• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مستقبل بینی اور حالات کو پرکھنے کا ایک بہترین طریقہ ذاتی تجربہ اور مشاہدہ بھی ہوتا ہے کیونکہ عموماً تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے اور حکمران ایک جیسی غلطیاں کرتےرہتے ہیں۔تجربہ اور مشاہدہ اپنی جگہ نہایت اہم ہوتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک تجربے کو دوسرے شخص پر اپلائی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہر انسان اپنی فطرت، مزاج، رویے، کارکردگی اور صلاحیتوں کے حوالے سے دوسروں سے مختلف ہوتا ہے ۔البتہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات ایک جیسی غلطی عام طور پر اسی طرح کے نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔محترم محمد عثمان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو میڈیا میں ان کےگھر کا ذکر رہا جہاں بجلی نہیں ہے، ان کے پسماندہ علاقے اور غیر معروف ہونے کا ذکر رہا تو مجھے مرحوم غلام حیدروائیں صاحب یادآگئے۔ پھر سے وہ منظر ذہن پہ دستک دینے لگا جس میں ہم نے وائیں صاحب کو وزیراعلیٰ بنتے دیکھا۔حکومتی کالم نگاروں اور میڈیا نے ان کے ڈھائی مرلے کے گھر کا ذکر اور ان کی درویشی کا قصیدہ کچھ اس شاعرانہ انداز سے پیش کیا کہ لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنی قسمت پر رشک کرنے لگے کہ انہیں درویش حکمران نصیب ہوا ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وائیں صاحب نہایت صاف ستھرے ، ایماندار، مخلص اور حددرجہ نظریاتی انسا ن تھے اور انہیں وزیر اعلیٰ بننے سے قبل کابینہ میں بحیثیت صوبائی وزیر کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب میں ایسا حکمران کامیاب ہو سکتا تھا ؟کیا محض شرافت، تابع فرمانی اور وزیر اعظم سے وفاداری کامیابی کی کنجی ثابت ہو سکتی تھی؟پنجاب کی حکومتوں اور گورننس کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پنجاب پر موثر گرفت قائم رکھنے کے لئے نہایت تجربہ کار سیاست دان ہونے کے علاوہ وسیع تعلقات ،وسیع سیاسی حلقہ اثر،ممتاز حیثیت، جوڑ توڑ کی صلاحیت، تنظیمی اور انتظامی امور کا تجربہ اور اراکین اسمبلی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ضروری ہے ۔اس مشاہدے اور تجربے کے تناظر میں مجھے بزدار صاحب کی نامزدگی پر قدرے حیرت ہوئی لیکن جب دوستوں نے انکشاف کیا کہ ان کی تقرری روحانی رہنمائی کی مرہون منت ہے تو میں خاموش ہوگیا۔میں اب تک علامہ اقبال کی روحانی جمہوریت کو سمجھنے سے قاصر تھا حالانکہ اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم سے بھی استفادہ کرتا رہا ۔میرے ذہن میں فقط ایک سوال رکاوٹ بن کر کھڑا تھا کہ بے اصول، بے وفا اور مادہ پرست جمہوریت کا روحانیت سے کیا تعلق ؟اچھا ہوا کہ وزیراعظم عمران خان نے یہ عقدہ حل کر دیا اور علامہ اقبال کے تصور روحانی جمہوریت کو شرمندہ تعبیر کر دیا ۔اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟’’ناسمجھ‘‘ تجزیہ نگار شور مچا رہے ہیں کہ عمران خان نے اپنی کابینہ میں وہی چہرے شامل کئے ہیں جو کبھی جنرل مشرف کی آمریت کے قصیدے پڑھتے تھے یا پی پی پی کے نظریاتی ستون تھے یا مسلم لیگ (ن) کے وفادار سمجھے جاتے تھے ۔گھسے پٹے چہروں کے ساتھ تبدیلی کا دعویٰ چہ معنی ؟ ان میں سے چند حضرات نے زبان کی ’’کھٹی‘‘ (کمائی) کھائی ہے ۔کبھی وہ مشرف کے ساتھ ساتھ اور پھر سیاسی صنم خانوں کے چکر لگانے کے بعد پی ٹی آئی کےمیڈیاترجمان بن گئے۔دراصل اعتراض کرنے و الے دانشور مغربی جمہوریت کے اصولوں کو سامنے رکھ کر اعتراضات کر رہے ہیں انہیں روحانی جمہوریت کی کرامات کا نہ اندازہ ہے نہ ادراک۔

