• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر جاوید اقبال،راول پنڈی

ایک وقت تھا، جب مٹھاس کے لیے عموماً شہد یا گڑ کا استعمال کیا جاتا تھا، پھر انیسویں صدی کے وسط میں سفید چینی متعارف کروائی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شہد اور گڑ کی بجائے اس کا استعمال عام ہوتا چلا گیا،مگر جب استعمال عام ہوا، تو مضر اثرات بھی ظاہر ہونے لگے، جس کے بعد ہی سفید چینی پرباقاعدہ تحقیق کا آغاز ہوا۔ابتدا میں تو اسے چند ہی عوارض کا سبب سمجھاگیا ، لیکن اب کئی تحقیقات کے بعد سفید چینی کو’’ میٹھا زہر‘‘قراردے دیا گیا ہے۔جسے کین شوگر (cane sugar) یا ریفائنڈ شوگر (refined sugar) بھی کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ نشاستے دار غذائیں(جو انگریزی میںکاربوہائیڈریٹس کہلاتی ہیں) جسم میں پہنچ کر میٹابولزم کے عمل سے گزر کر گلوکوز میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور چینی گلوکوز ہی کی ایک قسم ہے۔ چینی کی کئی اقسام ہیں۔جیسے سکروز (Sucrose) ،جوروزمرّہ استعمال کی جاتی ہے،جس کا ماخذ گنا اور چقندر ہے،اسی طرح لیکٹوز (Lactose) دودھ میں پائی جاتی ہے۔ فرکٹوز (Fructose)پھلوں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے،جب کہ دیگر اقسام میں ڈیکسٹروز (Dextrose)، مالٹوز (Maltose) اور گیلکٹوز (Galactose) بھی شامل ہیں۔

چینی میں مٹھاس کے علاوہ کسی بھی قسم کاحیاتین، ریشہ اور معدنی نمک نہیں پایا جاتا ،کیوںکہ چینی بنانے کے عمل میں یہ تمام غذائی اجزاء ضایع ہوجاتے ہیں۔اس لیےاس کےاستعمال کے نتیجے میں سوائے کیلوریز کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اُلٹا اضافی مقدار مضر اثرات ہی مرتّب کرتی ہے، جیسا کہ چینی کے بکثرت استعمال سے دانتوں میں کیڑا لگنے، پائیوریا ، مسوڑھوں کی سُوجن اورشکر کی کمی کا عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔اس عارضے میں خون میں شکر کی مقدار بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے۔ اس کی عام علامات میں تھکن، لرزہ، دِل کی تیز دھڑکن، حافظے کے مسائل، دماغ کو ایک جگہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت میں کمی اور جذباتی ناہم واری وغیرہ شامل ہیں۔نیز، چربی کی مقداربڑھ جاتی ہے ،تو عضلات بھی گُھلنے لگتے ہیں۔ذیابطیس، قلب اور شریانوں کی تکالیف کے امکانات بڑھنے کے ساتھ وقت سے پہلے بڑھاپا بھی طاری ہوسکتاہے۔علاوہ ازیں، لبلبےکی کارکردگی پر بھی مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں ،جو ذیابطیس ٹائپ ٹوکی وجہ بن سکتےہیں،کیوں کہ لبلبہ انسولین خارج کرتا ہے اورجب زائد مقدار میں چینی استعمال کی جائے گی، توظاہر سی بات ہے کہ کام کا دباؤ بڑھ جائے گا اور انسولین بروقت اور ضرورت کے مطابق خارج نہیں ہوپائے گی ۔جب انسولین وافر مقدار میںبن رہی ہو، تو بلڈپریشر بھی بڑھ جاتاہے ۔نیز، اچھا کولیسٹرول کم ہوجاتا ہے اور ٹرائی گلیسرائیڈ کی مقدار میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے امراضِ قلب کا راستہ ہم وار ہوجاتا ہے۔مثلاً دِل کے پٹّھوں میں انحطاط پیدا ہوسکتا ہے،دِل کے خانوں میں کم زوری واقع ہو جاتی ہے اور خُون پمپنگ کا عمل کم زور پڑنے کے سبب ہارٹ اٹیک بھی ہوسکتا ہے۔کئی تحقیقات کے بعد یہ بات بھی تسلیم کی جا چُکی ہے کہ ہر قسم کی مٹھاس سے جسم پر دبائو پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں فری ریڈیکلز کی تعداد بڑھنے سے خلیات کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ بظاہر سفید چینی کے استعمال سے جسم کوطاقت تومِل سکتی ہے، لیکن درحقیقت یہ جسم کی توانائی ختم کررہی ہوتی ہے۔ 

اصل میں چینی میں تھایا مین(Thiamine) نہیں پایا جاتا ،تواسے ہضم و جذب کرنے کے لیےاسے تھایامین دیگر اعضاء سےحاصل کرنا پڑتا ہے، جس کے سبب ان اعضاء میںتھایامین کی کمی واقع ہوجاتی ہے،جو مختلف ذہنی و جسمانی عوارض جیسے اعصابی خلل، نظامِ ہضم کی بے قاعدگی، نظر کی کم زوری، تھکاوٹ، خون کی کمی، دِل کے امراض، پٹّھوں کی کم زوری اور مختلف جِلدی تکالیف کا سبب بن سکتی ہے۔ جسم میں شکر کی مقدار زائد ہونے کے سبب بعدازاں اس میں شدید کمی بھی واقع ہو سکتی ہے،جسے طبّی اصطلاح میں ہائپوگلائی سیمیا کہا جاتا ہے۔اس کی علامات میں تھکاوٹ، سَرچکرانا، ڈیپریشن اورچڑچڑاپن وغیرہ شامل ہے، جب کہ بعض اوقات بے ہوشی بھی طاری ہو جاتی ہے۔اضافی شکر جسم میں گلائیکوجن کی شکل میں ذخیرہ نہیں ہوتی، کیوں کہ ہمارے جسم میں شکر کی ایک مخصوص مقدار ہی گلائیکوجن کی صورت ذخیرہ ہوتی ہے، جو بوقتِ ضرورت جسم کو مہیا کی جاتی ہے،جب کہ باقی بچ جانے والی شکر،جسم میں چربی کی صورت جمع ہوتی رہتی ہے۔ جسم میں بننے والی ایک چربی، ٹرائی گلیسرائیڈ مضر کولیسٹرول ہے۔ جب خون میں ٹرائی گلیسرائیڈ زکا اضافہ ہوتا ہے، تو وہ خون کی نالیوں کی دیواروں سے چپکنے لگتے ہیں،یہاں تک کہ یہ دیواریں تنگ ہوجاتی ہیں۔

علاوہ ازیں،چینی کی زیادتی خون میں تیزابیت بھی بڑھانے کا موجب ہے۔چینی میں کوئی ریشہ نہیں پایا جاتا، اس لیے نظامِ ہضم کے امراض، بالخصوص قبض کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔یورک ایسڈ میں اضافہ، گٹھیا اور بُلند فشارِ خون کا ایک سبب ہے اور چینی کا استعمال یورک ایسڈ کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے۔خون میں شکر کی زیادتی گُردوں کے لیے بھی نقصان کا باعث ہے۔ 

