• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاید دنیا میں عمران خان سے زیادہ کوئی پاکستانی معروف و مقبول نہیں۔ جب تیس اکتوبر کو لاہور میں جلسہ ہوا تھا تو ہارون الرشید اور مجیب الرحمٰن شامی اسٹیج پر اکٹھے تھے۔ مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ ’’اتنا بڑا جلسہ پہلےکبھی نہیں ہوا‘‘۔ ہارون الرشید نے پوچھا ’’کیا یہ جلسہ محترمہ فاطمہ جناح اور ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں سے بھی بڑا ہے‘‘ تو شامی صاحب بولے ’’بے شک اُن سے بھی بڑا ہے‘‘۔ دلوں پر حکومت کرنے والے اِس رہنما کے راستے میں قدم قدم پر دیوار کھڑی کی گئی مگر وہ بھی یہ سوچ کر کہ ’’میں بڑا تھا مری مشکل بھی بڑی ہونی تھی‘‘ کہیں رکا نہیں۔ فصیلیں گراتاہوا بڑھتا چلا گیا۔ بائیس سال کی اعصاب شکن جدوجہد منزل سے ہمکنار ہوئی۔ عمران خان وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ رفیقانِ شب اور تو کچھ نہ کرسکے۔ اُس عمران خان پر دھاندلی کا الزام لگا دیا جس کی دیانت داری کی پوری قوم معترف ہے۔ ’’میں جس کا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں‘‘۔ انہیں عمران خان کے وزیراعظم بننے کی اتنی تکلیف ہے کہ رات کو سوئے سوئے اٹھ بیٹھتے ہیں کہ ہائے یہ کیا ہوگیا۔ دامن ِ شب میں خطرے کی گھنٹیاں مسلسل بج رہی ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے نعیم الحق، شعیب بن عزیز کو حضرتِ اقبال کا یہ شعر سنارہے تھے۔

حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی

یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا

اورمیں سوچ رہا تھا شہرِ شب کے شہر یاروں کے دل دہلا ر ہے ہیں۔ یہاں نامزد گورنر چوہدری سرور بھی تھے۔ تبدیلی کے سورج کو دیکھ کر اتنے پُر جوش تھے کہ بات کرتے ہوئےچہرہ تمتما رہا تھا۔ قومی اسمبلی میں جیتنے کے بعد پہلی تقریر۔ کپتان نے احتساب کا نام لیا، لٹیروں کے چہرے اتر گئے۔ قوم سے خطاب کیا تو معید پیرزادہ نے حیرت سے کہا ’’اکہتر سال میں ایسی تقریر نہیں سنی‘‘ ہارون الرشید جو کئی معاملات میں اختلاف کررہے تھے پکار اٹھے کہ یہ تقریر دل کو چھو گئی ہے۔ سچائی میں بے پناہ طاقت ہے

وہ جو کہتے ہیں کپتان کے خوابوں کی تعبیر ممکن نہیں۔ وہ تھوڑا سا وقت تو دیں۔ اہل ِ نظر کا رویہ مختلف ہے۔ پی کام لاہور میں فواد چوہدری اور شعیب بن عزیز کی میٹنگ تھی۔ میں سن رہا تھا۔ شعیب بن عزیز کہہ رہے تھے۔ ’’عمران خان کی ٹیم نے اگر دلجمعی سے کام کیا تو پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لئے ایک سال کافی ہے‘‘۔ میں اِس ٹیم کو ذاتی طور پر تو نہیں جانتا مگر جنہیں جانتا ہوں وہ بھی عمران خان کی طرح ہار ماننے والے نہیں۔ فتح اپنی ہتھیلیوں پر لئے پھرتے ہیں۔ سب سے پہلے اُس جوان ِرعنا کا ذکر، جس نے اچکزئی سے قوم کو نجات دلائی۔ پاکستانی مائوں نے قاسم سوری کو ڈھیروں دعائیں دی ہیں۔ میں نے قاسم سوری کو تنویر حسین ملک کی آنکھوں سے دیکھا۔ میں تنویر ملک سے زیادہ مردم شناسی میں کسی کی رائے کو اہمیت نہیں دیتا۔ قاسم سوری واقعی کچھ کر جانے کی لگن کا نام ہے۔ میں نے ایک تقریب کی ویڈیو دیکھی جس میں یہ سردار اپنے لشکریوں کے ساتھ ناچ رہا تھا۔ بے شک شیر شاہ سوری کی نسل سے تعلق رکھنے والا یہ قاسم سوری مجھے بہت اچھا لگا۔ قاسم سوری آج عمران خان کا ایک نوجوان جرنیل ہے۔ کسی زمانے میں عمران خان کا جدِامجد ہیبت خان نیازی، شیر شاہ سوری کا جرنیل ہوا کرتا تھا۔ تاریخ کے تناظر میں عمران خان اور قاسم سوری میں ایک تعلق یہ بھی ہے مگر اب شیر شاہ سوری عمران خان ہیں اور ہیبت خان، قاسم سوری۔ نہ کوئی گھمنڈ ہے نہ کوئی رعونت۔ ایک سنجیدہ سا پڑھا لکھا نوجوان جو بڑے بڑے کام کرنے کا عزم لے کرعمران خان کی ٹیم میں شامل ہوا ہے۔

ڈاکٹر نورالحق قادری مذہبی امور کے وزیر، اُن سے میرادیرینہ تعلق ہے۔ حیران کن حد تک دیانت دار، انتھک، ذہین اور روشن خیال عالمِ دین ہیں۔ متین، ملنسار اور خلیق آدمی ہیں۔ تیسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بنے ہیں، وزیر بھی رہ چکے ہیں، دامن پر کوئی داغ نہیں۔ گھر کے چار افراد طالبان کے ہاتھوں شہید ہوئے مگر حوصلہ نہیں ٹوٹا۔ ان میں بے پناہ قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ مذہبی خانوادہ سے تعلق رکھنے کے باوجود تنگ نظری چھو کر نہیں گزری۔ جب وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے تو مفتی منیب الرحمٰن جیسی مذہبی شخصیت نے لکھا تھا ’’اِن جیسی باکردار اور وضع دار شخصیت کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے امید کی ایک کرن نمودار ہوئی ہے‘‘ بابر اعوان پارلیمانی امور کے مشیر بنائے گئے ہیں۔ میں تھوڑے بہت پارلیمانی امور کے معاملات بھی جانتا ہوں جب ڈاکٹر شیر افگن پارلیمانی امور کے وزیر ہوتے تھے میں ساتھ ہوتا تھا۔ اس وقت یقیناً پی ٹی آئی میں بابر اعوان سے زیادہ پارلیمانی امور سمجھنے والا اور کوئی نہیں۔ انہوں نے آتے ہی وزارت میں اپنے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے کا اعلان کیا اور وزارت کے افسران سے کہا ’’یہ ایک بدلا ہوا دور ہے۔ توقع ہے کہ آپ اس دور کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال لیں گے‘‘۔ وہ صرف ایک سیاست دان اور اعلیٰ پائے کے وکیل ہی نہیں۔ ایک ادیب بھی ہیں شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ کالم نگاری بھی کرتے ہیں۔ اُن کی انگلیاں نبضِ سیاست پر رہتی ہیں۔مستقبل بینی میں کمال رکھتے ہیں اور فواد چوہدری جنہوں نے پی ٹی وی کو بی بی سی کی طرز پر ایک خود مختار ادارہ بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وزارت ِ اطلاعات ایسے حیرت انگیز کام کرے گی جن کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے تک سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کیا یہ بات عجیب و غریب نہیں کہ پی ٹی وی حکومت کے ساتھ اپوزیشن کو بھی پوری کوریج دے رہا ہے۔ قارئین صبح ہورہی ہے۔ سورج اپنی شعاعوں کے ساتھ طلوع ہوچکا ہے۔

آخر میں انصار عباسی کے ایک سوال کا جواب کہ سلیم صافی نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ نوازشریف وزیراعظم ہائوس میں اپنے قیام کے دوران کچن کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔اس میں غلط بات کونسی ہے۔ اُنکی خدمت میں عرض ہے کہ غلط بات صرف اتنی ہے کہ وہ ’’قیام کے دوران اخراجات جیب سے ادا کرتے رہے‘‘۔ یہ بات حقیقت کے برعکس ہے۔ یہ رقم انہوں نے نااہل ہونے کے کافی عرصہ بعد جمع کرائی جب انہیں کہا گیا کہ وزیراعظم ہائوس کے اخراجات کا آڈٹ ہونے والا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین