• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ غالباً 2012کی بات ہے۔ بھارتی صوبہ بہار میں وزیر اعلیٰ رہنے والے نتیش کمار، عمران خان سے ملنے بنی گالاآئے۔ نتیش کمار پاکستان کےدورے پر تھے۔ انہوںنے سوچا کہ یہاں یعنی پاکستان کے ایسے لیڈر سےملاجائے جو مافیاز کے خلاف باتیں کرتا ہے ۔ گفتگو کا آغازہوا توعمران خان نے نتیش کمار سے پوچھاکہ ’’بہارمیں تو ہر طرف مافیاکاراج تھا۔ قتل، ڈاکے، اغوا، منشیات فروشی، پیسے کا ہیرپھیر اور غنڈہ گردی عام تھی۔ آپ نے اس تمام صورتحال پر کیسے قابو پایا؟‘‘ نتیش کمار پاکستانی سیاست کے مقبول ترین رہنما کی باتیں سننے کےبعد بولا..... ’’ہاں یہ سب کچھ تھا۔ ایک ایک آدمی نے 70,70 قتل کئے ہوئے تھے۔ اغوا، ڈاکہ زنی اور غنڈہ گردی عام تھی۔ ہر طرف مافیاز کاراج تھا۔ ہماری پارٹی میں بھی مافیاز کے نمائندے شامل تھے مگر میں جس دن وزیراعلیٰ بنا میں نے سوچا کہ میری حکومت جاتی ہے توجائے مگر اصولوں پرسودے بازی نہیں کروں گا۔ میں نے اس بات کی پروا نہیں کی کہ میری پارٹی کے لوگ ناراض ہوجائیں گے۔ میرے اتحادی ناراض ہوجائیں گے، میں نے مافیاز کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ میں نے کہا کہ یہ کافی نہیں کہ ایف آئی آر کٹ گئی۔ ریفرنس بن گیا، میں نے سزائوں کویقینی بنایا۔ جس بہار میں ایف آئی آرکی بنیاد پرصرف بیس فیصد لوگوں کو سزاہوتی تھی میری سختی کےباعث 70سے 80فیصد لوگوں کو سزائیں ہونے لگیں۔ یہی میری کامیابی کاراز ہے۔ اگر کسی ریاست میں سزائوںکویقینی بنا دیا جائے تو مافیاز کا راج خود بخود ختم ہو جاتا ہے.....‘‘

عمران خان آج سے چھ سات برس پہلے بھی بہت مقبول تھے۔ عمران خان کے راستے میں ایک طویل عرصے تک مافیاز حائل رہے۔ اندرونی اوربیرونی دونوں مافیاز نے مل کر تحریک ِانصاف کاراستہ بہت روکا مگر عمران خان مافیاز کی تمام چالوں کو کچل کر اقتدار میں آگئے۔ ان کا آنا بہت سے کرشمہ ساز حاشیہ برداروں کو ناگوار گزر رہا ہے۔ خاص طورپر عمران خان کی تقریر نے تو تمام بدمعاشوں، ٹھگوں، اغوا کاروں، چوروں ، لٹیروں اور ڈاکوئوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ان کی حمایت میں دن رات ایک کرنےوالے بھی پریشان ہیں۔ کرپشن کاحصہ بننے والے تمام بیوروکریٹ بھی پریشانی کےعالم میں ہیں۔ پریشان کن صورتحال میں سیاسی جغادریوں کوسمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں۔ بین الاقوامی چالبازوں کوبھی کچھ زیادہ ہی پریشانی ہے۔ سب احتساب سے پریشان ہیں مگر اس پریشانی کے عالم میں بھی مافیاز یہ کام کر رہے ہیں کہ کسی طرح عمران خان کو راستے سے ہٹا یا جائے۔ الیکشن مہم کےدوران بھی انہوں نے کوشش کی مگر وہ کوشش تو ناکام ہوگئی اب وزیراعظم بننے کے بعد بھی مافیاکی یہی کوشش ہے۔ اسی لئے نیکٹا نے بتایا ہے کہ عمران خان کی زندگی کوشدید خطرات ہیں۔ اس سازش میں اندرونی اور بیرونی چالبازشامل ہیں۔ ان خطرات کےباوجود عمران خان کس طرح ڈٹا ہوا ہے اس کااندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ چند روز پہلے صبح کے وقت ڈپٹی چیف آف پروٹوکول وزیراعظم کے پاس آئے اور انہوںنے وزیراعظم سے کہا کہ سر ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ اس پر وزیر اعظم نے کہا کہ کوئی حکم نہیں، مجھے پروٹوکول کی ضرورت نہیں۔ آپ آرام سے بیٹھیں اور آئندہ مجھے پوچھنے نہیں آنا۔ اس نے کوئی اوربات کرنا چاہی مگر وہ پھر ناکام ہوئے۔ وہ بات یہ تھی کہ اس نے پوچھا کہ اقوام متحدہ جانے والے وفد کے پروٹوکول کا کیاکرنا ہے؟ اس پر وزیراعظم نے کہا کہ وہاں کوئی لمبا چوڑا وفد نہیں جارہا، آپ جایئے۔

