• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن، اپوزیشن ہوتی تو متحد ہوتی

خبر گرم کہ اپوزیشن مشترکہ صدارتی امیدوار لائے گی، شہباز شریف باضابطہ اعلان کریں گے، مشترکہ صدارتی امیدوار اگر قدرت حق سے آ بھی گیا تو کیا جو مشترکہ زخم ہیں ان کا مداوا ہو جائے گا شاید یہی وہ امید ہے جو فضل الرحمٰن کی آنیوں جانیوں سے قائم ہے، زخم تو جراح ہی ٹھیک کر سکتا ہے اور صدر صدر ہوتا ہے سرجن نہیں ہوتا، ویسے ہمارے ہاں کوئی دھکے سے موثر ہو جائے تو الگ بات ہے ورنہ اکثر یہ عہدہ بلند کاسمیٹک ہوتا ہے، جبکہ ایک زمانے میں تو صدر کو چوہدری پھجا بنا دیا گیا تھا اور بات کہ پروٹوکول میں وہ افضل ہوتا تھا دو بڑی پارٹیوں کا بیک وقت ہارنا بھی انہیں متحد نہ کر سکا اب بھی اتحاد ہو گیا تو اس کا قافیہ مشترکہ مفاد ہو گا اور فضل الرحمان جو ہر دور میں سرگرم اور سرد دل رہے ہیں انہیں بھی صدر کے عہدے کے لئے نامزد کر دیا جائے، وہ اپنے گھائو بھی بھر لیں گے اور ن لیگ، پیپلز پارٹی کے زخم بھی بھر دیں گے، بہرحال پسنداپنی اپنی خیال اپنا اپنا، ہم نے اکثر دیکھا ہے جو حضرات سوچ سوچ کر تجزیہ کرتے ہیں ان سے قیمہ ہو جاتا ہے اور اصلنتیجہ ٹوکے کی زد میں آ جاتا ہے، مگر جو اصحاب تجزیہ شعار جتنا بے عقلی سے جلدی سے تجزیہ کرتے ہیں ان کا تکا شہ سرخی بن جاتا ہے، ہماری رائے ہے کہ چھیچھڑوں کا تجزیہ نہیں ہو سکتا، بلکہ قیمہ بھی نہیں ہو سکتا، وقت نے کیا کیا حسیں ستم کئے کہ میثاق والوں میں اب خطرے کی لٹکتی تلوار ہی مشترک رہ گئی ہے اور اس سے مری کی رونقیں دوبالا ہیں۔ ان دنوں رمزیہ کالموں کا بھی بڑا نام ہے، رمزیہ کالم لکھنے سے بلڈ پریشر بڑھتا ہے نہ شوگر لیول ، رمزیہ تحریروں کی افادیت یہ ہے کہ اس کی کئی تفسیریں کی جا سکتی ہیں مزاحیہ، طنزیہ، فکاہیہ کالم بھی اب صرف آہ سحر گاہی سے مزین ہوتے ہیں، اتحاد ہو جائے گا کسی نہ کسی نام پر مگر جے اتحاد وی کم نہ آوے تے فیدہ کیہہ۔

٭٭٭٭

بڑوں کی موت نے بڑا کر دیا

ہمارے پاس چند عظیم الشان مردوں اور پُر شکوہ قبرستانوں کے سوا کوئی عظیم چیز تو باقی نہیں رہی اس لئے دو آنکھوں والوں میں ایک آنکھ والا ہی دانا و بینا ہے۔ دانشوروں کی بھی دو اقسام عام ہیں ایک جو ذہین بھی ہیں محنتی بھی دوسرے وہ جو کند ذہن ہیں مگر بلا کے محنتی، نتیجہ یہ ہے کہ ہم سب دانشور ہو گئے، بھلا دانشور کب کسی دانشور کی سنتا ہے، ہم نے صرف پیغمبروں کو دیکھا کہ وہ رمزیہ گفتگو نہیں کرتے تھے، بڑے سلیس اور عام سے چند لفظوں کے کوزے میں فکر کا بحرِ ناپیدا کنار بند کر دیتے تھے، پھر اس کے بعد کچھ دیدہ ور آئے جنہوں نے اس انداز کو اپنایا مگر جلد ہی یہ اسٹاک بھی مارکیٹ میں شارٹ ہو گیا ورنہ اقبال کیوں یہ کہتے؎

گر دانائے راز آید کہ نہ آید

(اب مزید کوئی دانشور آئے گا یا ہمیں رمزیہ دانشوروں پر ہی گزارا کرنا ہو گا) ہم کوتاہ قامتوں کی چاندی ہو گئی کہ بلند قامت آنا ہی بند ہو گئے حافظ نے اپنے محبوب دانشور کا حلیہ یوں بیان کیا؎

