• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کسی راستے پر چلتے چلتے کہیں آگے نکل جائیں، کسی غلط سمت میں مڑ جائیں یا راستہ ہی بھول جائیں، یوٹرن آپ کو اپنے راستے پر نہ صرف واپس لاتاہے بلکہ گم ہوجانے یا بھٹکنے سے بھی بچا لیتا ہے۔ کسی بھی چھوٹی بڑی سڑک پر ہر کچھ قدم یا چندفرلانگ پر یوٹرن بنائے جاتے ہیں،یوٹرن 180 ڈگری میں گھوم کر اسی سمت میں واپس جاتا ہے جہاں سے آمد ہورہی ہوتی ہے۔ بعض مقامات پر یوٹرن ہونے کے باوجود ’’یوٹرن لینا منع‘‘ کا وارننگ بورڈ آویزاں بھی ہوتاہے جس کا مقصد ٹریفک کا بہائو بغیر کسی رکاوٹ جاری رکھنا ہوتا ہے۔ تاہم موٹرویز وغیرہ پر یوٹرنز نہیں ہوتے بلکہ انٹرچینج ہوتے ہیں وہ بھی کم سے کم 40سے45 کلومیٹر کے فاصلے پر جس کا مطلب ہے کہ منزل کے قریب آکر شاہراہ سے اتر جائیں، راستہ سے بھٹک گئے ہیں تو واپس چلے جائیں مطلب اضافی وقت خرچ کریں اور روڈ ٹیکس بھی ادا کریں، تاکہ درست راستے پر واپسی ممکن ہوسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فضائی روٹ میں جہازوں کے لئے یوٹرن کی گنجائش نہیں ہوتی۔

اس معلوماتی مگر دلچسپ موضوع پر لکھنے سے پہلے میں سوچ رہا تھا کہ اگر مبالغہ آرائی نہ کی تو میرا حال بھی ہمارے پیارے ساتھی اور حلیم طبیعت بھائی سلیم صافی جیسا ہوسکتا ہے جو نئے پاکستان میں سچ بولنے کی پاداش میں مسلسل عتاب کا نشانہ ہے لیکن سچ توسچ ہے کہاں چھپتا ہے لاکھ پردے ڈالیں سچ آشکار ہوکر رہتا ہے۔

دنیا بھر میں عام زندگی سے لے کر کارزارِ سیاست واقتدار تک کسی بھی چھوٹے بڑے فیصلے سے پہلے مشاورت اور غور فکر بنیادی اصول ہے، اسی اصول کی بنیاد پر درست اور مضبوط فیصلے کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے، نتائج خواہ کچھ بھی ہوں۔ تاہم کسی بھی معاملہ پر اہم فیصلے پہلے اور غور وفکر بعد میں کیا جائے سمجھ سے بالاتر لگتا ہے۔25 جولائی 2018 کو پاکستان کی سیاست میں تاریخ رقم کی گئی، دو پارٹیوں کی باریاں ختم اور تیسری پارٹی اقتدار میں آگئی۔ طویل جدوجہد کے بعد عمران خان کا وزیراعظم بننے کا دیرینہ خواب پورا ہوگیا۔ کامیابی کے بعد مغلیائی وزیراعظم ہائوس کی بجائے کسی عوامی رہائش میں رہنے کا اعلان کردیا، سیکورٹی آڑے آگئی مجبوراً وزیراعظم ہائوس میں ہی ملٹری سیکرٹری کے تین کمرے کے گھر میں منتقل ہونا پڑا۔ پروٹوکول کی درجنوں گاڑیوں کی بجائے دو گاڑیاں رکھنے کے فیصلے میں بلیو بک کے تقاضوں نے رکاوٹ ڈال دی، وفاقی کابینہ کی تشکیل میں دیرینہ ونظریاتی، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عوامی عالمی ایکسپوژر رکھنے والوں کو وزیر مشیر بنانے کا ارادہ ساتھیوں اور اتحادیوں کی مجبوریوں نے خاک میں ملا دیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب پر کئی کمٹٹد پارٹی رہنمائوں نے انگلیاں چبالیں۔ پہلے فیصلہ کیا کہ طاقتور صوبے پنجاب اور بھاری مینڈیٹ والے صوبے خیبرپختونخوا میں انقلابی سوچ رکھنے والے بلند قامت و کردار وزراءاعلیٰ لگائیں گے، پھر کہیں اپنے بلیک میل کر کے رکاوٹ بنے تو کہیں غربت ومحرومیوں کی بنیاد پر تقرریوں کے آئیڈیے نے وژن اور میرٹ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ وزیراعظم ہائوس کے عملے کو نکالنے کا عندیہ عوامی ردعمل کے خوف سے متبادل روزگار دینے میں بدل گیا۔100دن کا انقلابی پلان دیا پھر کترانے لگے اور عمل درآمد پلان تاوقت سامنے نہ آسکا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ وفاقی حکومت وزیراعظم نہیں وفاقی کابینہ ہے تاکہ فرد واحد کی بجائے تمام فیصلے تمام اداروں کی مشترکہ سوچ بچار اور مشورے سے ہوسکیں، جبکہ رولز آف بزنس 1973 کے تحت کسی بھی عوامی وریاستی مفاد کے فیصلے سے قبل تمام متعلقہ اداروں سے قبل از وقت ادارہ جاتی مشاورت یا رائے لینا ضروری ہے تاہم اس کی پروا کئے بغیر ہفتہ کے روز کی چھٹی کا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو جواباً بیوروکریسی نے مل کر ناکام بنادیا اس کی سبکی مشیر اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ وزیراعظم کو اٹھانا پڑی۔ گورنر بلوچستان کے نام کا اعلان کرکے24 گھنٹوں میں بوجوہ واپس لینا پڑا۔

وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہوچکا ہے اب ریاستی عہدے اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف یعنی صدر مملکت کے عہدے پر انتخاب کا مرحلہ باقی ہےجو 4ستمبر کو ہونا ہے۔ عہدہ صدارت کے لئے کراچی سے تعلق رکھنے والے انتہائی مہذب اور تعلیم یافتہ شریف آدمی ڈاکٹر عارف علوی تحریک انصاف کے مضبوط امیدوار ہیں جبکہ اس اہم تقرر پر بھی اکٹھے بیٹھنے کا فوٹو سیشن کرانے والی اپوزیشن بکھری ہوئی ہے، پیپلزپارٹی نےمشاورت سے پہلے ہی بیرسٹر اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار کھڑا کیا تو بڑی اپوزیشن جماعت ن لیگ اور اتحادی مولانا فضل الرحمان کو اپنا الگ صدارتی امیدوار لے آئے ہیں، اپوزیشن کے اندرونی اختلافات کی شاید بڑی وجہ دوسری بڑی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے سربراہ کو درپیش شدید مشکلات ہیں، وہ نہ صرف ہر صورت کمپرومائز کرنے پر مجبور ہیں بلکہ ہر سطح پر ہر قسم کا تعاون کرنے کو بھی تیار ہیں سو کررہے ہیں، کیسز سے بری ہوگئے تو اپوزیشن بھی کریں گے۔ اس سے قبل بھی تمام تر دعوئوں کے باوجود اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے امیدوار کو ووٹ دینے پر متفق ہوئیں نہ اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے نام پر اتفاق کرسکی تھیں۔ ملک کے گھمبیر اندرونی حالات اور سنگین عالمی معاملات تقاضا کررہے ہیں کہ خان صاحب تمام امور پر الگ الگ سمجھدار، قابل اور متعلقہ شعبوں کے ماہرین پر مشتمل گروپس یا ڈیسک بنائیں۔ متعلقہ شعبوں کے مسائل کا تمام پہلوئوں سے جائزہ اور اس کے حل کی تجاویز لیں اور انہیں پارلیمنٹ کے فورم پر پیش کریں تاکہ تعلیم، صحت، معاشی واقتصادی صورت حال، داخلی سلامتی اور امریکہ سمیت خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کی ٹھوس وقابل عمل حکمت عملی بنائی جاسکے۔ ہم سب عام زندگی میں راستوں پر چلتے ہوئے روزمرہ کے فیصلوں میں بڑی غلطی یا برے نتائج سے بچنے کے لئے اکثر فیصلے بدلتے ہیں جو اچھے کے لئے ہوتا ہے لہٰذا محض تنقید کی بجائے ہمیں سمجھنا چاہئے کہ یوٹرن تو اچھے ہوتے ہیں جو ہمیں بڑی مشکل سے بچاتے ہیں۔ تاہم جمہوریت میں ریاست اور اس کی اکائیوں کو آئین اور جمہور کی مرضی اور توقعات پر پورا اترنے کے لئے چلانا، ایک طویل المدتی اور صبر آزما کام ہے، یہ ایسا چیلنجنگ کام ہے جس کیلئے قوم نے عمران خان جیسے مضبوط کھلاڑی کا بطور مسیحا انتخاب کیا ہے، راستہ مشکل بھی اور طویل بھی لہٰذا سیاسی وجمہوری موٹروے پر سمجھداری، جذبے اور استقامت سے مسلسل سیدھی سمت میں چلنے سے منزل مقصود کا حصول یقینی ہو جائے گا۔

توقع رکھنی چاہئے کہ خان صاحب اپنی فتح کی پہلی تقریر میں سیاسی انتقام نہ لینے کے نعرے کی پاسداری اور وسیع البنیاد سیاسی ڈائیلاگ کاوعدہ جلد پورا کریں گے۔میڈیا کی تنقید کو دشمنی قرار دینا ترک کرکے برداشت کے رویوں کو فروغ دینے کی تلقین اچھی بات ہے لیکن ضروری ہے کہ میڈیا فرینڈلی شخصیت وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ذریعے میڈیا سے مشاورتی عمل کا فوری آغاز کیا جائے۔ سیاسی مخالفین کے حوالے سے ہر سطح پر سمجھ بوجھ کے ساتھ بردباری اور تحمل پر مبنی فیصلوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ کسی کو سیاسی وکٹم کارڈ کھیلنے کا موقع نہ مل سکے۔

تازہ ترین