ایک دوسرا واقعہ بھی سن لیجئے۔ ایک ایڈیشنل سیکرٹری چالیس بندوں کی فہرست کے ساتھ وزیر اعظم کے پاس گئے۔ وزیراعظم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تیکھا بیوروکریٹ بولا ’’سر! یہ یو این جانے والے وفد کے نام ہیں۔‘‘ وزیراعظم نے حیرت سے پوچھا کہ ’’40افراد؟‘‘ اس پر بیوروکریٹ نے چالبازی دکھاتے ہوئے کہا کہ ’’سر ! اس سے پہلے 80,70افراد جاتے تھے۔ آپ کی کفایت شعاری مہم کےاحترام میں ہم نے 40افراد کی فہرست ترتیب دی ہے۔‘‘ وزیراعظم عمران خان نے پھر پوچھا ’’مگر یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ اس سوال پر بیوروکریٹ نے تفصیل بتانا شروع کی۔ ’’سر! اس میں وزارت ِ خارجہ کےافسران، ان کی بیگمات، صحافی، پروٹوکول کاعملہ اور کوآرڈی نیٹرز ہیں۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ وزیراعظم نے یہ کہا کہ ’’ان کا کیا کام ہے؟ یہ وہاں کیا کریں گے؟ آپ نے میری تقریر سنی ہے۔ وہ تقریر سننے کے لئے نہیں تھی عمل کرنے کے لئے تھی۔ اس پر عمل کریں۔ ان افراد کاوہاں کوئی کام نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے فہرست پھاڑ دی گئی اوروزیراعظم نے واضح کیا کہ وہاں صرف چار افراد جائیں گے۔ انہیں کسی پروٹوکول کی ضرورت نہیں۔زیادہ خرچے کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کوپتا ہونا چاہئے کہ ہمارا ملک مقروض ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں بھی رہنے کی ضرورت نہیں۔

ایک تیسرا واقعہ بھی سن لیجئے۔ اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی کے ایک کزن بیوروکریٹ ہیں۔ کرپشن کے نزدیک بھی نہیںجاتے۔ انتہائی ایماندار افسر ہیں۔ وہ ڈرے ہوئے تھے کہ عمران خان کی حکومت ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرےگی۔ عمران خان نے اس بیوروکریٹ کوبلایا اور کہا کہ تمہاری شہرت بہت اچھی ہے۔ تم ایک عمدہ افسرہو۔ میری خواہش ہے کہ تم میرے ساتھ کام کرو۔

حالیہ دنوں میں عوام بہت خوش ہیں کہ چلو کوئی تو آیا جس نے لوگوں کا درد محسوس کیا۔ درد کے علاج کا سوچا ورنہ یہاں ایسے بھی آتے رہے جنہیں لوگوں کے دکھوںکا احساس ہی نہیں تھا۔ وہ افسران خوش ہیں جو کرپشن کے خلاف ہیں۔ وہ تمام لوگ خوش ہیں جو معاشرے کوکرپشن سے پاک دیکھنا چاہتےہیں۔ اس صورتحال میں صرف وہ پریشان ہیں جوہر طرح سے لوٹ مار کوروا رکھنا چاہتےہیں۔ ایسے افراد کی مایوسی اور پریشانی کے بارےمیں جب میں نے وزیراعظم کے سیاسی امور کے مشیر نعیم الحق سے پوچھا تو انہوں نے عمران خان کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کا ایک شعر سنایا کہ؎

حضور حق میں اسرافیلؑ نے میری شکایت کی

یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین