• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو یہ تقریباً ناممکنات میں سے ہے کہ امریکی میڈیا کی عقابی نظروں کے ہوتے ہوئے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان نے یہ جھوٹ بولنے کی جرات کی ہو کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو جو فون کیا اس میں پاکستان کو دہشت گردوں کے خاتمے کا بھی کہا گیا۔لیکن فرض کرلیں کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کا بیان درست بھی ہے تو اسے خوش قسمتی سے زیادہ سمجھنا نادانی ہے کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ اس سے بھی کہیں زیادہ سخت باتیں کہنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اسی طرح نوجوت سدھو کی ہندوستان میں جو درگت بنائی گئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں عوامی سطح پر پاکستان دشمنی تمام حدود قیود سے آزاد ہو چکی ہے ۔ مزید برآں ہندوستان سے سیاست دانوں کی وہ نسل رخصت ہو چکی ہے جو پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی تگ و دو کیا کرتی تھی۔ اس کے الٹ اب ہندوستان میں پاکستان دشمنی سیاست چمکانے کا ویسے ہی ذریعہ بن چکی ہے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بلاول بھٹو تک ہندوستان مخالف نعرے بازی کرنا عوامی تائید حاصل کرنے کا آزمودہ فارمولا تھا۔

میاں نواز شریف کو مودی کا یار کہنے والوں کو اب اندازہ ہو جانا چاہئے کہ ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں کو پاکستان سے دوستی کا کوئی شوق نہیں ہے۔ بلکہ اس کے الٹ جب پاکستان دشمنی کی وجہ سے ہندوستان کی حکمران جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی، صرف ہندو ووٹ کو یکجا کرکے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوتی رہے گی تو وہ کیوں مسلم پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش کرے گی۔ اگرچہ پاکستان میں تو تاثر یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان پاکستان کو اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ اس سے برابری کی سطح پر مذاکرات کئے جائیں:ہندوستان کا اپنے بارے میں امیج (تصور) یہ ہے کہ وہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے جبکہ پاکستان ایک حقیر سا ملک ہے جو معاشی طور پر دیوالیہ پن کے قریب ہے۔

پاکستان میں ’مودی کاجو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘ کے نعرے لگا کرجب کوئی پارٹی حکومت سنبھال لیتی ہے تو وہ امن کے بیانیے کو بڑھاتے ہوئے دونوں ملکوں کی خو شحالی کے لئے بات چیت کرنے کے جتن شروع کر دیتی ہے۔ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ ہندوستان پاکستان سے خراب تعلقات کے باوجود دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی معیشت ہے۔ بظاہر کشمیر میں فوجی کارروائیوں کی وجہ سے اس کواتنا بھاری مالی نقصان ہونا چاہئے تھا کہ وہ صلح جوئی پر آمادہ ہو جاتالیکن عملی طور پر اس کا نقصان اس کی معیشت کا بہت ہی معمولی حصہ ہے۔ اسی طرح ہندوستان فوجیوں کے جانی نقصان کو بھی اتنی اہمیت نہیں دیتا کیونکہ فوج میں بھرتی ہونے والوں کی لا محدود سپلائی موجود ہے۔ اس لئے جب پاکستان اور مسلمان دشمنی سیاسی سطح پر بھی فائدہ مند اور معیشت بھی تیزی سے ترقی کر رہی ہو تو ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں کو اپنا رویہ بدلنے کی کیا ضرورت ہے؟

نریندر مودی کی بی جے پی کی حکمت عملی ہی یہی ہے کہ مسلمانوں، نچلی ذاتوں اور دوسرے مذاہب (عیسائیت وغیرہ) کے خلاف جذبات بھڑکا کر ہندو اکثریت کے برتے پر حکومت کی جائے۔ وہ تو کشمیر میں ظلم و جبر کے علاوہ آسام میں بھی کئی دہائیوں سے رہنے والے مسلمان بنگالیوں کی شہریت ختم کرنے کا اعلان کر چکی ہےتو اس سے کونسی مثبت توقع وابستہ کی جا سکتی ہے۔یہ تو واضح ہے کہ پاکستان جنگ کے ذریعے ہندوستان سے اپنی شرائط منوا نہیں سکتا اور اب ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتا رہا ہے تو اس صورت سے کیسے نپٹا جائے۔ اس سلسلے میں مسلمان ممالک سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کر رہا۔ اس صورت حال میں پاکستان میں ہندوستان مخالف بیانیے کو از سر نو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ساری صورت حال کو سفارتی ناکامی کا نام دے کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا : معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے اور اس کا تعلق غالب مذہبی بیانیے کے ساتھ ہے۔

امریکہ میں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقتدر حکومت سفید فام نسل پرستی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ اس کے لئے روہنگیا اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔بلکہ اس کے الٹ اس کو جنوبی افریقہ میں سفید فام جاگیرداروں کے قتل کی افواہوں پر تشویش ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت تارکین وطن کے بچوں کو ماؤں سے علیحدہ کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتی۔ وہ کھلم کھلا اقلیتوں اور غریبوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں چین کی معیشت کو تباہ کرنا اور دنیا میں فوجی طاقت سے اپنی من مانی کرنا بنیادی باتیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کا ذہن نو آبادیاتی اور اعلانیہ طور پر سامراجی ہے۔ وہ تو نہ صرف غریب ملکوں کو اعلانیہ دبانے کا اظہار کرتی ہے بلکہ کینیڈا اور یورپ کے ممالک کو بھی انگوٹھے کے نیچے دبا کر رکھنا چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں وہ پاکستان کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ آج کا امریکہ باراک اوباما اور جارج بش کے زمانے سے بالکل مختلف ہے۔ پاکستان کے امریکہ مخالف بیانیے کو سننے والی نسل معدوم ہو چکی ہے۔ اب پاکستان کی پرانی پالیسی کو نظر انداز کرنے والے باقی نہیں رہے۔ اس لئے پاکستان کے حکمرانوں اور سفارت کاروں کو چھوٹی چھوٹی چالاکیوں سے کام چلانا بند کرنا پڑے گا اور اسے افغانستان کے بارے میں واضح پالیسی اختیار کرنا پڑے گی۔صورت حال ایسی ہے کہ اس کا اظہار میاں محمد بخش کے اس شعر سے کیا جا سکتا ہے:

پھس گئی جان شکنجے اندر جیوں ویلن وچ گنا

روہ نوں کہو ہن رہوے محمد، ہن رہوے تے مناں

(جان اس طرح پھنسی ہے جیسے بیلن میں گنا۔ رس سے کہو کہ اب (گنے میں )رہ کر دکھائے، اب وہ رہ جائے تو ہم اسے تسلیم کر لیں گے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین