• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کسی بھی شہر کی کسی بھی شاہ راہ کے کنارے کھڑے ہوجائیں اور اس شاہ راہ پر رواں دواں ٹریفک کا نظارہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ شاہ راہوں پر گاڑیاں چلانے والے کم اور سرکس کرنے والے زیادہ نظر آئیں گے ۔ نوجوان موٹرسائیکل پر ویلنگ کرتے نظر آئیں گے اور اگر وہ ویلنگ نہ بھی کر رہے ہوں تو موٹر سائیکل چلانے کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ انہیں کسی دوسری گاڑی یا ٹریفک کی پروا نہیں ہوتی ۔ شہر کی شاہ راہوں پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ سمیت ٹرکوں، ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر ایسے ایسے پریشر ہارن لگا رکھے ہیں کہ جب وہ اچانک بجاتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ صور پھونک دیا گیا ۔ اور جو گاڑیاں پریشر ہارن سے پاک ہیں انکے ڈرائیورز نے ڈپرز (ہائی لائٹ) مارنا سیکھ لیا ہے ۔ آپ چھوٹی بڑی کسی بھی شاہ راہ پر جارہے ہوں وہ یہ دیکھے بغیر کہ آپ کے پاس دائیں یا بائیں ہونے کی گنجائش ہے یا نہیں، آپ کو لائیٹس دے دے کر پریشان کر دینگے۔ ٹریفک پولیس جس کا نام ”صرف چالان پولیس“ ہونا چاہئے، اس کے اہلکار بھرتی ہونے کے فوراً بعد تو بڑے متحرک ہوتے ہیں لیکن شاہ راہوں اور چوراہوں کی بے ہنگم ٹریفک کا شوروغل، ماحول کی آلودگی اور کم تنخواہوں کی وجہ سے جلد ہی ان کی کارکردگی جھاگ کی طرح بیٹھنا شروع ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں ان کی کارکردگی صرف زیادہ سے زیادہ چالان کرنے تک رہ جاتی ہے کہ وہ درختوں، کھمبوں اور کھوکھوں کی اوٹ لے کر ایسی جگہوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں ون وے یا قدرے ویران چوراہوں پر سگنلز توڑنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ ان کا نشانہ زیادہ تر چھوٹی گاڑیوں والے ، موٹرسائیکل سوار، ٹرک ، ٹریکٹر اور ٹرالیوں والے بنتے ہیں ۔ جب یہ چالان کاٹ کاٹ کر تھک جاتے ہیں یا چالان کاپی ختم ہو جاتی ہے تو انہی درختوں، کھمبوں یاکھوکھوں کی اوٹ میں کھڑے ہو کر موبائل پر گپیں لگاتے ہیں۔ یہ ٹریفک پولیس والے اس وقت بہت متحرک نظر آتے ہیں جب کسی وی آئی پی نے گزرنا ہوتا ہے ۔ اس وقت ان کی ”آنیاں جانیاں“ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ وہ بے چارے بھی کیا کریں ۔ آلودہ ماحول ، کم تنخواہ اور لمبی ڈیوٹیاں ان کی مت مار دیتی ہیں اور اگر وہ کبھی دل پشوری کرنے کیلئے غلطی سے کسی بڑی گاڑی کو روک بھی لیں تو گاڑی مالکان ایسی ایسی دھمکیاں دیتے ہیں ۔ جیسے ٹریفک پولیس والا چرس یا افیم اسمگل کرتے ہوئے پکڑا گیا ہو۔ اور اگر پھر بھی ٹریفک پولیس اہل کار کی طبیعت صاف نہ ہو تو بھلا ہو موبائل فون ایجاد کرنے والوں کا، وہ صاحب نمبر ملا کر اہلکار کے ہاتھ میں موبائل پکڑاتے ہیں کہ لوبات کرو۔ اور پھر وہ اہلکار بیچارا کھسیانا ساہو کر کہتا ہے ٹھیک ہے جناب آپ جائیں اور پھر یہ سارا غصہ چھوٹی موٹی گاڑیوں ، ٹرالیوں اور پبلک سروس گاڑیوں کے مالکان پر نکالتا ہے ۔ میں نے ایک مرتبہ ایک ٹریفک پولیس والے کو سرکاری ہیوی موٹر بائیک پر آتے ہوئے دیکھا جو ذرا ذرا سے وقفے کے بعد موٹر سائیکل پر یوں اچھلتا جیسے شدید ہچکی کا شکار ہو رہا ہو ۔ لیکن جب وہ قریب آیا تو مجھے احساس ہوا کہ ٹریفک اہلکار کی اچھل کود کی اصل وجہ کیا ہے ۔ اصل میں سرکاری ہیوی موٹر بائیک ، کا ٹائر بوسیدہ ہو کر کچھ اس طرح ٹیڑھا ہو چکا تھا کہ وہ حصہ جب سڑک پر آتا تو ٹیڑھے پن کی وجہ سے موٹر بائیک اور پولیس اہلکار کو اوپر اچھال دیتا ۔ کیونکہ ان پولیس اہلکاروں کو ٹریفک کنٹرول اور پٹرولنگ کے لئے جو گاڑیاں اور موٹر بائیک ملتے ہیں، تھوڑے عرصہ کے بعد ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔ سڑکوں اور شاہراہوں کا یہ حال ہے کہ ٹریفک کو سلو ڈاؤن کرنے کیلئے سڑکوں پر یا تو روڈ ہمپس جنہیں ہم اسپیڈ بریکر کہتے ہیں، بنا دیئے گئے ہیں اور ہر شاہ راہ پر بنائے جانے والے اسپیڈ بریکر مختلف ڈیزائن کے ہیں کچھ تو واقعی بین الاقوامی معیار کے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں کہ آپ گاڑی کتنی ہی آہستہ کر لیں، اس پر گزرنے کے دوران گاڑی کا سارا ڈھانچا ہل کر رہ جاتا ہے اور گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کا ان طرح طرح کے اسپیڈ بریکرز کی وجہ سے سب کھایا پیا ہضم ہو جاتا ہے اور اسپیڈ بریکر کیلئے جو کیٹ آئی ری فلیکٹرز لگائے گئے ہیں، وہ مناسب دیکھ بھال یا تبدیلی کی وجہ سے ایسی شکل اختیار کر لیتے ہیں کہ جیسے کسی قصائی کاکند ٹوکہ ہوتا ہے اور یہ کند ٹوکہ آپ کی گاڑی کے ٹائروں کا حشر کر دیتا ہے ۔ میں دراصل بات ان اوور ہیڈ برجز کی کرنا چاہتا تھا جو شاہراہوں کو پیدل عبور کرنے والوں کیلئے بنائے گئے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ پیدل چلنے والے ان برجز کی موجودگی کے باوجود شاہ راہوں کو اسی طرح بھاگ کر عبور کرتے ہیں، جس طرح ان پلوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ کیونکہ ان پلوں کو دیکھ کر پل صراط کی سختی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ صرف اسلام آباد کی ایک شاہ راہ پر سڑک کراس کرنے والوں کیلئے خود آپریٹ کرنے والا سگنل لگایا گیا ہے ۔ باقی جڑواں شہروں میں سرکس کرتے ہوئے سڑک کراس کرنا پڑتی ہے ۔ حالانکہ دنیا کے ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں میں پیدل چلنے والوں کی بہت قدر کی جاتی ہے اور ان کو سہولیات دی جاتی ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں تو ہسپتالوں کے سامنے جہاں زیادہ تر مریض اور بوڑھے لوگ ہوتے ہیں، وہاں یہ پل صراط بنا دےئے جاتے ہیں جن پر نہ تو وہیل چیئر جا سکتی ہے اور نہ مریض چڑھ کر دوسری جانب جا سکتے ہیں ۔ اگر خود آپریٹ کئے جانے والے سگنلز نہیں لگائے جا سکتے تو ہوائی پلوں کی بجائے اس سے کم تکلیف دہ زمین دوز پل بنائے جائیں ۔
تازہ ترین