چوں کہ گُردے جسم سے زہریلے مادّے چھان کر خارج کرتے ہیں، مگر جب خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے، تو ایسے مادّوں کے اخراج کے لیے گُردوں کو بھی اضافی کام کرنا پڑتا ہے۔ اور اس دباؤ کی وجہ سے آخر کار گُردے اپنی قوّت کھو بیٹھتے ہیں اور یوں ان کے بگاڑ کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔چینی کو ہضم کے عمل سے گزرنے کے لیے کیلشیم کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن چینی میں چوں کہ کیلشیم نہیں ہوتا، تو اسے یہ کیلشیم ہڈیوں سے لینا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے ہڈیاں کیلشیم کی کمی کا شکار ہو کر کم زور ہونے لگتی ہیں۔ چینی کے زیادہ اور مسلسل استعمال سے کیلشیم اور فاسفورس کے تناسب میں بھی بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔یعنی کیلشیم کی مقدار زائد اور فاسفورس کی کم ہوجاتی ہے۔واضح رہے کہ چینی کھانے کے بعد تقریباً 48گھنٹے تک یہ بگاڑ قائم رہتا ہے،جس کے سبب جسم میں کیلشیم جذب نہیں ہو پاتا کہ اسے جذب ہونے کے لیے فاسفورس کی خاص مقدار ناگزیر ہے۔کیلشیم اور فاسفورس کا تناسب1:2.5ہونا چاہیے۔ اگر کیلشیم فاسفورس سے ڈھائی گنا زائد ہوجائے، توجذب ہونے کی بجائے پیشاب کے راستے خارج ہونے لگتا ہے اور بالآخر ہڈیوں کے انحطاط کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔

سفید چینی کھانے پینے کی عام اشیاء جیسے سافٹ ڈرنکس، مٹھائیوں، آئس کریمز،جوسز، ملک شیکس، کیک و پیسٹریاں، بیکری کی تمام مصنوعات، چائے، کافی، جام، جیلی،ٹافیوں، چاکلیٹس، مختلف مشروبات، حلواجات اور تمام اقسام کے میٹھے پکوان میں بکثرت موجود ہوتی ہے،لہٰذا ان اشیاء کا استعمال ترک کرکے متبادل کے طور پر دیگر کئی اشیاء استعمال کی جا سکتی ہیں جیسے:گنّے کا رس: اگرچہ سفید چینی بھی گنّے ہی کے رس سے تیار کی جاتی ہے، لیکن اس کی تیاری کے دوران تمام غذائی اجزا ضایع ہو جاتے ہیں، جب کہ گنّے کا رس نہ صرف وٹامن بی اور سی کا بہترین ماخذ ہے،بلکہ جسم کو مٹھاس بھی پہنچاتا ہے۔ شہد: سفید چینی کا بہترین متبادل ہے۔ شہد میں75فی صد شکر پائی جاتی ہے،جو41فی صد فرکٹوز اور 34فی صد گلوکوز پر مشتمل ہے اور اس میں موجود وٹامن اے، بی اور سی کی وجہ سے جسم کو مٹھاس ہی نہیں، تقویت بھی حاصل ہوتی ہے۔شیرہ:چینی بنانے کے دوران جس سیال میں سے چینی کشید کی جاتی ہے، اسے راب یا شیرہ کہا جاتا ہے۔ یہ عموماًگنّے یا چقندر کا سیال ہوتا ہے، جس میں30فی صد تک شکر،جب کہ وٹامن بی1،2 اور6 بھی مناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ شیرےکا استعمال کئی امراض، خصوصاً معدے کے السر میں بےحد مفید ہے۔ نیز دورانِ حمل استعمال کیا جائے،تو زچّہ و بچّہ کی صحت بہتر ہوجاتی ہے۔اس کے لیے روزانہ ایک چائے کا چمچ شیرہ ایک کپ پانی میں مِلا کر پیا جائے۔گڑ اور شکر :پُرانے زمانے میں ان دونوں کا استعمال بہت عام تھا، جس کی وجہ سے اُس وقت کے لوگوں کی نہ صرف صحت قابلِ رشک تھی، بیماریاں بھی ناپید تھیں۔یہ دونوںاجزاء گنے کے رس سے تیار کیے جاتے ہیں۔ان کی تیاری کے دوران شیرہ علیحٰدہ نہیں کیا جاتا ہے،اسی لیےتمام ضروری غذائی اجزاء ضایع ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔مختلف اقسام کے پھل :مٹھاس حاصل کرنے کے بہترین ذرائع ہیں۔ اس لیے انہیں چینی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پھلوں میں پائی جانے والی قدرتی شکر جسم کو مضر اثرات سے محفوظ رکھتی ہے۔

(مضمون نگار، القائم اسپتال، راول پنڈی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین