• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل پیٹریاس کے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ انہیں جنرل صاحب کے جملہ مشاغل کی پہلے سے ہی خبر تھی اور موصوف کو ایک سے زائد مرتبہ یہ مشورہ بھی دیا جا چکا تھا کہ حضور آپ نے اپنی حرکتوں سے باز تو آنا نہیں، البتہ اتنا تو آپ کر ہی سکتے ہیں کہ پاؤلا کے ساتھ ”میل ملاپ“ میں تھوڑی احتیاط کر لیا کریں کیونکہ ایسے کاموں میں مرواتی ہمیشہ بے احتیاطی ہی ہے۔
تاہم تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ذلت کی جو مقدار آپ کے مقدر میں لکھی جا چکی ہو، وہ آپ کو مل کر ہی رہتی ہے خواہ دو سو سال بعد ہی کیوں نہ ملے۔ تفصیل اس اجمال یک یہ ہے کہ امریکی قوم کے آباؤ اجداد میں سے ایک تھامس جیفرسن بھی تھا جسے امریکہ کا پہلا سیکرٹری خارجہ، دوسرا نائب صدر اور تیسرا صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس بارے میں مشہور تھا کہ خاصا ”شوقین“ آدمی ہے۔ سیلی ہمنگز# نامی ایک غلام عورت کے ساتھ اس کا لمبا چوڑا سکینڈل مشہور ہوا مگر ابتدائی تحقیقات میں ہی اس الزام کو بے بنیاد قرار دے کر فائل کر داخل دفتر کر دی گئی تاہم مورخین نے ڈھکے چھپے انداز میں تحقیق جاری رکھی۔ جیفر سن کا انتقال 4 جولائی سن 1826ء کو ہوا۔ سن 1998 میں ڈی این اے ٹیسٹ نے ثابت کر دیا کہ سیلی ہمنگز کے بچوں میں سے ایک جیفرسن کی اولاد ہے!
صدر کینڈی بھی حتی الوسع محتاط تھا مگر اس کے باوجود مشہور فلمسٹار مارلن منرو کے ساتھ بننے والے سکینڈل نے اس کی مٹی خوب پلید کی۔ شواہد کی چھانٹ پھٹک کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سکینڈل کا راز خود مارلن منرو نے افشا کیا جو صدر کی بے اعتنائی اور درشت رویئے کی زبردست شاکی تھی۔
اسی سے ملتی جلتی کہانی صدر بل کلنٹن کی بھی ہے۔ کلنٹن اور اس کی معاون مونیکا لیونسکی کا معاشقہ کئی سال تک مکمل راز داری کے ساتھ جاری و ساری رہا مگر پھر اچانک یہ بھانڈہ بھی بیچ چوراہے کے پھوڑ گیا۔ اس کیس میں بھی ولن بلکہ ویمپ کا کردار مونیکا نے ہی ادا کیا۔

پاکستانی حکمرانوں کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب نے سکندر مرزا کا ایک قصہ شہاب نامہ میں مزے لے لے کر سنایا ہے۔ کہتے ہیں کہ سکندر مرزا کی بیگم ایرانی نژاد تھیں اور اکثر اپنے شوہر پر شک ہی کرتی پائی جاتیں۔ ایک مرتبہ سرکاری ڈنر کے دوران سکندر صاحب کسی خوش شکل خاتون کی ساڑھی کا پلو ہاتھ میں تھامے اس کے ساتھ محو گفتگو تھے کہ اچانک بیگم صاحبہ کی نظر ان پر پڑ گئی فوراً ”جائے واردات“ پر پہنچیں، شوہر کو سخت سست کہا اور ساڑھی والی نیک بخت کو فوراً ایوان صدر چھوڑنے کا حکم صادر کیا۔ بیگم صاحبہ نے محض اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ”مرزا صاحب نے مجھے بھی اسی طرح ہی پھانسا تھا۔“ یہ خاتون پہلے پہل کسی اور کی زوجہ ہوا کرتی تھیں مگر مرزا صاحب کو ساڑھی کا پلو پکڑاتے ہی بیچارے شوہر کی چھٹی کروائی اور بیگم سکندر مرزا بن بیٹھیں۔
اسی سے ملتی جلتی کہانی آپ کو مشہور کتاب ”مائی فیوڈل لارڈ“ میں بھی ملے گی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں ملک غلام مصطفی کھر کا کردار بیحد ڈرامائی بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ بہرحال، اس حوالے سے جو بات ہماری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ملک غلام مصطفی کھر میں آخر ایسی کیا بات تھی کہ بظاہر اچھی خاصی معقول خواتین انہیں پے در پے ساڑھی کے پلو پکڑاتی اور ایک ایک کر کے ان کے عقد میں آتی چلی گئیں۔ ہم نے ملک صاحب کو جب تک سنا نہیں تھا، تب تک انہیں محض ایک گزارہ قسم کے اوسط سے آدمی گردانتے تھے جو خوبصورت ہوتے ہوتے بال بال بچا ہو۔ مگر پھر جب سے ہم نے انہیں بولتے اور ہنستے سنا، ان کا رہا سہا بھرم بھی جاتا رہا۔ چنانچہ ہم نے بالآخر یہی اخذ کیا کہ سارا کمال گورنری کا ہی تھا کیونکہ اگر موصوف گورنر نہ ہوتے تو خوبرو خواتین تو درکنار، ہمارا پیارا دوست محمد علی درانی بھی انہیں گھاس نہ ڈالتا!
خیر، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ کسی کو بھی گورنر لگا کر ”مطلوبہ نتائج“ حاصل کر سکتے ہیں۔ گورنر لطیف کھوسہ کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا ہرگز ہرگز نہیں لگتا۔ آپ کے بھی سکینڈل تو بیشمار ہیں مگر معاشقہ ایک بھی مشہور نہیں ہوا۔ اس کی وجہ غالباً وہ احتیاط ہی ہے جو خواتین ان کے معاملے میں برتتی رہی ہیں!
جنرل پرویز مشرف اس حوالے سے ”ید طولیٰ“ رکھتے تھے کہ ہر تیسرزے چوتھے مہینے آپ کا کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا افیئر زبان زد عام ہوتا ہی رہتا تھا۔ موصوف گروہ عاشقاں کے غالباً وہ واحد رکن ہیں کہ جو اپنی جمع شدہ ”ٹرافیوں“ کی از خود تشہیر کر کے باقاعدہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
جنرل پیٹریاس کو چاہئے کہ ہمت نہ ہاریں اور جنرل پرویز مشرف کے فن اور شخصیت کو مشعل راہ بنا کر موج مستی کے سلسلے کو جاری و ساری رکھیں۔
تازہ ترین