• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر دیکھاجائے توہم زبان والوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں گونگا نہیں بنایا لیکن جب ہم گونگوں کو ہاتھ کے اشاروں سے ایک دوسرے سے پوری روانی کے ساتھ گفتگو کرتے دیکھتے ہیں تو اپنی زبان دانی خطرے میں محسوس ہوتی ہے۔ ہم زبان دانوں کا تویہ عالم ہے کہ فرشتوں کے لکھے پر پکڑے جاتے ہیں اوریہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آدمی کوئی ہمارا دم ”تقریر“ بھی تھا؟ جبکہ گونگے اس آزار سے محفوظ ہیں ان کی ”خوش فہمی“ کا تو یہ عالم ہے کہ انہیں نہ ٹیلی فون کا غلط بل آتا ہے ، نہ رانگ نمبر ملتے ہیں، نہ ہر مہینے لائن مین کی خدمت کرنا پڑتی ہے اور نہ ٹیلیفون والوں کے اتنے پھیرے لگانا پڑتے ہیں کہ لوگ انہیں ”بھائی پھیرو“ کہناشروع کردیں۔ گونگوں کو ایک سہولت یہ بھی حاصل ہے کہ وہ خاصے فاصلے سے ایک دوسرے کے ساتھ گفتگوکرسکتے ہیں۔ اس کے لئے دونوں کی صرف بینائی صحیح ہونی چاہئے۔ ہم ”زبان دان“ سر محفل ایک دوسرے کے خلاف سرگوشیوں میں سازش کرنا شروع کردیتے ہیں جبکہ گونگے یہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ دوسراگونگا ان کی گفتگو ”دیکھ“ رہا ہوتاہے۔ ولی دکنی نے کہا تھا:
عجب کچھ لطف دیتا ہے شب خلوت میں دلبرسوں
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
مگر گونگے تواس شعر کابھی احسان نہیں اٹھاتے۔
گزشتہ ہفتے میں ایک گونگے دوست کی شادی میں شریک ہوا۔ یہاں باراتیوں میں آدھے سے زیادہ گونگے شامل تھے۔ دولہا دلہن سٹیج پربیٹھے پوری محویت کے ساتھ گفتگو میں مشغول تھے(دلہن بھی گونگی تھی) اور دور بیٹھے ہوئے گونگے ان کی ساری گفتگو ”سن“رہے تھے۔ دولہا دلہن کو جب اپنی گفتگو کے ”نشر“ ہونے کا احساس ہوا توانہوں نے فوراً اپنے ہاتھ ”سی“ لئے۔ گونگے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں، ان میں سے اگر کسی میں کمینہ پن پایا بھی جاتا ہو تو اس کاواضح اظہار نہیں ہوتا۔ وہ باہمی طور پر ایک دوسرے کی خامیوں سے آگاہ ہوں گے لیکن ہم لوگ اس سے ایک حد تک بے خبر رہتے ہیں اوریوں حسن ظن کا جو رویہ ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ روا رکھنا چاہئے اور جس طرح دوسروں کی صرف خوبیوں پر نظررکھناچاہئے وہ رویہ ہم کم از کم گونگوں کے ضمن میں ضرور روا رکھتے ہیں اور اسی طرح ان کی وجہ سے ہمارے نامہ ٴ اعمال میں کوئی نیکی بھی لکھی جاتی ہے۔گونگوں کو ہم پرایک فوقیت یہ بھی حاصل ہے کہ ہم زبان والے اپنی زبان اظہار کیلئے نہیں اخفا کیلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ گونگوں کی بے زبانی بھی زبان بن جاتی ہے۔
مجھے اچھی طرح علم نہیں کہ گونگوں میں سیاستدان ہوتے ہیں کہ نہیں؟ تاہم امکان غالب یہی ہے کہ نہیں ہوتے ہوں گے کیونکہ وہ اندھیرے میں گفتگو نہیں کرسکتے، ان کی ساری گفتگو روشنی میں ہوتی ہے۔ میں نے کسی گونگے کو اقتدار میں آتے بھی نہیں دیکھا البتہ اکثر لوگ اقتدار میں آنے کے بعد گونگے ہو جاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے قومی سلامتی کے مسودے ہوتے ہیں اوروہ خاموش رہتے ہیں۔ یوں تو گونگے مجھے بہت پسند ہیں لیکن اس وقت پرابلم پیش آتا ہے جب مجھے ان کے ساتھ براہ راست گفتگوکرنا پڑتی ہے۔ اس صورت میں ہم دونوں کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور یوں لگتا ہے جیسے ہم یواین او میں تقریر کررہے ہیں۔ چنانچہ ایسے مواقع پر ہم آخر میں مشترکہ اعلامیہ جاری کردیتے ہیں کہ ”ملاقات بہت مفید رہی۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہناچاہئے۔ “
میرے ایک دوست کا خیال ہے کہ گونگوں کو صرف میں ہی پسند نہیں کرتا بلکہ بیشتر لوگ مختلف وجوہ کی بنا پرانہیں پسند کرتے ہیں مثلاً ہر میاں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بیوی گونگی ہو۔ صنعتکار چاہتے ہیں کہ مزدور گونگے ہوں۔ زمیندار اپنے مزاروں کو گونگا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مالک گونگے ملازموں کو ترجیح دیتے ہیں اور سب سے زیادہ اگر کسی کو گونگے پسند ہیں تو وہ صاحبان اقتدارہوتے ہیں انہیں عوام کے منہ میں زبان اچھی نہیں لگتی۔ انہیں رپورٹ بھی یہی دی جاتی ہے کہ عالی جاہ سب خوش ہیں کوئی نہیں بول رہا اور یہ جو شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تو یہ آپ کی رعایا ہے جو آپ کی جان کی سلامتی اور اقتدار کی درازی کے لئے گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہی ہے۔ اگر کسی سوداکے بالیں پر شور قیامت زیادہ ہو جائے تو خدا م ادب ”ابھی آنکھ لگی ہے“کہہ کر ظل پناہ کی نیند میں خلل واقع نہیں ہونے دیتے۔ ایک وقت آتا ہے کہ خود عالم پناہ قوت گویائی سے محروم ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ ایسٹ انڈیا کمپنی لے لیتی ہے!
تازہ ترین