو احساس تو ہو گا کہ حکومت کی کوئی سمت تو ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین