• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمال ہوگیا، دلّی پہنچی تو دیوالی تھی۔ اگلے دن جب کانفرنس تھی تو بھیا روج کا تہوار تھا۔ تیسرے دن نارنگ صاحب کو ایک طرز کا گیان پیٹھ انعام ملنا تھا اور چوتھے دن میں واپس لوٹ آئی۔ آپ کہیں گے بھئی ایسی جلدی کیا تھی۔ اصل میں جاتے ہی پتہ چلا کہ ہم سب کو ایک تقریب میں جانا ہے جس میں نارنگ صاحب کے ستارہٴ امتیاز ملنے کی تہنیتی تقریب ہے جہاں پاکستان کے سفیر بھی تشریف لا رہے ہیں۔ ہم لوگوں نے سوٹ کیس گیٹ پہ پکڑایا اور چل دیئے کانفرنس ہال کی جانب۔ حسب توقع، پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہمارا پہنچنا قیامت ہوگیا۔ ہر سمت سے مبارک سلامت اور سلام کی آوازیں آئیں۔ سب دوست ہی تھے، دل خوش ہوا۔ تقریب سعید میں خوب تحسین کی گئی نارنگ صاحب کی، جس میں سارے پاکستانی وفد کے اراکین بھی شامل تھے اور یوں رات گئے تک یہ محفل جاری رہی۔
اگلے دن منٹو کی صد سالہ تقریبات کی سہ روزہ کانفرنس ساھتیہ اکیڈمی کی جانب سے آغاز ہوا۔ افتتاحی خطبہ انتظار حسین صاحب کا تھا۔ گزشتہ چند سالوں سے انتظار صاحب بلا کسی تکلف بے ساختہ ہی بہت خوبصورت تقریر کرتے ہیں۔ ان کو نظیر اکبر آبادی اور منٹو میں یکساں آدمی نامہ نظر آگیا۔ بس پھر کیا تھا۔ منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی جیسے چہار درویش کی حکایت سے شروع ہوکر آکر رکے نظیر اکبر آبادی پر۔ انتظار صاحب کے بعد ڈاکٹر نارنگ بولے مگر ہر بار کہا کہ بنیادی خطبہ تو انتظار صاحب نے دے دیا اور یوں سلسلہ گفتگو اور بحث شروع ہوگئی۔ پاکستان کے ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا سب کو انتظار تھا۔ یہ مشکل پسند نقاد، مرکز سے حاشئے تک کی بحث کو منٹو کی کہانیاں سمیٹتا ہوا، چل سوچل ہوا۔ آخر جب آدھا گھنٹہ ہوگیا اور ابھی اس کا آدھا مضمون ہوا تھا تو منتظمین نے کہا کہ اب اختتامیہ پڑھ دیں۔ یہ صرف ناصر عباس کے ساتھ نہیں تمام مندوبین کے ساتھ یہی ہوا کہ ہر محقق اور پروفیسر کم از کم ایک گھنٹے کا مقالہ لکھ کر لایا تھا۔کچھ مقالے تو روایت سے ہٹ کر تھے مثلاً اسلم پرویز کا منٹو کے ڈراموں سے متعلق تھا۔ علی احمد فاطمی کا گورکی اور منٹو کی تحریروں میں مماثلت کے بارے میں تھا۔ شافع قدوائی کا قومیت اور منٹو کا تجزیہ تھا۔ بے شمار لوگوں کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کا تجزیہ کرنے میں لطف آیا تھا۔ نہ تھے وہاں فتح محمد ملک، ورنہ سب کے تجزیئے کو ٹھکانے لگادیتے۔ شمیم رحمانی کا مضمون اس علاقے سے متعلق تھا جہاں اکثر بیٹھ کر منٹو صاحب، کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ یوں تو عائشہ جلال کی مرتب کردہ کتاب اور حامد جلال کی تحریروں کا بھی تذکرہ ہوا۔ اسلم پرویز نے ایک نئی کتاب مرتب کی ہے جس میں منٹو کے غیر شائع شدہ خطوط کو جمع کیا گیا ہے۔
