• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی جماعتوں یا نظریاتی سیاست کی ناکامی سے قوم پرست جماعتوں کو موقع مل سکتا تھا مگر جب بھی عام یا بلدیاتی انتخابات آئے وہ بار بار ناکام ہوئیں۔ ان کا اکثر استعمال کیا جاتارہا یا ان پر یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ وہ ذاتی مفادات کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں۔ ان کی انتخابی کارکردگی تو مذہبی جماعتوں سے بھی بدترین ہے اور 2018 کے انتخابات میں انہوں نے اپنی شکست کے ریکارڈ کو برقرار رکھا۔ ان کی انتخابات میں مستقل ناکامی کی کیا وجہ بنی؟ جہاں تک قوم پرستی کے احساسات کا تعلق ہے تو وہ خصوصاً بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ہمیشہ ہی شدید رہتے ہیں بلکہ جنوبی پنجاب میں بھی ’جنوبی پنجاب صوبہ‘ کے نعرہ پر بھی جنوبی پنجاب کے ’الیکٹیبلز‘ نے قبضہ جمالیا اور مرکز میں اپنی پوزیشن مستحکم کرلیں۔ اس کا سہرا قوم پرست سیاست کو جاتا ہے کہ صوبائی خود مختاری کا معاملہ اب آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے حل کیا جاچکا ہے اور اب یہ صوبوں پر منحصر ہے کہ وہ ڈلیور کریں۔ اگر یہ معاملہ آزادی کے فوری بعد حل ہوچکا ہوتا تو ہمیں مشرقی پاکستان کا سانحہ نہ دیکھنا پڑتا۔ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے سے بلدیاتی حکومتوں کو اختیار دے کر عوام تک زرعی اصلاحات اور اختیارات کی منتقلی سے ہم سیاسی نرسریوں کی تعمیر نو کرسکتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی طرح قوم پرست جماعتوں کا کردار کم و بیش مضبوط پریشر گروہ کا سا ہے جو انتخابی محاذ پر ناکام ہوگیا۔ حالیہ ہونے والے انتخابات میں ’جنوبی پنجاب‘ کا قوم پرست نعرے کا الیکٹیبلز کے ایک گروہ نے ’جنوبی پنجاب صوبہ محاز‘ کے نام سے واضح طور پر فائدہ اٹھایا اور اب وہ حکمران اتحاد کا حصہ ہیں۔ کسی کو بھی ’تاج لانگا‘ تک یاد نہیں جن کی سرائیکی جماعت ایک سیٹ تک نہیں جیت سکی اور بہت سے انتخابات میں ضمانتیں تک ہار گئی۔ لیکن اگر لانگا کی جدوجہد سرائیکی صوبے کیلئے تھی تو انہیں کامیاب ہوجانا چاہئے تھا کیونکہ اب یہ حکمران جماعت تحریک انصاف کیلئے ذمہ داری والا معاملہ بن گیا ہے جس کا اس نے وعدہ کیا تھا اور اگر وہ واقعی مخلص ہیں تو اس تحریک کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی جانب سے اختلاف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ انہوں نے بھی یہی وعدہ کیا تھا۔ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو پچھلی پنجاب اسمبلی دو تہائی اکثریت سے قرار داد بھی پاس کرچکی ہے۔ اب یہ تحریک انصاف حکومت کی ذمہ داری ہے اور انہیں آئینی ترمیم کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ قوم پرست سیاست کی مضبوط بنیادیں ہمیشہ ہی سے تب کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں رہی ہیں جس کا نام پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے اصرار پر بدل کر خیبر پختونخوا رکھا۔ اے این پی کو 2013 میں فائدہ پہنچ سکتا تھا کیونکہ انہوں نے اس صوبہ کو شناخت دینے کا ٹھیک دعویٰ کیا تھا مگر وہ انتخابات میں ناکام ہوگئے۔ دو عناصرہیں جنہوں نے 2013 میں اے این پی کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ پہلا یہ کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے دھمکیاں ملنا اور اس کے کارکنوں اور رہنماؤں کا قتل جس کے باعث اے این پی حکومت بنانے کیلئے زیادہ سیٹیں نہیں لے سکی اور دوسرا اے این پی کی اتحادی حکومت کی حکمرانی یا نظم و ضبط میں ناکامی۔ وہ اب 2013 اور 2018 کے دو سیدھے سیدھے انتخابات ہار چکے ہیں۔یہ تجربہ کار سیاستدان اسفند یار ولی خان کی متواتر دوسری شکست ہے ورنہ ان کا یہ اعلیٰ مرتبہ ان کا اپنا حاصل کردہ ہے۔ مگر یہی وقت ہے کہ اے این پی کو سنجیدگی سے اپنی سیاست پر غور کرنا چاہئے اور یہی وقت ہے کہ انہیں اپنے بنیادی اصولوں پر دوبارہ چلنا چاہئے جو اس وقت کی مدفون نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کے پروگرام میں طے کئے گئے تھے بجائے اس کے کہ وہ خود کو پشتون قوم پرستی تک محدود رکھیں۔ بلوچستان کے محرکات بالکل مختلف ہیں کیونکہ یہ کم و بیش طاقتور سرداروں اور قبیلوں کے گرد گھومتے ہیں۔ پچھلے 15 سے 20 سالوں میں بلوچ نوجوان شاہی خاندان کی سیاست اور سرداروں کے استحصال دونوں سے مایوس دکھائی دئیے۔ مرکزی دھارے کی قومی جماعتوں کی غیر موجودگی میں انہوں نے یا تو علیحدگی پسند گروہوں میں شمولیت اختیار کی یا مایوس ہوگئے۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو اس بات کا سہرا دینا چاہئے کہ انہوں نے اپنی ہی جماعت کے نامزد کردہ سردار ثناء اللہ زہری کو مطمئن کرنے کی کوشش میں نصف مدت ہی کیلئے سہی پر ڈاکٹر عبد المالک جیسے قوم پرست کو وزیر اعلیٰ نامزد کرکے ایک نڈر فیصلہ کیا۔ اگر چہ اس سے زیادہ مدد نہیں ملی مگر یہ ایک مثبت اقدام تھا اور وہ بھی کسی ایسے شخص کی جانب سے جس کا تعلق پنجاب سے ہے۔ جولائی کی 25 تاریخ کو ہونے والے انتخابات میں بی این پی (مینگل) نے عملی طور پر نیشنل پارٹی کی جگہ لے لی اور محض دو معروف قوم پرست رہنماؤں سردار اختر مینگل اور شاہ زین مری کا انتخاب کرلیا گیا۔ حالانکہ بی این پی خود کو اکثریتی جماعت کے طور پر خود کو رجسٹرڈ کروانے کیلئے زیادہ سیٹیں نہیں جیت پائی اور ان کے پاس کوئی اور چارا نہیں بچا تھا سوائے اس کے کہ مبینہ شہنشاہ جماعت یعنی بلوچستان عوامی پارٹی سے ہاتھ ملالیں جس نے مسلم لیگ نون کی جگہ لے لی۔ بی اے پی کی اچانک کامیابی نے بلوچستان کی سیاست کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے سنجیدہ سوال کو جنم دیا ۔ یہ ایک دوہری مشکل ہے کہ صوبے میں ایم پی ایز کرپشن اور سودے بازی سے بہت زیادہ غیر محفوظ ہوگئے۔ سیاسی طور پر بلوچستان قوم پرست سرداروں، پشتون قوم پرستوں اور مذہبی انتہاپسندوں میں بٹا ہوا ہے۔ یوں اس کی سیاست بہت زیادہ پیچیدہ ہے اور اکثر محض نعروں کے ذریعے ہی فائدہ اٹھالیا جاتا ہے۔ قومی جماعتوں کی جانب سے خاص طور پر ایک سنجیدہ غور کی ضرورت ہے۔ سندھ میں قوم پرست جماعتوں نے ہمیشہ ہی ذلت آمیز شکست کا سامنا کیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ پیپلز پارٹی کا دوہرا کردار ہے کیونکہ وہ جب سے سندھ میں آئی ہے ملک کی معروف قومی اور قوم پرست جماعت بن گئی ہے۔ یوں جب بھی کسی قوم پرست جماعت یا رہنما نے کوئی مہم شروع کرنا چاہی جیسے کہ کالا باغ یا ایم کیو ایم مخالف مہم تو انہوںنے پیپلز پارٹی کو سب سے آگے پایا۔ یوں سندھ میں قوم پرستوں نے اکثر دیگر جماعتوں جیسے کہ مسلم لیگ فنکشنل، پاکستان مسلم لیگ اور اب کسی حد تک پی ٹی آئی میں پناہ حاصل کی۔ ان کے لئے مشترکا وجہ پی پی کی مخالفت رہ گئی ہے۔ مہاجر یا اردو بولنے والوں نے مختلف حالات میں کوٹہ سسٹم دیکھا مگر ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) نے کوٹہ سسٹم قوم پرستی کے احساس، جسے جی ایم سید (مرحوم) نےاستعمال کیا، کو کم کرنے کیلئے استعمال کیا اور سندھی نوجوانوں کو مرکزی دھارے میں لائے اور سندھی متوسط طبقے کو اٹھایا۔ اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ جی ایم سید ذوالفقار علی بھٹو سے کیوں ناراض تھے کہ انہوں نے 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ضیاء الحق سے ہاتھ ملالیا۔ جئے سندھ کی تقسیم در تقسیم کے بعد دوسری واحد قوم پرست جماعت جو پیپلز پارٹی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی وہ رسول بخش پلیجو (مرحوم) کی جماعت عوامی تحریک ہے۔ وہ ایم آر ڈی تحریک کے دوران ایک بہت بڑے نام کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے اور ان کی جماعت میں بہت زیادہ منظم بازو تھے جن میں عورتیں اور دیہاتی شامل تھے۔ بدقسمتی سے پلیجو اور ان کی جماعت عوامی تحریک بھی ناکام ہوگئے کیونکہ وہ کچھ علاقوں میں اپنا کردار نہیں پھیلا پائے اور جئے سندھ کے طور پر انتخابات میں ناکام ہوگئے۔ ان کے متحرک بیٹے ایاز لطیف پلیجو، جن کے بعد میں اپنے والد سے اختلافات پیدا ہوگئے تھے، نے بھی پیر پگارا کے زیر اثر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ بن کر خود کو نقصان پہنچایا۔ میں نے اپنے چند صحافی دوستوں کے ہمراہ رسول بخش پلیجو (مرحوم) سے ان کے انتقال سے ایک ماہ قبل ملاقات کی تھی اور انہوں نے ایاز کی جانب سے چنی گئی لائن پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ ڈاکٹر قادر مگسی بھی ایاز پلیجو کی طرح انتخابات اور موجودہ سندھ اسمبلی میں شکست کھاگئے ۔ آپ بمشکل ہی کسی سچے قوم پرست کو ڈھونڈ پائیں گے مگر پیپلز پارٹی کو اب بھی قوم پرستوں کے معاملات کا مضبوطی سے دفاع کرنے والا سمجھا جارہا ہے۔ خیبر پختونخوا کو چاہئے کہ وہ خود کو اس بات کا الزام دیں کہ وہ لوگوں کا اعتماد جیتنے میں کامیاب کیوں نہ ہوسکے۔ یہی وقت ہے کہ انہیں اپنی سیاست پر غور کرنا چاہئے جس طرح سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے اپنی سیاست پر غور کیا۔ غالباً مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) ہی وہ واحد جماعت ہے جسے 1988 میں اس وقت کے قوم پرست نعرہ پر بہت بڑا انتخابی جواب ملا تھا۔

تازہ ترین