بالا بلند عشوہ گر سروناز من

کوتاہ کرد قصہ زہد درازِ من

(میں اپنے محبوب دانشور کو اپنے زہد و تقویٰ کی طویل داستان سنانے گیا مگر اس سراپا ناز سرو بلند قامت کی رعنائی حسن نے ہمارا سارا قصہ ہی مختصر کر دیا) بہرحال ناامیدی کی بات نہیں ہمارے پاس چھوٹے چھوٹے بڑوں کی کمی نہیں، ہماری اکثریت خط غربت و معقولیت کی لکیر سے نیچے ہی رہ رہی ہے اور سب خوش ہیں کہ اس کے سوا ان کے پاس خوشی کا کوئی اور سامان بھی تو نہیں، ایک شخص نے پوچھا یہ بڑے لوگ جن کے اقوال سنا سنا کر ہم نے ہم وطنوں کے کان پکا دیئے ہیں اب کیوں نہیں پیدا ہوتے، عرض کیا کہ پیدا تو ہوتے ہیں مگر وہ اپنے منہ سے نہیں کہتے کہ ہم بڑے ہیں، اس لئے ہم انہیں پہلے گم کر دیتے ہیں پھر دفن کر کے ان کی قبریں بیچتے ہیں۔

٭٭٭٭

کرپشن کی دو قسمیں

ایک کرپشن وہ جو ہو چکی ہے، اب اس کا سراغ لگایا جا رہا ہے، دوسری کرپشن جو ہم کر رہے ہیں اس کا سراغ آنے والی نسلیں لگائیں گی، وہ زمانہ پھر بھی اچھا تھا جب کہا جاتا تھا؎

خلافِ شرع مرا شیخ تھوکتا بھی نہیں

مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

وہ مہذب شیخ تھے اگال دان میں تھوکتے تھے جگہ جگہ پچکاریاں نہیں مارتے تھے، اور نشانہ باز ایسے کہ مجال ہے چوک جائیں اور پکڑے جائیں، آج کا گناہ گار بھی ایک تو مہذب نہیں دوسرے اس کا نشانہ بھی کچا ہے، بیچارا پکڑا جاتا ہے، کئی نیکو کار اس لئے نیکی کرتے ہیں کہ گناہ کرنے کی جرأت نہیں رکھتے؎

گھر سے چلے تھے ہم بتوں کی تلاش میں

مسجد راہ میں کھڑی تھی اسی میں گھس گئے

جہاں گناہ بھی جبر کے نتیجے میں ہو وہاں نیکی کی آزادی کہاں؟ نئے پاکستان کے منشور کا حرف اول کرپشن کا خاتمہ ہے، حالانکہ وہ تو ہو چکی، اب جو نئی کرپشن ہو تو اس کا راستہ روکا جائے، ورنہ یہ کرپشن تو قرضوں کے سود کی طرح بڑھتی جائے گی، بہرحال ہم اپنا یہ موقف بیان کرنے کے بعد ترک کر کے یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ عبرتناک غیر اعلانیہ سزائیں کب ملیں گی، کیونکہ ہمارے قانون میں ایسی بھول بھلیاں ہیں کہ کہیں سے جج نکل جاتا ہے کہیں سے وکیل، مجرم کا تو بال بھی بیکا نہیں ہوتا، اگر اس دنیا میں حسین ابن منصور حلاج کو دار پر لٹکایا جا سکتا ہے، تو آج بھی کہیں اپنے زلف پہچاں قانون کے توسط سے بیگناہوں کو تو پھانسی نہیں دے رہے؟ اب کرپشن میں ہم اتنے چابکدست ہو چکے ہیں کہ وہ کرپشن تو معلوم نہیں دیتی کرپشن کی شاعری لگتی ہے، اب ہم نے یہ کرپٹ شاعری نیب کے اساتذہ کو اصلاح کے لئے دے دی ہے، جبکہ سنا ہے وہ بھی ایسی شاعری کے بعض ماہرین اب بھی رکھتے ہیں۔

٭٭٭٭

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

....Oچیئرمین نیب چیف جسٹس سپریم کورٹ کے چیمبر میں طلب۔

یہ تو گویا سابقہ سپریم کورٹ و موجودہ سپریم کورٹ کے چیمبر میں مطلوب ہے، قصہ طالب و مطلوب کا ہے، خدا کرے کوئی خوشی کی خبر نکلے۔

....Oسندھ کے نامزد گورنر عمران اسماعیل ایف اے پاس نکلے۔

فواد چوہدری نے کہا کوئی بات نہیں ایک صدر بھی تو میٹرک پاس تھے۔ اسے کہتے ہیںغلطی پر غلطی، ایک غلطی دوسرے غلط جواز؟ یہ کیا ہے؟

....O ڈاکٹر امیر محمد خان جوگیزئی کو گورنر بلوچستان نامزد کر دیا گیا۔

سچ ہے کہ ’’قرعہ فال بہ نام من دیوانہ زدند‘‘

(قرعہ مجھ دیوانے کے نام نکلا)

....Oامریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر علی جہانگیر نیب میں پیش نہیں ہوں گے۔

اس گلی میں مجھ سے پہلے میرے دیوانے گئے۔

....Oزعیم قادری جلد پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں گے۔

سنا ہے بمع اہل و عیال شامل ہونگے۔ ہمارے کانوں میں اب بھی چینلز پر انکی تقریریں گونج رہی ہیں، جن میں وہ ن لیگ کو ایماندار ثابت کرنے پر اتنا زور لگاتے کہ گلا بیٹھ جاتا تھا، بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔

تازہ ترین