کانفرنس کی دوسری شام نائب صدر جمہوریہ انصاری صاحب نے ڈاکٹر نارنگ کو انعام کا مومنٹو اور چار لاکھ کا چیک دینے آنا تھا۔ اس تقریب میں نارنگ صاحب نے اردو غزل کے تہذیبی ورثے کو نہ صرف بیان کیا بلکہ اسی موضوع پر مبسوط کتاب پر انعام بھی حاصل کیا۔ تیسرے دن کی دوپہر کو میں ایئرپورٹ پر تھی۔ یہاں بھی عجب منظر تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہیل چیئر پر نوبیل انعام یافتہ مصنف جناب وی ایس سینپال تھے اور ان کے ساتھ ہماری پرانی دوست اور سینپال صاحب کی بیگم نادرہ موجود تھیں۔ نادرہ اور میں اٹھارہ برس بعد مل رہے تھے۔ دونوں کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ تھوڑی دیر تک تو ہمیں خیال ہی نہیں رہا کہ ہم اکیلے نہیں، بہت لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ سینپال صاحب بہت خاموشی سے ہم دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ جہاز میں آنے کے بعد، ہم دونوں نے بچھڑے ہوئے دوستوں کو یاد کرنا شروع کیا۔ کبھی ذکر تھا محمد خالد اختر کا تو کبھی خالد حسن کا اور کبھی اقبال حیدر کا۔ اب پھر ہم دونوں رو پڑے۔ گڈو کے اکیلے رہ جانے پر افسوس ہوا۔ گڈو کی خوبصورتی کو یاد کیا اور اس کی مصروفیت کو سراہا کہ یوں اکیلے پن کو زیادہ محسوس نہیں کریں گی۔ نادرہ نے اپنے اور سینپال صاحب کی دوسراہٹ کی بڑی تعریف کی۔ کہا کہ میں نے اس شخص کے ساتھ رہ کر زندگی کا حسن پایا ہے۔ اس بات پر بھی نازاں تھی کہ سینپال صاحب، نادرہ کے بچوں کو بہت پیار کرتے ہیں۔ بھلا سینپال صاحب اور نادرہ، دلّی کیا کرنے آئے تھے۔ دراصل سینپال صاحب کی عمر اب 88 برس ہوگئی ہے۔ ان کا وزن بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ نادرہ ان کو خاص یوگا ایکسر سائزیز کرانے کے لئے آئی تھی۔ بولیں میں نے بھی خوب یوگا کیا اور سینپال صاحب کو بھی کروایا۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ سینپال صاحب بولیں مگر وہاں تو جیسے چھوٹے بچے خاموش رہ کر بس مسکراتے ہیں۔ بس میری اور نادرہ کی باتیں سن کر سینپال صاحب مسکراتے ہی رہے۔کچھ ہی دیر بعد لدی پھندی ایک خاتون جہاز میں داخل ہوئیں اور سامان وہیں رکھ کر لپٹ گئیں۔ یہ بیگم سلمیٰ احمد تھیں جو کہ چیمبر آف کامرس کی وائس پریذیڈنٹ ہیں اور ہندوستان میں تجارتی سطح پر تعلقات سدھارنے کے لئے لائحہ عمل بنانے کو دلّی آئی تھیں۔ارے ایک اور شخصیت کا تو حوالہ دینا مجھے یاد ہی نہیں رہا۔ ویسے یاد رہنے کی بات بھی نہ تھی، یہ تھے جنرل پرویز مشرف جو دہلی آئے ہوئے تھے اور تقریروں میں ارشاد فرمایا کہ کارگل وغیرہ جیسے واقعات میں کوئی غلطی نہیں تھیں۔ البتہ آج کل جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے، وہ سب غلط ہے۔ یہ بھی کہا کہ میری پارٹی الیکشن میں ضرور حصہ لے گی مگر اخباروں میں پہلے اور آخری صفحے پر ان کو کوئی جگہ نہیں ملی۔ بس درمیانے صفحوں پر درمیانی سی خبر ہی دیکھی گئی۔ اردو کے اب کئی اخبار، نہ صرف دلّی سے نکلتے ہیں بلکہ ممبئی اور دیگر شہروں کے اخبارات بھی نکلتے اور دلّی آتے ہیں۔ ان اخباروں میں میرا کالم باقاعدہ نقل کیا جاتا ہے کہ کانفرنس کے سارے شرکاء نے یکے بعد دیگرے حوالہ دیا کہ آپ نے یہ لکھا اور آپ نے وہ لکھا۔ پٹنہ، اڑیسہ سے لے کر ممبئی تک سارے شہروں میں یہ کالم پڑھے جاتے ہیں۔اس سارے مجمع میں ایک صاحب رحمن نام کے تھے جنہوں نے عالمی اردو ٹرسٹ بنایا ہوا ہے۔ ہمارے بابر اعوان کی طرح وکیل ہیں کہ ان کا بھی لائسنس آج کل معطل ہے مگر تقریبات خوب کرتے ہیں۔ نارنگ صاحب کی ستارہ امتیاز کی تحسین کی تقریب بھی انہوں نے ہی منعقد کی تھی۔ علی صاحب نہیں رہے ان کی جگہ لینے کو رحمن صاحب آگئے ہیں۔ یہ تحسین بھی کی گئی کہ جامعہ میں اردو کو لازمی مضمون قرار دیا گیا ہے اور یوں اب لوگ یعنی نوجوان اردو پڑھا کریں گے!
تازہ ترین