• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

minhajur.rab@janggroup.com.pk

وزیراعظم پاکستان نے آتے ہی جو اعلانات کئے یقیناً وہ قابل تحسین ہیں ۔ کجااس کے کہ ان پر عملدرآمد کتنا ممکن ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم " تبدیلی" پسند نہیں کرتے۔ جو چلتا چلاآرہا ہے۔صرف وہی صحیح ہے چاہے اس سے ہمیں کتنا ہی نقصان پہنچ رہا ہو۔ لیکن وہ ہمارے سسٹم کا حصہ ہے اس لیے ہم اسے تبدیل ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔آج کے اس کالم میں کچھ گزارشات پیش کی جارہی ہیں۔ یقیناً اس وقت سادگی اختیار کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے پہلا قدم اٹھالیا گیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ یا گورنرہاؤس نااستعمال کرنے کا یہ مطلب ناہوکہ وہ بے کار اور خالی پڑے رہیں۔ اور کئی سال گزرجائیں کیونکہ استعمال نہ ہونے سے بھی یہ خراب ہوجائیں گے اور ان کی مرمت وآرائش پہ پھر بھاری رقوم خرچ کی جائیں گی جوکہ پہلے سے بھی زیادہ ہوں گی۔اضافی سرکاری گاڑیوں کو فروخت کرنے کا اعلان ایک عمدہ فیصلہ ہے۔ لیکن سرکاری معاملات اور نجی معاملات میں بڑا فرق ہوتا ہے اور اس کا فائدہ خریدوفروخت کرنے والے ڈیلر کو جاتا ہے حکومت کو نہیں۔ کیونکہ جب یہ گاڑیاں فروخت کی جائیں گی تو ان کی قیمت کا تعین مارکیٹ پرائز سے کیا جانا چاہیئے۔مگر عام پریکٹس یہ ہے کہ ان کی قیمتوں کو کاغذات پہ بہت کم دکھایاجاتا ہے۔ اور قیمتیں کم ہونے کے بنا پر " فائدے قریبی لوگوں "کے کردیئے جاتے ہیں۔ اور خزانے میں کچھ جمع نہیں ہوتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان گاڑیوں کی بولیاں شفاف طور پر لگائی جائیں نہ کہ بارگینگ کرکے کم سے کم قیمت کا ٹینڈروصول ہو۔یعنی " تبدیلی" لانے کے لیے اصل مسئلہ " بیوروکریسی کو سمجھنا" اور "سمجھنے" کے بعد اس کو " تبدیل" کرنا موجودہ حکومت کی سب سے بڑی آزمائش ہوگی۔ یلوکیب اسکیم، قرض اتاروں ملک سنوارو،غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ کا منجمدکرنا، صدارتی روزگار اسکیم، آشیانہ اسکیم، کرائے کے بجلی گھر، وغیرہ یہ وہ ساری اسکیمیں اور پروجیکٹس ہیں جنہیں صرف " عوام کے بہترین مفاد" میں شروع کیا گیا لیکن اس کے فوائد کبھی بھی عوام تک نہ پہنچے بلکہ بیوروکریسی کی سیڑھی سے نکل کر چند مخصوص ہاتھوں میں جمع ہوگئے۔ لیکن قرضوں کا بوجھ عوام پر چھوڑ گئے۔ اور صرف قرضوں کا ایک مخصوص بوجھ نہیں بلکہ ان کی بدولت روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہی آتی چلی جارہی ہے اور قرضوں کاحجم بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اس کے لیے کوئی ایک مخصوص حکومت ذمہ دار نہیں بلکہ ساری حکومتیں اور سیاستدان ذمہ دارہیں۔ جنہوں نے کبھی بھی ملکی وسائل اور سرکاری پیسہ کے ضائع کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ کیا وجہ ہے کہ ایک نجی کمپنی یا فرد جس قیمت پر اخراجات کرکے اپنا کام کرواتا ہے۔ وہی کام سرکاری سطح پر دس گنا زیادہ اخراجات پہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ " سرکاری" پیسہ ہے۔ اپنی جیب سے نہیں جارہا ہے ۔ لیکن ذرا سوچئے کہ ابھی نہیں جارہا ہے لیکن بعد میں مہنگائی کی شکل میں مسلسل آپ کی جیب سے ہی نکلے گا۔ لہذا اب ضروری ہے کہ ٹینڈر دیتے وقت حکومتی ادارے مارکیٹ سے خود بھی قیمتیں معلوم کرکے رکھیں تاکہ غیرضروری اخراجات کے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔ اس کے لیے بہت ہی جہاندیدہ ، ایماندار اور کام سے انصاف کرنے والی ایک ٹیم کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی حالات سخت اور کڑی نگرانی کے بعد ہی تبدیل ہوں گے۔                    

تازہ ترین