• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری سائیڈ ٹیبل پر کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ ہر روز چند صفحوں سے زیادہ پڑھنے کا وقت نہیں ملتا اگرچہ کہنے کو میں ریٹائر ہوچکا ہوں، جب ایک کتاب ختم ہوجاتی ہے تو دوسری کی باری آتی ہے۔ مدت ہوئی عمران خان کے پبلشر نے(جو میرا پبلشر بھی ہے) اس کی کتاب”میں اور میرا پاکستان“ بجھوائی تھی لیکن وہ کتابوں کے انبار میں آرام فرماتی اپنی باری کا انتظار کرتی رہی۔ چند روز قبل اسے پڑھنا شروع کیا تو مجھے خوشگوار حیرتوں نے گھیر لیا۔ پہلی حیرت یہ تھی کہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے بار بار احساس ہوا کہ مصنف جن تجربات ، مشاہدات اور جس ماحول کا ذکر کررہا ہے میں اس سے بہت مانوس ہوں۔ کم کتابیں ایسی ہوتی ہیں، جنہیں پڑھتے ہوئے احساس ہو کہ وہ آپ کے حسب حال ہیں۔ عمران کو میں نہیں جانتا لیکن میرے لئے یہ بھی ایک حیرت تھی کہ وہ علامہ اقبال کے پیغام کی روح کو صرف سمجھتا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور اپنے رویوں، سوچ اور حکمت عملی کو روحانی اور اقبالی کلام کے سانچے میں ڈھالنے کی آرزو رکھتا ہے۔ عمران کی پاکستان سے محبت ،قومی خدمت کے خواب اور جذبے یقین محکم ،اسلام کے روحانی پہلو سے عقیدت، قائد اعظم اور اقبال سے قلبی و ذہنی لگاؤ کی خوشبو قاری کو بہرحال متاثر کرتی ہے لیکن آج میرا ارادہ اس کتاب پر تبصرہ کرنا نہیں بلکہ آپ کو چند ایک دلچسپ مشاہدات بتانا ہے۔ مشاہدات کی کہانی بیان کرنے سے قبل صرف اتنا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میری دعا ہے ملک و قوم کی خدمت کے حوالے سے عمران خان کے خواب پورے ہوں اور ہمیں کرپشن، لاقانونیت، لوٹ مار، غربت، بے روزگاری، وی آئی پی کلچر، معاشی بدحالی اور ملوکیت سے کسی حد تک نجات ملے۔ موروثی قیادت اور خاندانی اقتدار دراصل ملوکیت کی ہی دوسری قسم ہے اور ملوکیت کے خلاف ہی حضرت امام حسیننے بغاوت کا علم بلند کیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پرانے زمانے میں حکمران اپنے بیٹے کو جانشین بناتا تھا اور آج کے دور میں دولت اور سیاسی اثر و رسوخ کے زور پر اولاد کو پارٹی اور قوم پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے آپ اسے ماڈرن ملوکیت کہہ سکتے ہیں۔
عمران خان کے بعض مشاہدات سے گزرتے ہوئے میرے تجربات کے زخم دکھنے لگے۔ دراصل آج کے اس کالم کا موضوع یہی تھا لیکن تمہید قدرے طویل ہوگئی۔ عمران خان نے محترمہ بینظیر کے بارے میں لکھا ہے کہ میں انہیں آکسفورڈ کے ایام سے جانتا تھا اور ان سے بے شمار ملاقاتیں کرچکا تھا۔ عمران خان لکھتا ہے”الیکشن ہوئے، بینظیر وزیر اعظم بن گئیں۔ وزیر اعظم کی بجائے وہ ایک ملکہ جیسی زندگی گزارنے لگیں۔ ان کی وفات کے بعد ولیم ڈلرمیبل نے یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھا کہ” میں نے جب ان کا انٹرویو کیا تو انہیں شاہانہ بلکہ شہنشاہانہ انداز کا حامل پایا۔ وہ میں کی بجائے ہم کہہ کر اپنا حوالہ دیتیں۔ عمران لکھتا ہے کہ1974ء میں جب بھٹو صاحب پاکستان کے حکمران تھے تو نیدر لینڈ کے سفارتخانے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں ضیافت دی گئی، میں نے دیکھا کہ20بیس سال کی یہ محترم خاتون جہاندیدہ سفیر کو ا س طرح حکم دے رہی تھی جیسے وہ ان کا ذاتی ملازم ہو۔ ہم سب کے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ بڑی مستعدی کے ساتھ بینظیر کے لئے کرسیاں سجانے میں جتا تھا… جنوبی ایشیاء میں سیاست کی سرانڈ کا ایک بڑا سبب خاندانوں کا غلبہ بھی ہے بعض اعتبار سے خاندانی سیاست بادشاہت سے بھی بدتر ہوتی ہے“۔
میں عمران خان کا یہ تبصرہ پڑھ رہا تھا تو مجھے لندن کے ایک محترم دوست نسیم باجوہ صاحب یاد آگئے۔ نسیم باجوہ صاحب کئی دہائیوں سے لندن میں آباد ہیں، وکالت کرتے ہیں لیکن لندن میں کئی دہائیاں گزارنے کے باوجود ذہنی اور قلبی طور پر پاکستان میں رہتے ہیں۔ ایک بار یادوں کے دریچے کھولتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ضیاء الحق کی جیلیں اور سزائیں بھگت کر بینظیر لندن آئیں تو ہم چند دوستوں نے ان سے ملاقات کا وقت مانگا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم اس ملاقات میں پیپلز پارٹی جوائن کرنے اور بینظیر کی حمایت کا اعلان کریں گے۔ ملاقات خاصی دیر جاری رہی۔ محترمہ نے چپل نما جوتا پہنا ہوا تھا ، دوران گفتگو ان کے پاؤں سے چیل اتر کر فرش پر گرگئی۔ ایک پارٹی کارکن آگے بڑھا، اس نے نہایت خوشامدانہ انداز سے چپل اٹھائی اور غلامانہ انداز سے بی بی کے پاؤں میں پہنادی، بی بی نے ذرا بھی عار محسوس نہ کی جیسے وہ اس کی خواہشمند اور عادی ہوں۔ باجوہ صاحب کا کہنا تھا کہ یہ انداز ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے مستقبل کی جھلک دیکھ کر پی پی پی جائن کرنے کی بجائے تعزیت کی اور اجازت لے کر واپس آگئے۔ مجھے اور بھی کئی باتیں یاد آرہی ہیں لیکن پھر کبھی سہی، گالیاں کھانے کے لئے آج اتنا ہی کافی ہے۔
عمران لکھتا ہے کہ جونیجو حکومت کو برخاست کرنے کے بعد مجھے میرے دوست اشرف نوابی کا فون آیا۔ اشرف نوابی جنرل ضیاء الحق کا رفیق تھا ۔ اس نے پوچھا کیا تم جنرل صاحب کی کابینہ میں وزیر بننا پسند کروگے۔ میں نے شائستگی سے انکار کردیا۔ اگلے دن جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے ڈاکٹر انوارالحق کا فون آیا کہ ملک کی خاطر میں حکومت کا حصہ بن جاؤں۔ ڈاکٹر انوارالحق نے میری بہت تعریف کی اور بقول ان کے انہیں کابینہ کے لئے دیانتدار لوگوں کی ضرورت تھی۔ عمران خان نے معذرت کرلی۔ اس واقعے کے چند ہی روز بعد جنرل ضیاء الحق اعلیٰ فوجی افسران اور امریکی سفیر کے ہمراہ ایک پراسرار فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔
میں نے جب یہ سطریں پڑھیں تو ماضی کی بعض یادیں ذہن کی کھڑکی پر دستک دینے لگیں ۔ جنرل ضیاء الحق 1977ء میں برسراقتدار آئے تو مجھ پر یہ الزام لگایا گیا کہ میں پی پی پی کا حامی ہوں حالانکہ میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا ۔میں نے اپنا ذاتی ووٹ بھی ائیر مارشل اصغر خان کو دیا تھا۔ زندگی میں اکثر ایسے الزامات پر سزا ملتی ہے جن میں انسان مکمل طور پر بے گناہ ہوتا ہے۔ میں اسے خدائی مار کہتا ہوں اور مجھے یہ مار اکثر پڑتی رہی ہے۔ میرے نزدیک خدائی مار بے مقصد نہیں ہوتی، بہرحال جنرل ضیاء الحق صاحب نے میری تنزلی کا حکم جاری کردیا اور نوکری سے نکالنے کے لئے چارج شیٹ بھی دے دی۔ چارج شیٹ میں الزام تھا کہ تم پی پی پی کے حامی ہو اس لئے کیوں نہ تمہیں نوکری سے نکالا جائے۔ میری زندگی کے اگلے قیمتی چار برس مسائل کی صلیب اٹھائے عدالتوں میں تاریخیں بھگتے گزر گئے۔ چارج شیٹ کے بعد وضاحت کے جواب میں جنرل چشتی کے سامنے بھی پیشی ہوئی جو اس وقت وزیر اسٹیبلشمنٹ تھے لیکن اس دلچسپ کہانی کو کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ میں نے حکومتی فیصلے کے خلاف فیڈرل سروسز ٹریبونل میں اپیل کی جس نے فیصلہ میرے حق میں دے دیا۔ ضیاء حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، کئی سال دھکے کھانے کے بعد سپریم کورٹ نے9182ء میں فیصلہ میرے حق میں کیا۔ تب کہیں وقتی طور پر میری جان چھوٹی۔ یہ فیصلہ پی ایل ڈی میں چھپا ہوا ہے۔ اسے کہتے ہیں خدائی مارکہ جب بی بی پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے مجھ پر میاں نواز شریف کی حمایت کا الزام لگا کر او ایس ڈی بنادیا۔ جس پمفلٹ کے لکھنے کا الزام مجھ پر لگا میں نے اس کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ یہ کہانی بھی دلچسپ ہے کہ اس پمفلٹ کا مصنف نوید ملک تھا جس کا عمران خان نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ بی بی دوسری بار وزیر اعظم بنیں تو ایک تحریک سے غصے میں آکر مجھے چارج شیٹ دے دی۔ پس الزام پھر وہی تھا کہ تم میاں نواز شریف کے حمایتی ہو۔ اس سے قبل کہ بی بی مجھے برخاست کرتی، ان کے اپنے صدر لغاری نے انہیں برخاست کردیا۔
اب منظر بدلتا ہے۔ غالباً 2006ء میں ایک روز مجھے جنرل رفاقت صاحب کا فون آیا۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے چیف آف دی سٹاف رہے تھے۔ انہوں نے جو بات بتائی اس میں میرے لئے غور و فکر کا خاصا سامان تھا۔ کہنے لگے تم اکثر کا لموں میں جنرل ضیاء الحق پر شدید تنقید کرتے ہو۔ آج میں تمہیں ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ آخری دنوں میں جنرل ضیاء الحق بریگیڈئر صدیق سالک کو بدلنا چاہتے تھے ۔مجھے حکم دیا کہ تین ایسے افراد پر مشتمل پینل بھیجوں صدر کے میڈیا ایڈوائزر بننے کے اہل ہوں۔ میں نے سوچ بچار کے بعد سمری بھجوادی۔ صدر صاحب نے ڈاکٹر صفدر محمود کے نام کی منظوری دی۔ اس سے قبل کہ نوٹیفکیشن جاری ہوتا صدر صاحب ہوائی حادثے میں ہلاک ہوگئے اگرنوٹیفکیشن ایک دن پہلے جاری ہوجاتا تو صدیق سالک کی بجائے تم ان کے ساتھ بہاول پور جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچالیا۔
غور کیجئے کہ اس صورت میں نہ میں دنیا میں ہوتا اور نہ آج یہ کالم لکھ رہا ہوتا،رہے نام اللہ کا۔
تازہ ترین