ذکر ہو رہا تھا پنجاب کے سابق حکمران محترم غلام حیدر وائیں مرحوم کا اور یہ ذکر پھوٹا تھا نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے جب وائیں صاحب وزیر اعلیٰ بنے تو حکمران خاندان کی ایک اہم شخصیت سے ملاقات ہو گئی انہوں نے باتوں باتوں میں پوچھا نئے سیاسی سیٹ اپ کے بارے میں کیا خیال ہے۔میرا جواب تھا کہ کچھ دن ایک درویش کو وزیراعلیٰ بنانے پر آپ کو خوب دادملے گی لیکن جلد ہی پنجاب کے سیاسی سیٹ اپ میں دراڑیں پڑنی شروع ہو جائیں گی۔اسمبلی کے گھاگ، جاگیردار اور بااثر اراکین کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا اور وہ وزیراعلیٰ پر سوار ہو کر انتظامیہ کو معذور کر دیں گے۔حکومت کمزور ہوجائے گی اور اس کی سزا مرکزی حکومت کو بھی ملے گی کیونکہ مرکزی حکومت کو تقویت پنجاب کی سیاسی طاقت سے ملتی ہے میں نے اکثر مرکزی حکمرانوں کو پنجاب کی وجہ سے کمزور اور طاقتور ہوتے دیکھا ہے۔انہوں نے پراعتماد لہجے میں فرمایا ریموٹ کنٹرول ہمارا ہو گا۔وائیں صاحب ہماری ہدایت کے مطابق چلیں گے میںنے عرض کیا کہ روزانہ کے معاملات میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ اپنے عہدے کا بھرم قائم رکھ سکتا ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ان کو میری گزارشات اس روز سمجھ میں آئیں جب پنجاب سیاسی افراتفری اور انتشار کا شکار ہوا اور وفاق کو بھی لے ڈوبا۔ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ کے پس پشت جہانگیر ترین اور علیم خان ہوں گے، وزیر اعلیٰ ہر بات میں وزیراعظم سے رہنمائی لیں گے اور انہیں چودھری برادران کی مشاورت بروزن سرپرستی بھی حاصل ہو گی۔یہ وہی سیاسی نقشہ ہے جو میں نے وائیں صاحب کے وزیر اعلیٰ بنتے وقت دیکھا تھا۔وائیں صاحب کو پنجاب اسمبلی میں بڑی اکثریت کی حمایت حاصل تھی اور ان کی مسلم لیگ (ن) کو پارلیمنٹ میں بھی واضح اکثریت حاصل تھی اب صورتحال مختلف ہے۔

وائیں صاحب کو وزیر اعلیٰ بنے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک روز وزیر اعلیٰ کے دفتر میں ’’توتکار‘‘ کا شور سنا گیا۔پتہ چلا کہ بااثر ایم پی اے صاحب کسی کام کے لئے وزیر ا علیٰ کے پاس گئے وائیں صاحب نے سیاسی ہنرمندی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یہ کہا کہ میرٹ کے مطابق یہ کام نہیں ہو سکتاوہ ایم پی اے غصے میں آگیا۔ وزیراعلیٰ کمزور ہو تو ایسا ضرور ہوتا ہے اس نے جواباً وزیراعلیٰ کو للکارا ’’کیا تم میرٹ پر وزیر اعلیٰ بنے ہو‘‘؟ایک روز لاہور سے باہر ایک مقام پر ایک ٹریفک کانسٹیبل نے کسی ایم پی اے صاحب کا چالان کر دیا اس توہین پر شور مچا اور کچھ ایم پی اے حضرات وفد کی صورت میں وزیراعلیٰ کے دفتر گئے اور اس سے آئی جی پنجاب کو ٹرانسفر کروا کر اٹھے ۔مقصد پولیس کو مخصوص پیغام دینا تھا۔ میں اس دور میں پنجاب حکومت میں سیکرٹری تھا پھر ہم نے اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھا کہ ہر ایم پی اے ڈپٹی وزیر اعلیٰ بن گیا۔ یہ حضرات درخواستوں کے پلندے اٹھا کر سیکرٹریٹ پر حملہ آور ہو جاتے اور گن پوائنٹ پر سیکرٹری حضرات سے آرڈر کرواتے ۔چنانچہ چپراسی سے لیکر چھوٹے اہلکاروں تک کے تبادلے سیکرٹریٹ سے ہونے لگے حالانکہ یہ اختیارات مقامی اور ضلعی انتظامیہ کے تھے ۔اگر ان کو بتانے کی جرات کی جاتی کہ حضور یہ کام ضلعی سطح پر ہو گا تو وہ جان بوجھ کر ڈرانے کےلئے گریبان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ۔ تفصیل کو کوزے میں بندکرتے ہوئے صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ وزیراعلیٰ کی کمزوری، ریموٹ کنٹرول اور منقسم اتھارٹی نے انتظامی مشینری کو معذور (CRIPPLE)کردیا۔قوانین، میرٹ اور اصول پامال ہو گئے اور سیاسی انتشار کی کیفیت پیدا ہو گئی جس سے فائدہ اٹھا کر جناب منظور وٹو نے صدر اسحاق کی آشیرباد سے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔جس کے بعد مرکزی حکومت بری طرح لڑکھڑانے لگی۔

میری دعا ہے کہ اب ایسا نہ ہو ،عمران خان کی سحرانگیز تقریر نے توقعات کے شگوفے کھلا دیئے ہیں اور قوم صبح نو کی منتظر ہے ۔سادگی ، بچت اور صوابدیدی فنڈ کا خاتمہ یقیناً بہت اچھا آغاز ہے جس نے تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ دعا ہے موجودہ حکمران قوم کی توقعات پر پورا اتریں اور تاریخ میں سرخروہوں لیکن یاد رکھیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے یہ اس کی عادت ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین