• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018پاکستان کی تاریخ میں خوش قسمت ترین سال کے طور جانا جائے گا۔ یوں کہ بدترین خود غرضی، کرپشن اور انتظامی اختیارات کے بے رحمانہ استعمال سے تیار اسٹیٹس کو ، تبدیلی کی محدود لیکن جرأت مند اور با شعور طاقت سے انتخابی معرکے میں شکست کھا کر ایوان ہائے اقتدار سے غالب حد تک باہر ہوا ہے۔ اس کے پس منظر میں جمہوری عمل کا لازمہ ’’احتساب بمطابق آئین و قانون‘‘ بالائی سطح سے شروع ہو کر نیچے کی جانب جاری پہلے ہی ہو چکا تھا۔ گویا، فقط اور جیسے تیسے انتخابات سے تشکیل پانے والی جمہوریت میں بھی آئین و قانون کی بالادستی، ایک بڑا قومی مطالبہ اور تبدیلی کی نئی سیاسی قوت کا ذریعہ بنا اور بالائی سطح کا قابل اعتماد سرچشمہ انصاف و احتساب بھی سب سے بڑھ کر وزیر اعظم عمران خان کی شکل میں شدت سے مطلوب قومی قیادت کا بحران ختم نہیں تو کمتر ہو گیا۔ ملک کو ایک دیانت دار، عوام کا درد رکھنے والی جرأت مندانہ اور باشعور قیادت بالآخر نصیب ہو ہی گئی۔ اور یہ سب کچھ عشروں سے اسٹیٹس کو میں جکڑی بے بس قوم کی مکمل بے بسی میں نظر آتی بنتی قدرتی راہ اور پھر بقول صدر مملکت جناب ممنون حسین، پانامہ لیکس کے آسمانی نزول سے ہوا ۔ قوم کا بڑا حصہ جاگ گیا، اسے نظر آ گیااور بیدار عوام نے پڑھ لیااور پڑھ کر سمجھ لیا کہ پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور یہ کون کر رہا ہے؟

25جولائی کے عام انتخابات کے نتائج سے بپا ہوئی تبدیلی بہت واضح ہے احساس و اطمینان ، امکان و اعتماد ہماری حاصل اور مزیدکی شکل میں اس کا ہر رنگ قابل دید ہو گیا، حتیٰ کہ جغرافیائی سرحدوں سے باہر ہماری مملکت کا زاویہ ہائے نگاہ مملکتوں میں تبدیل ہو گیا،حالانکہ انتخابی عمل کوئی زلزلہ بھی نہیں ہوتا جس کے سرحدوں کی بندش سے آزاد جھٹکے دور دور تک محسوس ہوتے ہیں، لیکن ہمارے الیکشن 18سے بپا تبدیلی بیرون دنیا دور دور سے دیکھی جا رہی ہے، جسے خوش دلی اور نئی امیدوں کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ از سر نو تعلقات کی خواہش کا اظہار کہاں سے نہیں ہو رہا؟

نئی عمران حکومت اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوری عمل جاری و ساری کرنے، گورننس کوکرپشن فری بنانے اور نتیجہ خیز ٹاپ ڈائون احتساب ان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے ، ان ہی کی انتھک سیاسی جدوجہد کے باعث ن لیگی حکومت کے ہوتے ہوئے شروع ہو چکا ۔ لہٰذا قوی امید ہے کہ ا ن تینوں سمتوں میں تو مزید پیش رفت ہی ہو گی۔ جس سے کتنے ہی دوسرے مسائل حل ہونے میں مدد ملے گی۔ اہم ترین یہ ہے کہ حقیقی جمہوری عمل کے لئے عمران خان اپنی پارٹی میں شفافیت کا اہتمام کریں۔ پارلیمان میں قانون سازی کی کوالٹی کو مطلوب درجے پر لانے کے لئے ہائی پوٹینشل پارلیمنٹرینز کی ٹاسک فورس تشکیل دیں جو اپنا فوکس پروپییل قانون سازی اور اس کی راہ میں حائل اسٹیٹس کو کی رکاوٹوں کو ختم کرنے کی حکمت عملی تجویز کرے۔ ایک تجویز گزشتہ ’’آئین نو‘‘ میں بھی پیش کی گئی تھی، اس پر بھی غور کرے۔ وگرنہ اس امر کا خاصا خدشہ ہے کہ قومی اسمبلی کا جو غالب پوسچراب بھی اسٹیٹس کو کے رنگ میں رنگا ہے وہی غالب ہے۔ یہ صورت وفاقی کابینہ میں بھی ہے لیکن ابتدائی اجلاسوں میں ہی وزیر اعظم عمران خان کی فقط موجودگی نہیں بلکہ مکمل سنجیدگی اور دلچسپی نے ان اجلاسوں کو نتیجہ خیز بنایا ہے اس سے قوم کو حوصلہ ملا ہے کہ وزیر اعظم بدستور (انتخابی نعروں اور وعدوں کے مطابق) حکومت میں آ کر بالائی سطح کے احتسابی عمل کو ابتداءاقتدار میں ہی اپنے حکومتی ایجنڈے میں ترجیح پر لے آئے ہیں، گویا یہ بمطابق آئین پاکستان ملکی گورننس میں پائیدار ہوتا جا ئے گا۔ انہوں نے ملک کی اقتصادی حالت بدلنے اور ٹیکس چوری کی جگہ ٹیکس کلچر متعارف کرانے کے لئے اسٹیٹس کو کے حکمرانوں کے لئے اس ممنوعہ موضوع کو بالآخر پوری سنجیدگی سے ایڈریس کر دیا۔ اگر ٹیکس نیٹ بڑھانے میں کامیابی کے بعد بمطابق قانون، وصولی بھی ممکن بنانے میں بھی ابتدائی کامیابی ہو گئی تو اس سے جاری سنگین اقتصادی بحران سے نکلنے اور معیشت کو سنبھالا دینے کی امید جاگ جائے گی اور صورتحال پہلے کے مقابل کہیں زیادہ بہتر ہو جائے گی۔ تاہم، یہ خدشہ خارج از امکان نہیں کہ ٹیکس بار کرنے کے برسوں سے عادی صنعت کار، تاجر اور بڑے بڑے پیشہ ور فیز ایف بی آر کے بدنام بدعنوان اس حوالے سے عمران حکومت کو واقعی ٹف ٹائم دے سکتے ہیں، اس واضح خدشہ میں ہی حکومت کی رٹ قائم کرنے اور نظام ٹیکس کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کا امتحان ہو گا۔

بہترین راہ تو یہ ہے کہ صنعت کاروں، تاجروں کو پرکشش ترغیبات اور اقتصادیات کی بحالی کا یقین دلائیں اور سازگار حالات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس وصولی والے روایتی بابوئوں کو احتساب کی وارننگ سے مطلوب ٹیکس کی وصولی اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کی راہ نکالی جائے۔

کابینہ کے ابتدائی اجلاسوں میں جہاں ، ٹیکس وصولی اور نیٹ بڑھانے ، احتساب کو کڑا اور پائیدار کرنے جیسے بالائی سطح کے موضوع حل اور اقدامات کے ساتھ ایڈریس کیے گئے ، وہاں بگڑے پاکستانی گورننس کلچر کو سٹریم لائن کرنے اس میں سے تعیشات کا اخراج ، سادگی کی اختیاریت، کے عملی اقدامات کا اعلان ہوا وہاں ان پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا۔ کچی آبادیوں کے انفراسٹرکچر کی اصلاح اور انہیں بنیادی سہولتوں سے مزین کرنے جیسے گراس روٹس لیول کے مسائل اور حل سے متعلقہ ایک ٹاسک فورس قائم کرنے کا اطلاق ہوا اور بڑے شہروں میں صحت و صفائی اور شجرکاری کی صورتحال پر اسکی اصلاح کے اقدامات کا اعلان بھی ہوا۔اس میں وفاقی حکومت کس طرح اور کس حکمت عملی سے صوبائی حکومتوں کے اشتراک و تعاون کو ممکن بنائے گی۔ کیونکہ ان کے عدم تعاون اور خود بھی کچھ نہ کرنے کی صورت میں ٹکرائو کا خدشہ پیدا ہوتا ہے، جسے ٹالنا اور اصل ہدف کو حاصل کرنے کیلئے صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لینا، پی ٹی آئی حکومت کو بڑا چیلنج ہے۔

حکومتی سیٹ اپ کی تشکیل اور اسکے ابتداءمیں ہی سرگرم ہونے تک ایک فکر مندی کی خبر یہ آئی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی سیکورٹی کا معاملہ خاصا حساس اور نازک ہے لیکن یہ خود عمران خان کا نہیں اب وزارت داخلہ اور ملکی سلامتی کے اداروں کا فریضہ ہے کہ موضوع پر منتخب قیادت کی اپنی سوچ اور انداز واضح ہونے کے بعد یہ قومی ضرورت روایتی انداز سے پوری نہیں ہو گی، اسے مقصد حاصل کرنے کے یقینی اقدامات اور باوقار طریق سے پورا کرنا سیکورٹی کے متعلقہ اداروں کی ذمے داری ہے، امید ہے کہ وہ اسے پورے قومی جذبےاور چوکسی سے بمطابق ضرورت پورا کریں گے۔

عمران خان حکومت بنتے ہی اور اس سے قبل یہ ’’بن رہی ہے‘‘ کے یقین پر عمران (بطور وزیر اعظم) مخالف اپوزیشن اتحاد نے قوم کو یہ یقین دلانے کی پوری کوشش کی اور کر رہی ہے کہ ، جمبو سائز اپوزیشن عمران حکومت کو ٹف ٹائم دے گی۔ وہ تو جتنا متحد ہو گی اتنا ضرور دے گی، لیکن یہ سوال بددستور ہے کہ یہ کتنا متحد ہو گی؟ پھر کرپشن سے داغدار ہونے کے باعث یہ سوال بھی کہ کیا کرپٹ اپوزیشن، کرپشن کی بیخ کنی پر تلی بیٹھی حکومت کو ٹف ٹائم واقعی دے سکتی ہے جبکہ احتسابی عمل بمطابق پہلے ہی نتیجہ خیز اور پائیدار ہو چکا۔ ہاں !عمران حکومت کو ٹف ٹائم اور پراسرار سازشوں کا بڑا خطرہ اسٹیٹس کو کی دس سال سے بڑی بینی فشری اس افسر شاہی سے ضرور ہے جو اب شاہی تو نہیں رہی، لیکن افسری تو اس کی ہے جو اسٹیٹس کو کا شاہکار بھی ہے اور فنکار بھی ۔ اس پر نظر رکھنا اور اسے انتقامی رویے سے محفوظ رکھ کر سٹریم لائن کرنا اور جو ہر حالت میں قابل احتساب ہیں ، انہیں احتسابی عمل میں لانا، یہ عمران حکومت کی ایک بڑی ضرورت ہو گی۔ قصہ مختصر ، عمران حکومت پاکستان میں ایک ایسی حکومت آئی ہے جس کے امکانات کم ہوں گے نہ خدشات۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین