• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیس سال پہلے اپنی والدہ کی وفات سے اگلے روز میں نے لکھا تھا کہ اپنی ماں کے بغیر میں نے زندگی کی پہلی رات کاٹی ہے۔ یہی بات اکیس نومبر کی صبح کو بھی کہہ سکتا ہوں کہ شفقت تنویر مرزا کے بغیر یہ میری زندگی کی پہلی رات تھی جس سے ماں کی موت جیسے احساس زیاں کے ساتھ ابھی ابھی جاگا ہوں۔6فروری 1933ء کو میں نے وزیر آباد میں زندگی کا پہلا سانس شفقت تنویر مرزا کے ساتھ لیا تھا جس نے بیس نومبر2012کی صبح سات بجے اپنی زندگی کا آخری سانس لیا اور سرطان کے موذی مرض کے ساتھ ہمیں بھی اس دنیائے سود و زیاں میں چھوڑ گیا۔
یہ تو بیس سال بعد کالج میں پہنچ کرپتہ چلا کہ وہ میرا”ہم زاد“ ہے مگر1952ء سے2012ء تک کے ساٹھ سال ہم نے اکٹھے گزارے ہیں۔ ہمارے باہمی تعلقات میں ایک ”جڑواں پن“ بھی پایا جاتا ہے۔ ایک ہی شہر میں ایک ہی روز پیدا ہونے کے علاوہ ہم کالج فیلو بھی تھے۔ پسند اور ناپسند میں بھی اشتراک پایا جاتا تھا۔ ایک طویل عرصہ تک ہم نے ایک ہی اخبار کے ایک ہی دفتر کے مشترکہ کمرے میں ایک ہی میز پر کام کیا ہے۔ اکثر اوقات ہنسنے اور رونے میں بھی ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ اتفاقات کے علاوہ ہمارے اختلافات بھی ایک جیسے ہی تھے۔ یہاں تک کہ دوست اور دشمن بھی تقریباً مشترک رہے مگر شاید ایک ہی قبرستان نصیب نہیں ہوگا ،جیسے میری اور شاعر میرا جی کی ماؤں کو نصیب ہوا ہے میانی صاحب میں۔جیسا کہ سات مارچ2012ء کے گریبان میں لکھ چکا ہوں کہ شفقت تنویر مرزا نام نہاد نیشنل پریس ٹرسٹNPTکے مشہور اخبار”امروز“ کے آخری ایڈیٹر تھے اور پھیپھڑوں کے سرطان سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ اپنے مرحوم یامقتول اخبار کے زندہ کارکنوں اور ساتھی پینشنروں کے جائز قانونی حقوق کی پذیرائی کی جنگ بھی لڑرہے تھے بلکہ یہ جنگ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں جیت بھی چکے تھے مگر ان کے اپنے سیاسی دوستوں نے جن کے لئے انہوں نے اپنی زوجہ تمکنت آراء سمیت قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی تھیں۔ اعلیٰ عدالت کے فیصلے پر عمل کرنے کی بجائے اس کے خلاف اپیل دائر کردی اور شفقت تنویر مرزا یہ کہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے کہ”جے میں پیسے دی تھوڑ دے پاروں کینسر کولوں مرگیا تے ا پنی حکومت دے متھے لگاں گا“ یہ صرف وزیر اعظم پرویز اشرف ہیں کہ جنہوں نے شفقت کے علاج کے آخری دنوں کے اخراجات برداشت کرنے کی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ورنہ دیگر تمام نے زبانی کلامی زخموں پر مرہم دھرنے کا کام کیا۔صدر جنرل یحییٰ خاں کے دور حکومت میں میری کسی گستاخی سے ناراض ہو کر اپنے زمانے کے نپولین بونا پارٹ جنرل شیر علی نے چیئرمین پریس ٹرسٹ جسٹس رحمان کو کہہ کر مجھے اسلام آباد سے ملتان تبدیل کروا دیا تو شفقت بھی کسی ایسے ہی قصور پر ملتان تبدیل کردئیے گئے۔ امروز ملتان کی رپورٹنگ کے دوران پانی کا نلکا نصب کرتے ہوئے چھ غریب مزدور بجلی کا کرنٹ لگنے سے مارے گئے۔ اس حادثے کی رپورٹ تیار کرتے وقت میں نے ان محنت کشوں کی لاشوں کی تصویریں بھی اتاریں۔ ایک تصویر میں ایک محنت کش کے ہاتھ کے ساتھ ہی ایک چادر بھی پڑی تھی جس پر راہ گیر ان کے کفن دفن کے لئے چندہ پھینک رہے تھے۔ یہ تصویر خبر میں لگاتے وقت شفقت تنویر مرزا نے تصویر کے نیچے لکھا کہ”ان ہاتھوں نے کبھی بھیک نہیں مانگی تھی“ شفقت کے جسم کو قبر میں اتارتے وقت مجھے ان کی یہ تحریر بہت یاد آئی۔شفقت تنویر مرزا کے طویل جدوجہد اور اذیت برداشت کرنے والے بے جان جسم کے قریب بیٹھ کر مجھے ان کی بہت سی پنجابی نظمیں یاد آئیں خاص طور پر ایک نظم کا یہ حصہ میرے سامنے پڑا دکھائی دیا کہ
اسی آں اوہ اخبار دے ورقے
جناں اتے اک دن پہلاں
دھرتی تے طوفان مچاون والیاں خبراں چھپیاں
دھرتی پر طوفان مچانے والی خبروں کا اخبار اگلے روز ردی میں فروخت ہونے کے لئے رہ جاتا ہے یا رزق خاک بن جاتا ہے۔بے بدل شاعر نجم حسین سید نے شفقت مرزا کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے انہیں ان عظیم لوگوں میں شامل کیا جو اپنی پوری زندگی کو کسی نیک اور اچھے ،روشن خیال اور مثبت مشن کی تکمیل کے لئے وقف کردیتے ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ جیسے معجزوں کا زمانہ گزر چکا ہے ویسے ہی ان عظیم لوگوں کا دور بھی گزر چکا ہے جو کسی مشن کے لئے اپنی زندگیاں قربان کردیتے ہیں۔ شفقت تنویر مرزا جن کو مرحوم کہتے ہوئے اذیت ہوتی ہے پنجابی زبان کو وہ مقام، مرتبہ اور اہمیت دینے کا مشن رکھتے تھے جو مادری زبانوں اور ماؤں کا جائز حق ہوتا ہے اور جو اس حق کو تسلیم نہیں وہ مہذب کہلانے کے مستحق نہیں ہوسکتے۔
تازہ ترین